فورتھ انٹرنیشنل
ترجمہ: سلیم شیخ
پچھلے ایک ماہ یا اس سے بھی کچھ زیادہ عرصے سے یوکرین کے ارد گرد تشویشناک حد تک فوجی کشیدگی میں اضافے نے یورپ اور دنیا کو ایک ایسے سنگین خطرے سے دو چار کر دیا ہے جس نے آج پھر سرد جنگ کے عروج کے زمانے کے سنگین بحرانوں کی یا د تازہ کر دی ہے: مثلاً کوریا کی جنگ (1953-1950ء)، 1962ء کا کیوبا میزائل بحران یا 1980ء کی دہائی کے اوائل میں یورو میزائل اور سوویت SS 20 کی تعیناتی جب رونالڈ ریگن نے یورپ میں ٹیکنیکل جوہری ہتھیاروں کو نصب کرنے کے امکان پر بات کی تھی۔
زبانی کلامی نوک جھوک میں بڑھتی حدت اور فوجی سرگرمیوں کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی ایک مسلح تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ یہ تصادم جس کی شدت چاہے کم ہو یا زیادہ، اس کا اثر مقامی سطح تک ہی محدود رہے یا اسکے اثرات دور تک محسوس ہوں، اس میں روایتی ہتھیار استعمال ہوں یا جوہری ہتھیار، یہ اوپر بیان کردہ بحرانوں سے کہیں زیادہ سنگین بحران ہے جس کا پہلا شکار گو کہ یوکرائنی عوام ہونگے مگر اس جنگی کھیل کے مرکزی کردار بھی اس کے سنگین اثرات سے بچ نہیں پائیں گے خاص طور پر یورپ کے عوام۔
ہمیں آج ایک دوہرے چیلنج کا سامنا ہے
۱۔ یوکرین کو اسکی سلامتی سے متعلق ان خدشات کا جواب دینا جو اسے اپنی سرحدوں پر روسی فوجیوں کی موجودگی، جس کا بظاہرمقصد مبینہ طور پر یوکرین کو نیٹو کا حصہ بننے سے روکنا ہے، کی وجہ سے لاحق ہیں۔
۲۔ ایسے اقدامات اٹھانا جن کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی زبانی اور مسلح جنگی جنون کی آگ جو یوکرین کے ساتھ ساتھ سب کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، کو ٹھنڈا کرنا۔
نیٹو کے بارے میں ہمارے موقف کے دو حصے
دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد ہی فورتھ انٹرنیشنل نے نیٹو کے قیام کی مخالفت کی اور اس کے بعد بھی یہ مطالبہ کیا کہ اس فوجی اتحاد کو 1991ء میں وارسا معاہدے کے ساتھ ختم کر دیا جائے۔
ساتھ ہی ہم روس کی اس سامراجی بیان بازی اور رویے کی بھی مذمت کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یوکرین کے عوام کی بڑی تعداد اپنے تحفظ کے لیے نیٹو کی طرف دیکھتی ہے۔ ہر طرح کی غیر ملکی افواج (نیٹو اور روسی) کا انخلا اور فوجی غیر جانبداری ہی یوکرین کی آزادی کی واحد ضامن ہے۔
نیٹو کا رکن بننے یا نہ بننے کا فیصلہ یوکرائنی عوام کی آزادانہ رائے کے مطابق ہونا چاہئے نہ کہ بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والی بلیک میلنگ اور مذاکرات کے نتیجے میں۔
موجودہ غیر مستحکم جغرافیائی سیاسی صورت حال کو بدتر بنانے میں درج ذیل عوامل کا اہم کردار ہے
٭ روس توانائی جیسے اہم شعبے میں اپنے کردار اور طاقت کے باعث یورپی یونین اور امریکہ کی توانائی کے شعبے میں بدلتے ہوئے حالات (خاص طور پر قابل تجدید توانائی کے استعمال اور منتقلی سے جڑے ہوئے مسائل اور انکے توانائی کے شعبے میں روس پر انحصار) اور اس وقت موجود انتہائی اقتصادی اتار چڑھاؤ اور ایک نئے مالیاتی بحران کے حقیقی خطرے، افراط زر کے مسائل، توانائی کی کمی اور قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی جیسے بڑے مسائل کافائدہ اٹھانے کے قابل ہے۔
٭ سابق سوویت یونین سے الگ ہونے والی ریاستوں میں مسلح تنازعات کا طویل سلسلہ (جن میں 2014ء سے جاری یوکرین کے بحران سے لے کر جارجیا، آرمینیا اور آذربائیجان، چیچنیا تک تنازعات شامل ہیں) اور پھر روسی فوجی طاقت کی تعمیر نو کا ایک طویل اور صبرآزما عمل، اس کے علاوہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے ہونے والی ناکامیوں اور ذلتوں کا ازالہ، بیلا روس اور قازقستان پر روس کی ایک بار پھر گرفت کا نسبتاً مضبوط ہونا…یہ وہ عوامل ہیں جس نے پوٹن کی یوکرین میں اس زبردست طاقت کا مظاہرہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
٭ اس کے علاوہ، امریکہ کے اپنے سیاسی نظام کا بحران اور اندرونی عدم استحکام خاص طور پر کیپیٹل ہل پر باغیانہ حملے کے بمشکل ایک سال بعد ہی ٹرمپ کو خود کو حاصل استثنیٰ کے ساتھ دوبارہ وائٹ ہاؤس میں واپس آتے ہوئے دیکھنا اور دوسری جانب یورپی یونین اور سب سے بڑھ کر خود روس میں پچھلے دو سال کی کووڈ کی وبائی بیماری، آمریت، بدعنوانی اور جبر کے خلاف بغاوت کے واقعات۔
٭ 2014ء سے کریمیا پر روس کے قبضے کے بعد یوکرین میں تنازعات سے نمٹنے کے لیے وجود میں آنے والے ’نارمنڈی فارمیٹ‘(فرانس، جرمنی، روس، یوکرین پر مشتمل ایک گروپ) میں تعطل۔
پوتن اور بائیڈن دونوں کو ہی ایک طرف اپنے اپنے ملکوں کے داخلی مسائل کے باعث اور اپنی اپنی قانونی حیثیت کے دوبارہ حصول اور اسے مستحکم کرنے کے لیے اپنے آپ کو ان معاملات اور شعبوں میں ایک مضبوط اور جارح رہنما کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے جن میں انکے لیے اپنے اثر و رسوخ کا اظہار ضروری ہے۔
پوتن کو پروسٹرایکا کے بعد سے پہلی دفعہ روس میں اٹھنے والی آمریت مخالف مظاہروں کی سب سے بڑی لہر سے نمٹنا ہے جس کا روس کو پچھلے کئی مہینوں سے سامنا ہے، اسکے علاوہ بدعنوانی اور عدم مساوات کے مسائل الگ ہیں۔ ساتھ ساتھ سٹالن کے بعد کے پدرانہ نظام کے (روس کا بحیثیت ایک بڑے اور طاقتور ملک کے آس پاس کے چھوٹے ملکوں پر اثر و رسوخ) خلاف بغاوتیں (بیلاروس، قازقستان وغیرہ میں روس کی پٹھو حکومتوں کے خلاف عوامی مظاہرے)۔ یہ سب بھی پوتن کے لئے درد سر ہیں۔
دوسری جانب بائیڈن کے سر پر ایسے میں وسط مدتی کانگریس کے انتخابات کی تلوار لٹک رہی ہے جب افغانستان سے ذلت آمیز انخلا اور ملک میں اپنی داخلی پالیسیوں کے حوالے سے مایوس کن کار کردگی کے باعث بائیڈن کو اتنی ہی غیر مقبولیت کا سامنا ہے جتنی غیر مقبولیت کا اپنی صدارت کے آخری مہینوں میں ٹرمپ کو سامنا تھا۔
روس کے اندر پوتن کی بقا بھی براہ راست اس کی خارجہ پالیسی کے موقف پر منحصر ہے۔ پوتن کو 2024ء میں اپنی چوتھی صدارتی مدت کے اختتام پر یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ اقتدار کی کرسی سے مزید چمٹے رہیں یا پھر اقتدار (اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر) اپنے کسی ’جانشین‘کے حوالے کریں۔ اس ’طاقت کی منتقلی‘ کا عمل جبکہ تمام سیاسی اداروے ہی مکمل انحطاط کا شکار ہیں صرف اور صرف اس بات پر منحصر ہو گا کہ کس طرح پوتن اپنے فیصلے اور اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے بیوروکریٹک اور امرا پر مشتمل اشرافیہ کو اپنے اردگرد اکٹھا کرتے ہیں۔
ساٹھ سالوں میں ایٹمی جنگ کا پہلا خطرہ
ان کے بیانات میں جھلکتا تکبر ان کی سیاسی کمزوری کا غماز ہے: ’مجھے امید ہے کہ پوتن کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گا کہ وہ ایٹمی جنگ سے زیادہ دور نہیں ہیں‘۔
’پوتن مغرب کو آزمانا چاہتے ہیں تو انہیں اس کی جو قیمت ادا کرنی ہو گی اس پر انہیں پچھتانا پڑے گا‘۔
بائیڈن نے یہ بات 20 جنوری کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ اس قسم کے جنگجوانہ بیانات، چاہے وہ اشاروں کنایوں میں دیے جائیں یا پھر پوکر کھیلنے والے جواری کی طرح ایک جھوٹی چال کا حصہ ہوں، کبھی بھی بے ضرر اور جنگی جنون کے بے قابو ہونے کے خطرے سے عاری نہیں ہوتے۔
روس کی جانب سے یوکرین کی شمالی اور مشرقی سرحدوں پر فوج کے بڑے پیمانے پر ارتکاز کے پیچھے یوکرین کی نیٹو میں مبینہ شمولیت کا یہ خوف ہے کہ مستقبل میں نیٹو یوکرین میں اس کی سرحد کیساتھ جوہری ہتھیار نصب کر سکتی ہے۔
سوویت یونین کے خاتمے اور وارسا معاہدے کی تحلیل کے 30 سال بعد: نیٹو کی توسیع اور روسی سامراج کی تعمیر نو
جب میخائل گورباچوف نے 30 سال قبل وارسا معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو نیٹو کے رہنما نیٹو کے معاہدے کو تحلیل کرنے پر رضامند تھے اور یہ ضمانت دی گئی کہ آسٹریا کی طرح جو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے ایک غیر جانبدار ملک ہے، مستقبل میں دوبارہ متحد ہونے والا جرمنی بھی ایک غیر جانبدار ملک ہو گا، مگر ایسا نہ ہوا اور متحدہ جرمنی نہ صرف نیٹو اتحاد میں شامل ہوا، بلکہ اس کے بعد سے نیٹو مشرق کی طرف ان بیشتر ممالک میں جوپچھلے 45 سال سے سوویت بلاک کا حصہ تھے میں مسلسل پھیلتا گیا۔
1999ء میں پہلے پولینڈ، جمہوریہ چیک اور ہنگری۔ پھر 2004ء میں بلغاریہ، ایسٹونیا، لٹویا، لتھوانیا، رومانیہ، سلواکیہ اور سلووینیا اور اس کے بعد 2009ء میں البانیہ اور کروشیا اور آخر میں 2020ء میں شمالی مقدونیہ بھی نیٹو کا حصہ بن گئے۔
حقیقتاً نیٹو کی یہ توسیع یورپ میں امن پھیلانے کے بجائے وہاں تناؤ میں اضافے کا باعث بنی جس نے ایک عظیم روسی سلطنت کی توسیع پسندانہ منطق کی حوصلہ افزائی کی اور نتیجتاً یہ تو سیع یورپی یونین اور ماسکو کے زیر تسلط یوریشین یونین کے درمیان واقع ممالک کو نقصان پہچانے کا سبب بنی۔
یوکرین کی سرحد کے ساتھ روس کی فوجی نقل و حرکت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ بائیڈن نے کیوں اسٹریٹجک ہتھیاروں کو تعیناتی پر مذاکرات کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور یوکرین کی نیٹو کے رکنیت ایجنڈے میں شامل نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
تاہم، یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خود امریکی ایف بی آئی کی اپنی رپورٹس کے مطابق، یوکرین میں یانوکووچ کی حکومت کا تختہ الٹنے اور کریمیا کے روسی الحاق اور ڈونباس میں علیحدگی کی تحریک کے آغاز کے بعد سے، یوکرین بین الاقوامی فاشسٹ تحریک کے لیے ایک تربیت گاہ بن چکا ہے۔
یوکرین نے روس مخالف جنگجوؤں کو یوکرائنی ملیشیاؤں میں اسی طرح ضم کرنے کے لیے بھرتی کیا ہے جیسے اسلامی بنیاد پرستوں نے افغانستان میں جنگ کو پہلے جنگجوؤں کی بھرتی کے لیے استعمال کیا (اس وقت سی آئی اے اور پاکستانی ملٹری انٹیلی جنس کے ذریعے القاعدہ کی تشکیل کی گئی)، پھر یہ ہی عمل بوسنیا میں جنگ کے دوران دہرایا گیا اور اب حال ہی میں، عراق اور شام میں (داعش کی دہشت گردی کی صورت میں)…لیکن دوسری جانب نام نہاد ”People’s Republic of Donetz“ بھی فاشسٹ اور انتہائی قوم پرست سلاو جنگجوؤں کو بھرتی کر رہی ہے۔
منطقی طور پرباوجود روسی فوج کے یوکرین کی سرحدوں پر ارتکاز اور بالٹک ریاستوں میں تعینات نیٹو فوجیوں اور امریکی ہتھیاروں کی موجودگی کے، خوش قسمتی سے اب بھی بات چیت کی گنجائش موجود ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دونوں فریقوں کی جنگی بیان بازی، انکی اندرونی سیاسی کمزوریوں اور اداروں کے انحطاط نے صورت حال کو انتہائی کشیدہ بنا دیا ہے جس میں کسی موزوں حل تک پہنچنا مشکل ہو گا۔
فوجی حماقتوں سے معاشی حماقتوں تک: بائیڈن کی ’پابندیوں‘ کی دھمکیاں
بائیڈن اور نیٹو کے جارحانہ انداز کے باوجود، یورپی طاقتیں اس بات پر منقسم ہیں کہ کیا کرنا ہے۔ جہاں ایک طرف فرانس اور جرمنی کسی بھی فوجی مہم جوئی کا حصہ بننے سے ہچکچاتے نظر آتے ہیں وہیں ’ترقی پسند‘ ہسپانوی حکومت کا محکومانہ رویہ خاص طور پر قابل رحم حد تک افسوسناک ہے۔
منطقی طور پر، اس منظر نامے میں جرمنی وہ اہم ملک ہے جسے معاشی نقصان ہونے کا شدید خطرہ ہے اور ساتھ توانائی کے حوالے سے اسکا روس پر بہت انحصار ہے۔ بائیڈن نے ایسی معاشی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی ہے جن کا پہلے کبھی استعمال نہیں کیا گیا جیسے روس کو عالمی ”SWIFT“ ادائیگیوں کے نظام سے خارج کرنا یا روس سے یورپ جانے والی ”Nord Stream 2“ گیس پائپ لائن کو کاٹنا۔
ان دھمکیوں کے جواب میں پوتن نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب امریکہ کے ساتھ ’تعلقات کا مکمل خاتمہ‘ ہو گا۔ اگر روس، جو کہ پہلے ہی پچھلے کچھ مہینوں سے جغرافیائی و سیاسی دباؤ کے اقدام کے طور پر یورپ کو اپنی گیس کی برآمدات کی قیمتوں میں جان بوجھ کر اضافہ کر رہا ہے اگرگیس کی قیمت میں مزید اضافہ یا پھر مکمل سپلائی بند کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تواس کے وسطی یورپ کے بیشتر حصوں پر وسیع سماجی و اقتصادی اثرات مرتب ہونگے جس میں صنعتی سرگرمیوں میں زبردست کمی اور بجلی اور حرارتی نظام کی فراہمی میں تعطل شامل ہے۔
دوسری طرف، اگر روس کو ”SWIFT“ نظام سے نکال دیا جاتا ہے، تو مغربی مالیاتی اثاثوں میں 56 بلین ڈالر اور روسی کمپنیوں میں رکھے گئے 310 بلین یورو کی سلامتی کو روس کے جوابی ردعمل کے نتیجہ میں شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا (کچھ مغربی حکام ایسی کسی بھی پابندی کے بارے میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایسا کرنا حقیقت پسندانہ نہیں ہے)۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک توانائی، مالیاتی اور تجارتی ایجنڈے پر ہونے والی جنگ عالمی معیشت کے لیے مہلک ثابت ہو گی جو پہلے ہی پچھلے دو سال کی وبائی بیماری، چالیس سالہ طویل کساد بازاری، مالیاتی اداروں کے بے مہار پھیلاؤ اور نیو لبرل ڈی ریگولیشن کے باعث پہلے ہی شدید عدم استحکام کا شکار ہے۔ آخری لیکن سب سے اہم نتیجہ یہ ہو گا کہ روس اور چین کے درمیان مزید جیو اکنامک اور جیو پولیٹیکل تعلقات اور تعاون میں اضافہ ہو گا، جو واشنگٹن میں بیٹھے پا لیسی سازوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔
غیر یقینی صورتحال
امریکی اور برطانوی حکام ملک پر روسی حملے کے خطرے کے تناظر میں اپنے شہریوں کو یوکرین چھوڑنے کا حکم دے رہے ہیں۔ ایسے اقدامات جنگی نفسیات کو جنم دینے اور حالات کو مزید کشیدہ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم، جرمنی نے یوکرین کو سابقہ جی ڈی آر (مشرقی جرمنی) کے اسلحے کی فراہمی کو ویٹو کر دیا ہے جس کا کچھ بالٹک ریاستیں مطالبہ کر رہی تھیں۔ دوسری جانب یوکرین کے لیے اسلحہ لے کر جانے والی برطانوی فوجی پروازیں جرمن فضائی حدود میں پرواز کرنے سے اجتناب کر رہی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر سیاست دانوں یا صحافیوں کے بجائے موجودہ صورتحال پر کچھ فوجی اہلکار زیادہ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔
بقول جرمن مسلح فوج بنڈیسوہر کے سابق انسپکٹر جنرل ہیرالڈ کجات ’میڈیا اس تنازع کی آگ میں ایندھن جھوک رہا ہے، مجھے یہ لگتا ہے ان میں سے کسی کو یہ اندازہ نہیں کہ جنگ کا اصل مطلب کیا ہے…یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم جنگ کو روکنے کے بجائے صرف جنگ کرنے کی بات کرتے رہیں‘۔
روس کی سیاسی صورتحال اور پوٹن کے ارادے
روس، جس کا فوجی بجٹ عالمی فوجی اخراجات کے 3 فیصد کے برابر ہے (یاد رہے کہ ہم یہاں دنیا کی دوسری سب سے بڑی روایتی فوج کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس کی زمینی افواج کی تعداد امریکہ کی زمینی افواج کے مساوی ہے جبکہ جوہری ہتھیار بھی تقریباً امریکی جوہری ہتھیاروں کے ذخیرہ کے برابر ہیں)، نیٹو میں اسٹریٹجک تقسیم اور اسکے اندرونی بحران کے تناظر میں ایک انتہائی خطرناک عدم استحکام کا کھیل کھیل رہا ہے جو نیٹو کے فوجی اتحاد کی جانب سے انتہائی جارحانہ ردعمل کو جنم دے سکتا ہے۔
سرد جنگ کے زمانے کے ماضی میں پھنسے بائیں بازو کے اکثر لوگ پوٹن کی ایک نئے زار بننے، اُمرا شاہی اور قوم پرستانہ پالیسیوں کو جنہوں نے شام، بیلا روس اور قازقستان میں حقیقی بغاوتوں اور عوامی انقلابات کو کچلنے اور روسی فیڈریشن میں اپوزیشن اور جمہوری و عوامی قوتوں کو دبانے دھمکانے میں اہم کردار ادا کیا ہے کو لینن کی انقلابی، پرولتاری اور بین الاقوامی پالیسیوں کے ساتھ گڈ مڈ کر دیتے ہیں اور یہ دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ روس کی خارجہ پالیسی بلاشبہ ایک رجعتی پالیسی ہے۔
روسی معاشرے میں غربت اور عدم مساوات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے (امریکہ سے بھی زیادہ)۔ درحقیقت، روس جس ’دنیا کے نئے خاکہ‘ کی بات کرتا ہے اسکا مطلب اس 20 ویں صدی کے اوائل کے سامراجی نظام کے احیا کے سوا کچھ نہیں ہے جہاں دنیا کے ممالک بڑی طاقتوں کے مفادات کے درمیان منقسم ہوں اور چھوٹے ممالک اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنے کے حق سے محروم ہوں۔ اس نقطہ نظر سے روس امریکہ پر یہی الزام لگاتا ہے کہ اس نے پوری دنیا پر اکیلے ہی بادشاہت قائم کی ہوئی ہے (پوتن کا مشہور جملہ) اور وہ (امریکہ) اسے باقی عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ بانٹنے کو تیار نہیں ہے۔
اگرچہ زیادہ تر مغربی میڈیا کے لیے پوتن اور ’خوفناک‘ لاوروف (روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف) ہی فلم میں واحد ولن ہیں، مگر سچ یہ ہے کہ، بقول آسکر لافونٹین (جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سابق رہنما)، ’دنیا میں قاتلوں کے بہت سے گروہ ہیں اور اگر ہم ان جرائم کی وجہ سے ہونے والی تمام اموات کو شمار کریں، توان میں واشنگٹن کا مجرم گروہ سب سے بدترین ہے‘۔
روسی عوام کوآج جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے امن اور ایک ایسی جمہوری اور مقبول اپوزیشن جو سٹالن کے بعد کے زمانے کی نوکر شاہی اور مافیا کے طرز کی امرا شاہی کے درمیان قائم اس کمزور اتحاد کو توڑ سکے جس پر پوتن کی آمریت کی بنیاد کھڑی ہے، اس قوم پرستانہ ہسٹیریا کو ختم کر سکے جو اس رجعتی اتحاد کو جلا بخشتا ہے اور جو نوجوانوں، خواتین اور محنت کش طبقات کے مطالبات کو ایک بین الاقوامی جدوجہد کا دوبارہ سے حصہ بنا سکے۔
موجودہ حالات میں ہم کیا توقع کر سکتے ہیں؟
یہ کہنا کہ روس ’یوکرین پر حملہ‘ اور پورے ملک پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، ایک بے کار سی بات ہے۔ بوڈاپیسٹ کی گلیوں میں 1956ء کے سوویت قبضے کے بعد جو ہوا تھا اسکے آثار آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہنگری میں اس وقت جو کچھ ہوا وہ آج اگر یوکرین میں دہرایا گیا تو وہاں جو کچھ ہو گا اسکے مقابلے میں ہنگری کے واقعات بچوں کا کھیل لگیں گے۔
غالب امکان اس بات کا ہے کہ پوتن بیلا روس،کیلینن گراڈ اور دیگر قریبی علاقوں میں ’ٹیکٹیکل‘ جوہری میزائل نصب کرنے کی حدتک ہی محدود رہیگا۔ مزید یہ کہ یوکرین کے علیحدگی پسند علاقہ ڈونباس کے روس کے ساتھ الحاق کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تیل اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور ان میں اضافہ جاری رہنے کا امکان، کریملن کو اس طرح کی کارروائیوں کے معاشی اخراجات برداشت کرنے میں مدد دے گا۔ اسکے علاوہ اگرچہ اس بات کا بہت کم امکان ہے (کیونکہ یہ بہت زیادہ پرخطرہ اور جس میں بہت زیادہ خونریزی یقینی ہے) مگر اس امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ روسی فوجی ڈونباس (ماریوپول) کے جنوبی علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے چڑھائی کر دے تاکہ جنوب مغربی سمت میں اسے جزیرہ نما کریمیا سے ملا کر دونوں باغی علاقوں پر مشتمل ایک سکیورٹی بیلٹ قائم کر سکے۔
یورپ اور دنیا میں انقلابیوں، امن پسند اور جمہوری قوتوں کی ذمہ داری
موجودہ حالات یورپ میں امن کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب حالات کشیدگی کی بلند ترین سطح پر پہنچ جاتے ہیں تو وہ پھر کسی کے قابو میں نہیں رہتے۔ کوئی معمولی سا حادثہ ان حالات کے بے قابو ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف فوری طور پر ایک بین الاقوامی تحریک متحرک اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایشیا پیسیفک کے علاقے میں جاری کشیدگی بھی یوکرین میں بڑھتی کشیدگی سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ سامراجی قبضے کی بھوک اور اس پر بڑی طاقتوں کے معاشی و سماجی مسائل اور انکے اندرونی اداروں کا بحران دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر، ہم تمام سیاسی، سماجی، قومی، علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی سطح پر متحرک ہوں اور بائیں بازو کے بین الاقوامی اور یکجہتی کے جذبے کو دوبارہ سے پروان چڑھائیں۔