قیصر عباس
(واشنگٹن ڈی سی، جدوجہد خصوصی انٹرویو) مائیکل کوگل مین ولسن سنٹر واشنگٹن ڈی سی میں جنوبی ایشیا کے سینئر ایسوسی ایٹ اورایشیا پروگرام کے ڈپٹی دائرکٹر ہیں۔ پاکستان، انڈیا اور افغانستان پران کے مضامین اور تبصرے شائع ہوتے رہتے ہیں، جنہیں اہمیت دے جاتی ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے ایک ورچوئل پروگرام میں کہا تھا کہ افغانستان میں چونکہ اب امریکہ کے اثاثے نہیں ہیں اور معلومات کے ذرائع بھی ختم ہوچکے ہیں، وہ یہاں دہشت گردی کے خلاف زمینی کاروائی نہیں کر سکتا۔ اس صورت حال میں ہو سکتا ہے کہ اسے صرف فضائی کاروائیوں تک محدود ہونا پڑے۔
ان کا کہنا تھا کہ ”اہم معلومات کے لئے تبادلے کے معاہدوں کی عدم موجودگی اور زمینی اثاثوں کی غیر موجودگی کی بنا پر امریکہ کو کسی بھی دہشت گردی کے خلاف مشرق وسطیٰ میں اپنے فوجی ذرائع پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ اگر امریکہ کو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اقدامات کی فکر ہے تو یہی کہ علاقے میں اس کے اثاثے موجود نہیں ہیں۔“
روزنامہ جدوجہد کے ساتھ مائیکل کوگل مین کے اس خصوصی انٹرویو میں انہوں نے افغانستان میں انسانی حقوق، اقتصادی بحران اور اندرونی مزاحمت سمیت، علاقائی سالمیت، طالبان پر امریکی پابندیوں اور پاکستان امریکہ کے تعلقات پر تبصرہ کیاہے۔ اس گفتگو میں انہوں نے افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پہلی بار کھل کر امریکی پالیسوں سے پردہ اٹھایا ہے۔
طالبان سے قریبی تعلقات کی بنیاد پر کیا آپ کے خیال میں افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں پاکستان ایک موثر کردار اداکرسکتا ہے؟
گزشتہ اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے پاکستان یا کسی دوسرے ملک کی مدد کے بغیر ا من قائم کردیا تھا اگرچہ یہ انتہائی مشکوک اور کمزور بنیادوں پر قائم تھا۔ پاکستان کا اثر و رسوخ اب طالبان پر کم ہو گیا ہے کیونکہ ان کے تعلقات جنگ کے دوران بہتر تھے اور اس کے بعدپاکستان سے ان کے تعلقات سفارتی نوعیت کے رہ گئے ہیں۔ اب پاکستان دنیا بھر میں طالبان کے مفادات کا چمپئن بننا چاہتاہے۔
پاکستان اقتصادی اور تکنیکی شعبوں میں افغانستان کا مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور فوجی امور میں بھی ان کی مشاورت کر سکتاہے۔ لیکن افغانستان میں قیام امن، دولت اسلامیہ کی دہشت گردی، اقتصادی مسائل اور مستقبل میں مزاحمتی تحریکوں سے نبٹنے میں پاکستان بہت زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتا۔ درحقیقت پاکستان تو خود بھی طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد ان کے جنگجوؤں سے سرحدی علاقوں میں متصادم رہاہے اور ان سرحدوں کو طالبان تسلیم نہیں کرتے۔
کیا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتر ی کی امید کی جاسکتی ہے؟
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں بہتری تو نہیں آئی ہے لیکن صورت حال کچھ اتنی بھی خراب نہیں ہے۔ تعلقات میں جتنا اتارچڑھاؤ آتا رہا ہے اس لحاظ سے یہ صورت حال بری نہیں ہے۔ اس پس منظر میں دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کے مواقع بھی آ سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں واشنگٹن میں اس بارے میں کوئی سیاسی خوش فہمی نہیں پائی جاتی۔
آج کل ایک بحث جاری ہے کہ طالبان کی سوچ اب تبدیل ہو چکی ہے اور نئے زمانے کے ساتھ چلنے کے لئے وہ اب دہشت گردنہیں رہے۔ لیکن اس بحث سے قطع نظر وہ اب افغانستان میں برسر اقتدار ہیں۔ امریکہ اب اس صورت حال سے کس طرح نبٹنے کا ارادہ رکھتا ہے؟
امریکہ کے لئے افغانستان اب قصہ پارینہ بن چکاہے، اس کے لئے یہ وہ عکس ہے جو اب مٹ چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ طالبان سے تعلقات بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتااور اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ وہ طالبان کی حکومت تسلیم کرے۔ اندرونی سیاسی ترجیحات کے پیش نظر بھی صدر بائیڈن یہ نہیں کریں گے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ طالبان کی حکومت تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی امریکہ محدود پیمانے پران سے بات چیت جاری رکھ سکتا ہے۔ امریکہ کے لئے طالبان کو تسلیم کئے بغیر سفارتی سطح پر تعلقات قائم کرنے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ مجھے لگتا ہے کہ اب امریکہ اسی حکمت عملی کو اپنانے جارہا ہے۔ اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں کہ امریکہ طالبان مخالف قوتوں کا ساتھ دے گا۔ امریکہ طالبان کے اقتدار کا مخالف نہیں ہے اگرچہ کسی حد تک یہ اس کے لئے باعث شرمندگی بھی ہے۔
افغانستان میں ایک دلچسپ صورت حال جنم لے رہی ہے۔ طالبان جو ماضی میں ایک مزاحمتی گروپ تھے اب خود اقتدار میں ہیں۔ انہیں اب دوسرے دہشت گرد گروہوں کی مزاحمت کا سامنا ہے اوردولت اسلامیہ ان میں ایک نمایاں تنظیم ہے۔ آپ کے خیال میں کیا طالبان اس مزاحمت کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟
پنج شیر میں طالبان کے خلاف ایک مزاحمتی گروپ موجود ہے لیکن وہ اب تاجکستان میں پناہ لے چکے ہیں۔ اس طرح دولت اسلامیہ خراسان ہی ایک اہم دشمن باقی رہ گیاہے۔ ماضی میں افغان سیکورٹی اور نیٹو کی افواج کی فضائی طاقت دولت اسلامیہ کے خلا ف ایک کارگرحربہ تھی، خواہ وہ بالواسطہ ہی کیوں نہ ہو۔ مگر ان دونوں کی غیر موجودگی میں طالبان کو یہ مدد میسر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ماضی میں طالبان صرف ایک مزاحمتی گروپ تھے اور انہیں ملک چلانے کی فکر نہیں تھی۔ اب ان کے سامنے ملک میں انتظامی اور مالی ذمہ داریوں کے علاوہ انسانی حقوق کی پاسداری اور امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ ان حالات میں دولت اسلامیہ ایک اہم دشمن کے طورپر سامنے آ سکتی ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی عوامل ہیں۔ امریکی انخلاا ور طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد دولت اسلامیہ ایک نمایاں حریف کے طور پر ابھری ہے۔ نیٹو کے انخلااور افغان سیکورٹی کی پسپائی کے بعد ملک میں ان کا اسلحہ بڑی تعداد میں موجود ہے۔ وہ طالبان جو اب حالات سے مطمئن نہیں ہیں، اپنی وابستگیاں بدل کر دولت اسلامیہ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح دولت اسلامیہ خراسان کا پلہ بھاری ہو سکتا ہے۔ حالیہ چند مہینوں میں انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے عام شہریوں کے بجائے طالبان کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اس کا خطرہ بھی موجود ہے کہ طالبان کے جوابی اقدامات کے نتیجے میں وہ عام لوگوں کی ہمدردیوں سے محروم ہو جائیں۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دولت اسلامیہ طالبان کے سیاسی وجود کے لئے ایک بڑا خطرہ ہیں لیکن وہ ان کے لئے ماضی کی نسبت ایک بڑا مسئلہ بن سکتے ہیں اور ان کی مشکلات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں فوجی مزاحمت میں بھر پور کردار ادا کیا مگران کے انخلا کے بعدامریکہ نے علاقے کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا، لیکن نائین الیون کے بعد ملک میں فوجی کاروائی کی گئی۔ بیس سال کی جنگ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اب پھر امریکہ نے افغانستان کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں تاریخ اپنے آپ کودہرائے گی؟
میرے خیال میں امریکہ صرف اس صورت میں افغانستان پر دوبارہ حملہ کر سکتا ہے اگر اس کو یقین ہو کہ ملک کی سرزمین امریکہ پر حملے کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ مگر اس صورت حال میں بھی کم مدت کے فوجی حملے کی امید کی جا سکتی ہے، بڑے پیمانے پر فوجی مہم کی نہیں۔ مجھے یقین ہو چلا ہے کہ امریکہ کے لئے افغانستان اب ماضی کا قصہ بن چکاہے، اس کے لئے اب چین سے مقابلہ، ماحولیات اور دوسری جگہوں پر دہشت گردی جیسی ترجیحات زیادہ اہم ہیں۔
امریکہ اب افغانستان میں دوسری بڑی طاقتوں سے پنجہ آزمائی نہیں کرے گا کیونکہ وہ بھی اس مسئلے پر ہمارے ساتھ ہیں اور یہاں ایک دوسرے سے مقابلے کا ارادہ نہیں رکھتیں۔ یہ کہنے کی ضرورت بھی نہیں کہ چین، روس اور ایران اب افغانستان کے بارے میں بہت محتاط ہیں اور کسی جلد بازی سے کام لینا نہیں چاہتے۔
طالبان پر پابندیوں کے باوجود امریکہ نے حال ہی میں کچھ ملکوں کو انسانی بنیادوں پر افغانستان کو امداد کی اجازت دی ہے۔ کیا امریکہ طالبان پر عائد پابندیاں ختم کرنے جا رہا ہے؟
میرا نہیں خیال کہ امریکہ طالبان پر عائد پابندیاں ختم کرے گا۔ پابندیوں کے باوجود امریکہ دوسرے ملکو ں کو انسانی بنیادوں پر امداد اور مالی مدد کی اجازت دے سکتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ بھی اہم ہے کہ ان پابندیوں کے ہوتے ہوئے مغربی ممالک کے بنک کس طرح مالی لین دین کریں گے؟
سوال یہ ہے کہ امریکہ پابندیاں کیوں ختم کرنا نہیں چاہتا؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ طالبان ایک گولی چلائے بغیرپرکابل اورپورے ملک پر قابض ہوچکے ہیں لیکن وہ اقتدار میں کسی اور کو شریک نہیں کرنا چاہتے۔ امریکہ کے نزدیک طالبان کا قبضہ غیرقانونی ہے۔
دوسری وجہ سیاسی ہے۔ طالبان کے القاعدہ اور دوسرے دہشت گرد گروہوں سے تعلقات ہیں، وہ بچیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں دیتے اور انہوں نے سینکڑوں امریکیوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس طرح یہ صرف ایک ظالم حکومت کو تسلیم کرنے کا مسئلہ نہیں، امریکہ نے اس جیسی اور کئی حکومتوں کو تسلیم کیاہے۔ طالبان کو تسلیم کرنے کا مسئلہ بہت سنگین ہے اور سیاسی طور پر یہ ناممکن نظر آتا ہے۔
افغانستان میں بڑے پیمانے پر خواتین، بچوں اور شہریوں کے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب مغربی میڈیا صرف عورتوں کے حقوق اور بچیوں کی تعلیم ہی کی بات کر رہا ہے۔ کیا اس مسئلے کو مجموعی طورپرانسانی حقوق کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا؟
میرے خیال میں تو مغربی میڈیا افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کر رہے ہیں۔ خواتین اور بچیوں کی تعلیم پر توجہ شاید اس لئے بھی ہے کہ مغربی ممالک ان کو اہم انسانی حقوق سمجھتے ہیں جنہیں طالبان بڑے پیمانے پر پامال کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک طالبان کو تسلیم کرنے سے پہلے اس سمت میں بہتری کی امید کرتے ہیں۔
افغانستان کا سیاسی بحران جنوبی ایشیا کی سالمیت کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جہاں تین ایٹمی طاقتوں میں سے دو، انڈیا اور چین، سرحدی علاقوں میں آمنے سامنے نظر آتی ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں دنیا کے طاقتورملکو ں کے پاس افغانستان میں، اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے علاوہ، قیام امن کی کوئی حکمت عملی بھی ہے؟
میرے خیال میں تو عالمی طاقتیں افغانستان میں بدلتے ہوئے حالات کا دور سے ہی جائزہ لے رہی ہیں اور اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھانا چاہتیں۔ کئی ممالک انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے آگے آ رہے ہیں اور کچھ علاقائی ممالک طالبان سے بہتر تعلقات کے لئے کوشاں بھی ہیں۔ مجموعی طور پر ملکوں کی اکژیت دیکھنا چاہتی ہے کہ طالبان اقتدار قائم رکھ سکیں گے کہ نہیں۔ انہیں یہ بھی فکر ہے کہ وہ ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ کرسکیں گے یا نہیں۔
دوسری طرف امریکہ افغانستان میں ضرورت پڑنے پر دہشت گردی کے خلاف فضائی کاروائی کی استعداد بڑھانے میں مصروف ہے لیکن اس میں ایک لمبا عرصہ بھی لگ سکتاہے۔ دوسرا کوئی ملک اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھا رہا۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک اس صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے علاوہ جو سیکورٹی کے پیش نظر پاکستانی طالبان کے خلاف افغانستان میں کاروائی کر سکتا ہے، کوئی اور ملک عسکری کاروائی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ انہیں امید ہے کہ طالبان ملک میں دہشت گرد گروہوں کا قلع قمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن چونکہ طالبان کے دولت اسلامیہ کے علاوہ تمام دہشت پسندوں سے قریبی تعلقات ہیں، اس کا امکان بہت کم ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان ایک بڑے اقتصادی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اشیائے خوردونوش کا فقدان، غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ان مسائل پر قابو پانے کے لئے پانچ بلیں ڈالر کی امداد کی اپیل کی ہے۔ امریکہ جو ا س تمام صورت حال کا اہم کردار رہا ہے، ان مسائل کے حل کے لئے کیا کر رہا ہے؟
امریکی حکام کا موقف ہے کہ امریکہ دوسرے تمام ملکوں سے زیادہ افغانستان کو انسانی بنیادوں پر امداد دیتا رہا ہے۔ لیکن افغانستان میں اقتصادی بحران کی شدت کا احساس ہوتے ہوئے بھی ان کے پاس بینکنگ اور مالی بحران کے حل کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے جس نے ملک کو اقتصادی بحران کے کنارے لاکھڑا کیا ہے۔
افغانستان کی امداد کی راہ میں طالبان پرامریکی پابندیا ں حائل ہیں جن کی بنا پر امریکہ انسانی بنیادوں پر امداد کے علاوہ کسی بھی قسم کی امداد دینے سے قاصر ہے۔ اگرچہ خطے کے کچھ ممالک کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن امریکہ طالبان کو امدادی رقم فراہم کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ ہمار ا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کی مالی مدد کرنا چاہتا ہے لیکن یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ طالبان کے ہاتھوں میں رقم آ جائے۔
صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں ایک ایگزکٹیو حکم کے ذریعے افغان سنٹرل بنک کے 3.5 بلین ڈالر فراہم کرنے کی راہ ہموار کی ہے جو امریکہ کے فیڈرل رزرو میں منجمد تھے۔ لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ رقم کب تک فراہم کی جا سکے گی اور کن مقاصد کے لئے استعمال کی جا سکے گی۔ افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ فاقے کی حد تک پہنچ رہے ہیں اور طالبان کے پاس انتظار کا مزید وقت نہیں ہے۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔