خبریں/تبصرے

’ریپ جوکس‘ پر سمیع ابراہیم، عمران ریاض تنقید کا شکار

لاہور (جدوجہد رپورٹ) معروف صحافی مطیع اللہ جان کیساتھ جنسی زیادتی کے طنزیہ جملے کسنے اور الزامات عائد کرنے پر تحریک انصاف کے حمایتی اینکر پرسن سمیع ابراہیم اور عمران ریاض تنقید کی زد میں ہیں۔

پیر کے روز عدالت العالیہ اسلام آباد کے باہر اپنی درخواستوں کی سماعت کے لئے آنے والے سمیع ابراہیم، عمران ریاض، معید پیرزادہ اور ارشد شریف سمیت ان کے وکلا اور صحافتی تنظیموں کے ذمہ داران سے مطیع اللہ جان سوالات کر رہے تھے۔

لاپتہ افراد سے متعلق پروگرامات کے سوال پر سمیع ابراہیم اور عمران ریاض نے مطیع اللہ جان پر ذاتی حملے شروع کر دیئے اور سمیع ابراہیم نے یہاں تک الزام عائد کر دیا کہ مطیع اللہ جان کو فوج سے اس لئے نکالا گیا کیونکہ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے ساتھ ایک کمرے میں زیادتی ہوتی رہی، انکا ریپ کیا گیا۔

مطیع اللہ جان نے دونوں اینکروں کو چیلنج دیا کہ وہ انہیں اپنے پروگرام میں بلائیں اور ان الزامات کو ثابت کریں۔ اگر وہ ثابت نہ کر سکے تو معافی مانگیں گے اور مطیع اللہ جان ان الزامات کو غلط نہ ثابت کر سکے تو وہ نہ صرف معافی مانگیں گے بلکہ صحافت چھوڑ دینگے۔ تاہم مطیع اللہ جان کے چیلنج کو قبول کرنے کی بجائے اسی طرح کے ذاتی حملے کرتے ہوئے عمران ریاض، سمیع ابراہیم، معید پیرزادہ اور ارشد شریف اپنے وکلا کے ہمراہ وہاں سے چلے گئے۔

اس واقع کی ویڈیو مطیع اللہ جان کے اپنے یو ٹیوب چینل پر سامنے آنے کے بعد سیاسی رہنماؤں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں نے اینکروں کے اس رویے پر شدید تنقید کی ہے۔

حقوق خلق پارٹی کے سربراہ عمار علی جان نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر لکھا ہے کہ ’عمران ریاض کے جنسی تشدد کو مذاق میں بدلنے میں کوئی تعجب نہیں ہے۔ اس سے قبل انہوں نے ظاہر جعفر کے ٹرائل کے آغاز میں نور مقدم کیس کا بیانیہ بدلنے اور ’وکٹم بلیمنگ‘ کی کوشش کی تھی۔ یہ بدمعاش صحافی کہلانے کے لائق نہیں۔‘

ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی رہنما طوبیٰ سید نے ٹویٹ کیا کہ ’یہ شخص پی ٹی آئی کا ’فرنٹ لائن فائٹر جرنلسٹ‘ ہے۔ یہ عصمت دری کے بارے میں مذاق کرتا ہے اور پھر ہمارے پاس پی ٹی آئی کے ’بے بی فیمینسٹ‘ آتے ہیں اور اس گندی سیاست کا دفاع کرتے ہیں۔ اس بار کیا عذر ہے؟ آپ اس کاکیا جواز پیش کرتے ہیں؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’صحافت تو بہت لوگ کرتے ہیں، لیکن جن حالات میں رہ کر مطیع اللہ جان صحافت کر رہے ہیں اور جس انداز سے کر رہے ہیں، وہ انداز اور جرات پاکستان کے کسی صحافی میں نہیں ہے۔ آج جو ہوا وہ ان دو گندے یو ٹیوبرز اور ریاست کے پیدا کردہ ناجائز صحافیوں کی ذہنیت اور سب سے بڑھ کر انکا وہ غصہ تھا جو وہ صحافت کے ذریعے کبھی نہیں لے سکتے۔‘

معروف صحافی ابصار عالم نے لکھا کہ ’مطیع اللہ جان اتنا باکردار اور ایماندار صحافی اور بہت ہی اچھا انسان ہے جس نے ساری زندگی اپنے بچوں کو رزق حلال کما کر کھلایا جو ان سب کیلئے باعث فخر ہے، لیکن مطیع پر جھوٹ، بہتان لگانے والے کبھی رزق حلال کمانے کا دعویٰ نہیں کر پائیں گے۔ ان کا خمیر کہاں سے اٹھا سب نے خود دیکھ لیا۔‘

صحافی وجیہ ثانی نے بھی تبصرہ کرتے ہوئے مطیع اللہ جان کو سلام پیش کیا۔ سینئر صحافی اعزاز سید نے لکھا کہ ’پوری ایمانداری سے سمجھتا ہوں عمران ریاض، سمیع ابراہیم سمیت صحافت کی دنیا کے نام نہاد بڑے بڑے نام مطیع اللہ جان کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں۔‘

صحافی کامران یوسف نے لکھا کہ ’یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد میرے خیال میں پروفیشنل صحافیوں کو کبھی ایسے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی نہیں کرنی چاہیے۔ امید ہے اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن اپنے آپ کو ان جیسے نام نہاد صحافیوں سے الگ رکھے گی۔‘

صحافی اسد علی طور نے لکھا کہ ’تو یہ خود کو صحافی کہتا ہے گیلا تیتر عمران ریاض، سمیع ابراہیم امریکی شہری۔ اگر ان میں سے کسی میں بھی غیرت ہے تو مطیع اللہ جان کا چیلنج قبول کر کے اپنے پروگرام میں بلائیں۔ بے شک مطیع اللہ جان کی زنگ آلود گاڑی ان سب کے ’نامعلوم ذرائع‘ سے بنائے گئے کروڑوں کے اثاثوں سے بہتر ہے۔‘

رمشا فاطمہ نے لکھا کہ ’گیلے تیترنے نور مقدم کو نہیں بخشا تھا، یہ بات بھولنے والوں کیلئے آج کی ویڈیو محض یاددہانی ہے کہ اس کی بنیادی سوچ کیا ہے کیسی ہے اور اس کی فین فالوونگ یہ بتانے کو کافی ہے کہ اکثریتی سوچ یا اپروچ کیا ہے۔ کیسے کیسے لوگوں کو شہرت مل جاتی ہے۔ یہ آہ کا مقام ہے یا واہ کا۔‘

انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ ’یہ ویڈیو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ لوگوں کیلئے ہر بات مذاقت ہے، ٹھٹھا ہے، بھلے ریپ سے متاثرہ فرد کی زندگی کیسی ہی تباہ حال کیوں نہ ہو۔ ان باتوں پر لگا قہقہہ، ہنسی کی آواز آپ کا اچھا بھلا دن برباد کر سکتی ہے کہ ہنسنے کا بھی کوئی موقع ہوتا ہے، پر شاید ان کے خیال میں یہی ہوتا ہو۔‘

دوسری طرف سوشل میڈیا پر ہونے والے شدید تنقید کے باوجود سمیع ابراہیم نے اپنے رویے پر شرمندگی کا اظہار کرنے کی بجائے اپنی گفتگو کا دفاع کیا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ’مطیع کے ساتھ گفتگو پر بہت خفگی ہے…لیکن مطیع کچھ عرصہ سے صحافت کی آڑ میں صرف لوگوں کی بے عزتی کر رہا تھا…اور اسکے ماسٹر اسکی تصیح کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ایک بھاری دل کے ساتھ آج اسے جواب اسی کی زبان میں دینا پڑا…جوکہا وہ سچ ہے۔ لیکن کہنا نہیں چاہتا تھا۔‘

واضح رہے کہ یہ چاروں اینکر اور یوٹیوبر اپنے خلاف ملک کے مختلف تھانوں میں مبینہ طور پر درج کئے گئے مقدمات کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کیلئے آئے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی سیکرٹری داخلہ سے ان کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے 5 اینکروں کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کردی ہے۔ ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ آئندہ سماعت سے قبل کسی بھی ضلع یا صوبہ کی پولیس کو ان صحافیوں کو گرفتار کرنے سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے اجازت لینا ہو گی۔

درخواست گزاروں میں ارشد شریف، صابر شاکر، معید پیرزادہ، سمیع ابراہیم اور عمران ریاض شامل تھے۔ تاہم صابر شاکر عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کے ساتھیوں نے ان کے پیش نہ ہونے کی وجہ ان کو ملنے والی دھمکیوں اور خطرات کو قرار دیا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts