لاہور (جدوجہد رپورٹ) 220 سے زائد خواتین افغان جج طالبان حکومت میں انتقامی کاررائیوں کے خوف سے روپوش ہیں۔ جن خواتین ججوں نے خواتین کے خلاف تشدد، عصمت دری، قتل سمیت دیگر جرائم میں ملوث افراد کو سزائیں سنا رکھی تھیں، وہ طالبان حکومت میں جیلوں سے رہا ہونے کے بعد اب سزا دینے والی خواتین ججوں کو تلاش کرنے، انہیں دھمکانے اور مارنے کی کوششوں میں ہیں، جبکہ سابق خواتین ججوں کے پاس روپوش ہونے کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’بی بی سی‘ سے بات کرنے والی 6 خاتون ججوں نے ان کے ساتھ ہونے والے واقعات بتائے ہیں۔
معصومہ (فرضی نام) نے بطور جج اپنے کیریئر کے دوران سیکڑوں مردوں کو عورتوں کے خلاف تشدد، عصمت دری اور قتل سمیت دیگر جرائم میں مجرم قرار دیا لیکن طالبان کے قبضے کے بعد ہزاروں سزا یافتہ مجرم جیلوں سے رہا کر دیئے گئے۔ اب معصومہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ”ٹیکسٹ پیغامات، وائس نوٹس اور نامعلوم نمبرں سے فون کالوں کی بھرمار ہو رہی ہے۔ آدھی رات کو جب ہم نے سنا کہ طالبان نے تمام قیدیوں کو رہا کر دیا ہے تو ہم فوراً بھاگ گئے، ہم نے اپنا گھر اور سب کچھ چھوڑ دیا۔“
گزشتہ 20 سالوں میں 270 خواتین افغانستان میں بطور جج تعینات ہوئی تھیں اور ملک کی کچھ طاقتور اور نمایاں خواتین، عوامی شخصیات کے طور پر جانی جاتی ہیں۔
بی بی سی کے مطابق کم از کم 220 سابقہ خواتین جج اس وقت پورے افغانستان میں روپوش ہیں۔ سب کو ان طالبان اراکین کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں جنہیں وہ سزائیں سنا چکی ہیں۔
تمام ہی سابق ججوں نے اپنے موبائل نمبر بھی تبدیل کر دیئے ہیں اور چھپتی پھر رہی ہیں، ہر چند دنوں بعد انہیں اپنی رہائش تبدیل کرنا پڑتی ہے۔
طالبان اراکین کی جانب سے ان کے گھروں اور ٹھکانوں سے متعلق پوچھ گچھ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔