راولاکوٹ (حارث قدیر) پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کا اجلاس آج طلب کر لیا گیا ہے۔ اجلاس میں نئے وزیر اعظم کا انتخاب کیا جائے گا۔ تاہم صدر ریاست کی جانب سے وزیر اعظم کی رضا مندی کے بغیر اجلاس طلب کئے جانے اور مبینہ ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے اپوزیشن نے اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار تنویر الیاس کے بلامقابلہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے امکانات ہیں۔
بعض تجزیہ کار وں کے مطابق وزیر اعظم کی رضامندی کے بغیر اجلاس طلب کئے جانے پر نئے آئینی بحران کے پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اس معاملہ پر بھی عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ آج پیر کے روز ساڑھے 10 بجے اسمبلی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ اجلاس میں وزیر اعظم کا انتخاب کیا جائے گا۔
اپوزیشن جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے نمبر پورے نہ ہو پانے کی وجہ سے اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت تک تحریک انصاف کے نامزد امیدوار کو 33 اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ مسلم کانفرنس کی جانب سے بھی تنویر الیاس کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور مستعفی ہونے والے وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے نامزد امیدوار کو ہی ووٹ دینگے۔
تاہم ذرائع کے مطابق عبدالقیوم نیازی، جو نئے وزیر اعظم کے انتخاب تک وزیر اعظم کی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں، نے اسمبلی اجلاس طلب کئے جانے کی سمری پر دستخط کرنے کو عدم اعتماد پیش کرنے والے وزرا کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر معافی مانگنے سے مشروط کر دیا تھا۔ جس کے بعدصدر ریاست نے وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر ہی اجلاس طلب کر لیا ہے۔
اپوزیشن کی بھی کوشش تھی کہ اجلاس طلب کرنے میں تاخیر ہو اور انہیں حکومتی اراکین تک رسائی حاصل کرنے کا وقت میسر آسکے تاکہ وہ ممبران اسمبلی کو اپوزیشن کے امیدوار کے حق میں ووٹ دینے کیلئے قائل کر سکیں۔
اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کی وجہ ہارس ٹریڈنگ قرار دی ہے۔ انکا الزام ہے کہ کئی روز سے حکومتی اراکین کو ایک ہوٹل میں بند کر کے رکھا گیا ہے اور حکمران جماعت کی جانب سے نامزد امیدوار نے بھاری رقوم دیکر اراکین کو خریدا ہے۔ تاہم ہوٹل میں رہائش پذیر یہ تمام اراکین حکمران جماعت تحریک انصاف سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں یہ سیاسی بحران 12 اپریل کو اس وقت پیدا ہوا تھا، جب حکومت کے اہم وزرا نے اپنے ہی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے سینئر وزیر کو وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کر دیا تھا۔ سپیکر اسمبلی نے 15 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کیلئے اجلاس طلب کیا تھا۔
تاہم وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی نے 14 اپریل کو استعفیٰ دے دیا تھا۔ تاہم محکمہ سروسز نے نئے وزیر اعظم کے انتخاب تک عبدالقیوم نیازی کے بطور وزیر اعظم کام جاری رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔ جس کے بعد 15 اپریل کو ہی بلائے گئے اجلاس میں نئے وزیر اعظم کے انتخاب کی سپیکر اور حکومتی اراکین کی کوشش کو عدالت العالیہ نے روک دیا تھا۔ سپریم کورٹ میں کی گئی اپیل پر بھی عدالت العالیہ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نیا اجلاس طلب کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد اجلاس کی تجویز اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے وزیر اعظم کو بھیجی جانی تھی اور وزیر اعظم کی منظوری کے بعد صدر نے اجلاس طلب کرنا تھا۔ تاہم وزیر اعظم کی جانب سے اجلاس کی منظوری دینے سے انکار کے بعد صدر ریاست نے خود ہی اجلاس طلب کر لیا ہے۔
اس وقت تک حکمران جماعت کو 32 اپنے اراکین کے علاوہ مسلم کانفرنس کے ایک رکن اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ اپوزیشن کے کل 20 اراکین ہیں، جن میں سے 12 پیپلز پارٹی، 7 مسلم لیگ ن اور ایک رکن اسمبلی جموں کشمیر پیپلزپارٹی کا ہے۔ تاہم جموں کشمیر پیپلزپارٹی نے اس عمل سے لاتعلق رہنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
اپوزیشن نے پہلے صدر پیپلز پارٹی چوہدری محمد یاسین کا نام وزیر اعظم کے مشترکہ امیدوار کے طور پر فائنل کیا، تاہم بعد میں اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں اگر آئینی تقاضے پورے نہ کئے جانے پر عدالت سے رجوع کر کے رکاوٹ کھڑی نہ کی گئی تو تحریک انصاف کے امیدوار تنویر الیاس بلا مقابلہ وزیر اعظم منتخب ہو جائیں گے۔
تاہم اپوزیشن جلد از جلد تنویر الیاس کے خلاف دوبارہ تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے متحرک ہو جائیگی۔ مستعفی ہونے والے وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی بھی یہ پیش گوئی کر چکے ہیں کہ موجودہ اسمبلی میں متعدد وزرا اعظم کی تبدیلی یقینی ہے۔ ماضی میں بھی اس اسمبلی میں 5 سال کے دوران 4 وزرا اعظم کا انتخاب ہو چکا ہے۔