راولاکوٹ (حارث قدیر) جامعہ پونچھ کے چھوٹا گلہ کیمپس کی عدم تعمیر کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی کی 4 خواتین سمیت 16 افراد نے راولاکوٹ میں تادم مرگ بھوک ہڑتال کا آغاز کر دیا ہے۔
منصوبے کے تعمیراتی کام میں طویل تعطل کے خلاف اہل علاقہ کی تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام گزشتہ کئی ماہ سے احتجاجی تحریک جاری ہے۔ بدھ 09 فروری کو ڈیڈ لائن پوری ہونے پر تادم مرگ بھوک ہڑتال کا آغاز کیا گیا۔
راولاکوٹ کے جوڈیشل کمپلیکس کے مرکزی دروازے کے ساتھ بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین کی استدعا پر خواتین نے دن کو ہی بھوک ہڑتال موخر کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
تاہم عوامی ایکشن کمیٹی کے 12 اراکین، جن میں خالد محمود، عامر علی ثاقب، طاہر محمود، حبیب اسلم، خالد محمود، آزاد لطیف، سعید اعظم، شاہد شارف، عبدالرحیم قادری، محمد جمیل، زاہد رفیق اور دیگر شامل ہیں، منجمد کر دینے والی سردی میں بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ اور کویت فنڈ (ایس ایف ڈی اور کے یو) کے تعاون سے تعمیر ہونے والے اے جے کے یونیورسٹی کے چھوٹا گلہ کیمپس (جو اب جامعہ پونچھ کا چھوٹا گلہ کیمپس ڈکلیئر ہو چکا ہے) کی تعمیرات کا کام گزشتہ 11 سال سے تعطل کا شکار ہے۔ 90 کروڑ روپے سے زائد خرچ ہونے کے باوجود تعمیر شدہ حصہ تمام ٹیسٹ رپورٹس کے مطابق ناقابل استعمال قرار دیا جا چکا ہے۔ دو ٹھیکیدار کام چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں، جبکہ تیسرے ٹھیکیدار کو بھی 3 سال قبل جولائی 2019ء میں ٹھیکہ الاٹ ہونے کے 4 ماہ بعد ٹھیکہ منسوخ کر کے فارغ کر دیا گیا تھا۔
بعد ازاں یونیورسٹی آف پونچھ کے وائس چانسلر نے سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ اور ایرا کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مذکورہ تعمیرات کی ذمہ داری یونیورسٹی کو فراہم کئے جانے کی اپیل کی تھی۔ یونیورسٹی انتظامیہ باقی ماندہ تعمیراتی کام خود کروانے کے عزم کا اظہار کر رہی تھی، تاہم انہوں نے بھی ابتدائی تعمیراتی کام ناقص ہونے سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے ہاتھ کھینچ لیا۔
2005ء کے زلزلہ کے بعد پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں سمیت دیگر عمارات اور انفراسٹرکچر کی تباہی کے بعد متعدد عالمی اداروں نے امداد کے طورپر اور سافٹ لان (آسان قرض) کے تحت منصوبہ جات کی تعمیر کا اعلان کیاتھا۔ اسی سلسلہ میں اس وقت یونیورسٹی آف ’آزاد کشمیر‘ (پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر) کے مظفرآباد اور راولاکوٹ کیمپس کی تعمیر کیلئے سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ اور کویت فنڈ کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا۔
2006ء میں ہونے والے اس معاہدہ کے تحت سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ نے فنڈز مہیا کرنے تھے جبکہ ارتھ کوئیک ری ہیبیلیٹیشن اینڈ ری کنسٹرکشن اتھارٹی (ایرا) نے اس پراجیکٹ کی نگرانی کرنی تھی۔ منصوبہ کے تحت یونیورسٹی آف اے جے کے (کنگ عبداللہ کمیپس چھتر کلاس) مالیتی ساڑھے 5 ارب روپے اور یونیورسٹی آف اے جے کے چھوٹا گلہ کیمپس (کنگ عبداللہ کیمپس چھوٹا گلہ) 2 ارب روپے سے زائد مالیت کی رقم سے تعمیر ہونا تھے۔
مظفرآباد کیمپس 2018ء میں مکمل ہو چکا ہے، جبکہ چھوٹا گلہ کیمپس کی تعمیر کا کام تاحال التوا کا شکار ہے۔ چھوٹا گلہ کیمپس کیلئے 2007ء میں حصول اراضی قانون کے تحت راولاکوٹ کی نواحی یونین کونسل چھوٹا گلہ سے 550 کنال اراضی مقامی آبادی سے حاصل کی گئی تھی، جبکہ 2011ء میں باضابطہ تعمیرات کے آغاز کیلئے ٹھیکہ الاٹ کیا گیا تھا۔ ابتدائی کام کا آغاز کیا گیالیکن تعمیرات کا یہ عمل تاحال نصف بھی نہیں ہو سکا۔
تعمیراتی کام کے تعطل کا شکار ہونے کا ذمہ دار ٹھیکیداروں کی طرف سے ایرا کو قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ ایرا کی جانب سے ٹھیکیداروں کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔
تیسرا ٹھیکہ 12 جولائی 2019ء کو تین کمپنیوں ایم ایس النور بلڈرز اینڈ کنسٹرکشن، گل کنسٹرکشن اور ٹرپل اے بلڈرز اینڈ ٹریڈرز کو الاٹ کیا گیا تھا، جس کی مالیت 97 کروڑ روپے تھی۔ ایرا کے مطابق اس سے قبل 90 کروڑ روپے کا کام مکمل ہو چکا ہے، جس کی ادائیگیاں اس سے قبل تعمیراتی کام کرنے والے دو ٹھیکیداروں کو کی جا چکی ہیں، جبکہ ٹھیکیدار اس سے زائد رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ عدالت سے رجوع کر چکے ہیں۔
دوسری جانب سائٹ کنسلٹنٹ کمپنی نیو ویژن انجینئرنگ کنسلٹنٹس کی جانب سے مذکورہ منصوبہ پر تکمیل شدہ کام کی سائٹ وزٹ رپورٹ 9 اگست 2019ء کو ڈی جی پراجیکٹس ایرا کو ارسال کی گئی ہے۔ 51 صفحات پرمشتمل اس رپورٹ میں مذکورہ پراجیکٹ کے تکمیل شدہ کام میں متعدد نقائص کی نشاندہی کی گئی ہے۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق استعمال شدہ تمام سریا زنگ آلود ہے۔ کالم اور بیم ٹیڑھے ہیں، دیواریں سرکی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر متعدد نقائص کی مذکورہ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے۔
بعد ازاں 25 ستمبر 2019ء کو سابق کنٹریکٹر کے تکمیل شدہ کام کی کنکریٹ ٹیسٹ رپورٹ سمیت ٹیکسلا لیبارٹری سے جاری ہوئی جس میں کنکریٹ کو ناقص اور ناقابل استعمال قرار دیا گیا۔ 11 ستمبر 2019ء کو ہالو بلاکس کی ٹیسٹنگ رپورٹ نیو ویژن کنسلٹنٹس کو ٹیکسلا لیبارٹری کی جانب سے ارسال کی گئی، جس کے مطابق وہ بھی ناقص تعمیر شدہ تھے۔
تاہم اسی کنسلٹنٹ کمپنی کی زیر نگرانی کام کرنے والے سابق ٹھیکیداروں کو ایرا نے 90 کروڑ روپے کی رقم ادا کر دی۔ مذکورہ رپورٹس آنے کے بعد بھی کنسلٹنٹ کمپنی سے اس متعلق کوئی سوال نہیں کیا گیا اور نہ ہی انکوائری کی گئی کہ ماضی میں اس کنسلٹنٹ کمپنی نے کس طرحوہ کام منظور کیا اور اس کے عوض 90 کروڑ روپے تک کی ادائیگیاں کیسے ممکن ہو سکیں۔
دوسری جانب سائٹ پربہت بڑی تعداد میں کنسٹرکشن میٹریل اور مشینری تباہ اور ناقابل استعمال ہو چکی ہے۔ سیکڑوں ٹن سریا زنگ آلود ہو کر ناقابل استعمال ہو چکا ہے۔
ٹرپل اے بلڈرز کے ذمہ دار فہد عقیل نے عدالت سے رجوع کرنے کے وقت یہ الزام عائد کیا تھا کہ موقع پر 60 کروڑ سے کم مالیت کا کام موجود ہے۔ ایرا حکام 90 کروڑ سے زائد کی ادائیگیاں سابق ٹھیکیداروں کو کر چکے ہیں۔ جو کام موجود ہے وہ انتہائی ناقص ہے، جس پر مزید کنسٹرکشن ممکن نہیں ہے۔ اسکو مسمار کر کے دوبارہ تعمیرات کرنے کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ سابق ٹھیکیداروں کا سامان موقع پر بکھرا پڑا ہے۔ سائٹ کو کلیئر کرنے کا کہا گیا وہ بھی ایرا حکام نے نہیں کی۔ اس طرح کے بے شمار مسائل تھے، جن کے بارے میں مسلسل خطوط لکھے گئے لیکن کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
انکا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ سافٹ لان کی شکل میں ہے جس کی واپس ادائیگی کی جانی ہے، لیکن اس رقم کو ایرا حکام برباد کر رہے ہیں، جس کا بوجھ عام لوگوں پر پڑے گا۔
ایرا کی جانب سے 12 جولائی کو جاری کئے جانے والے کنٹریکٹ کو 16 اکتوبر کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ تعمیراتی کمپنی کی جانب سے ثالثی کروانے اور ٹھیکہ منسوخ کرنے کے خلاف خط و کتابت کے بعد رواں سال 16 جنوری کو ایرا کی جانب سے ایک تفصیلی خط تحریر کیا گیا، جس میں ٹھیکیدار کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ایرا کا موقف بیان کیا گیا ہے۔
ایرا حکام کا موقف ہے کہ تین کمپنیوں کے جوائنٹ ونچر کو یہ تیسرا ٹھیکہ 12 جولائی کو دیا گیا تھا، جس میں تمام تر تفصیلات شامل تھیں۔ سائٹ ٹھیکیدار نے پہلے دیکھ رکھی تھی۔ ٹھیکیدار نے ٹھیکہ الاٹ ہونے کے 14 ایام کے اندر موبلائزیشن کرنی تھی اور کام شروع کرنا تھا لیکن چار ماہ تک کمپنی کی طرف سے کوئی کام شروع نہیں کیا گیا۔ اس سارے عرصہ میں وہ لیت و لعل سے کام کرتے رہے۔ مختلف طرح کے حیلے بہانے کرتے رہے۔ کمپنی کے رویے سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ انکی کام کرنے کی نیت ہی نہیں ہے۔
مذکورہ خط کے مطابق ناقص تعمیراتی کام کو درست کرنے کیلئے تعمیراتی کمپنی کو اضافی ادائیگی کی جانی تھی، لیکن اس نے کام کی ابتدا ہی نہیں کی۔ صرف حیلے بہانے تراشنے میں مصروف رہے۔ سابق ٹھیکیدار کا تعمیراتی میٹریل شفٹ کرنے کیلئے زائد رقم طلب کی گئی۔ پرانی کنسٹرکشن کو مکمل مسمار کرنے کا کہا گیا، جبکہ آخری وقت تک ایک مکسر پلانٹ ایک رولر اورایک لوڈر ٹرک سائٹ پر منتقل کر کے کمپنی نے حکام کی آنکھوں میں مٹی ڈالنے کی کوشش کی۔ جس کی وجہ سے معاہدہ کی شرائط پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت قانونی طور پر ٹھیکہ منسوخ کیا گیا ہے۔
تاہم فہد عقیل نے ان تمام تر وضاحتوں کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ ایرا حکام اپنی نااہلیوں کا بوجھ کنٹریکٹر پر ڈال رہے ہیں۔ اصل میں صرف اور صرف ایرا حکام اس منصوبہ کی تباہی کے ذمہ دارہیں۔
عوام علاقہ چھوٹا گلہ ایک طویل عرصہ سے سراپا احتجاج ہیں۔ اہل علاقہ کا یہ کہنا ہے کہ ہم سے قیمتی اراضی انتہائی سستے داموں لی گئی۔ ہمیں امید تھی کہ یونیورسٹی کی تعمیر کے بعد یہاں کاروبار کے نئے مواقع کھلیں گے۔ علاقے میں خوشحالی آئیگی، لیکن الٹا بربادی کا عمل شروع ہو گیا۔ کیمپس کے احاطہ میں منشیات فروشی ہو رہی ہے۔ کنسٹرکشن کا سامان چوری ہو رہا ہے۔ اہل علاقہ گزشتہ 15 سال سے اس منصوبہ کے منتظر ہیں، لیکن یہ تعمیر اب ایک عجوبہ بن چکی ہے۔ طویل احتجاجی تحریک کے بعد اب تادم مرگ بھوک ہڑتال کا آغاز کیا گیا ہے۔
بھوک ہڑتالی کیمپ میں تمام سیاسی و سماجی تنظیموں کے سربراہان اور کارکنان کے علاوہ طلبہ تنظیموں کے کارکنان نے بھی شرکت کرتے ہوئے ایکشن کمیٹی کے افراد سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔
دوسری جانب حکام سے مذاکرات کا سلسلہ بھی رات گئے تک جاری رہا ہے۔ ایکشن کمیٹی کا موقف ہے کہ صدر ریاست کا نمائندہ،چیف سیکرٹری، وزیر ہائیر ایجوکیشن کے علاوہ دونوں حلقہ جات کے ممبران اسمبلی مشترکہ طور پر اگر چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد کیلئے تحریری طور پر لکھ کر دیتے ہیں تو ہی بھوک ہڑتال کی جا سکے گی۔
شرکا دھرنا میں شامل شاہد شارف نے ’جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پر عزم ہیں۔ جب تک مطالبات پورے نہیں ہوتے ہم اپنی بھوک ہڑتال تادم مرگ جاری رکھیں گے۔ اگر چارٹرڈ آف ڈیمانڈ تسلیم کیا جاتا ہے اور ہمارے نامزد کردہ حکومتی نمائندگان مشترکہ تحریری معاہدہ کرتے ہیں تب ہی ہم بھوک ہڑتال موخر کریں گے۔