فاروق سلہریا
بلاول بھٹو زرداری کو اچانک یاد آیا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر کاربن کے اخراج (Carbon Emissions) کا صرف ایک فیصد پیدا کرتا ہے۔ منافقت کا بد ترین نمونہ ’الجزیرہ‘ جسے چھ ہزار وہ جنوب ایشیائی مزدور تو کبھی نظر نہیں آئے جو ورلڈ کپ کے لئے فٹ بال اسٹیڈیم بناتے ہوئے قطر کی سر زمین پر ہلاک ہوئے مگر اسے نہ نظر آ گیا ہے کہ بطور کاربن امٹر (Carbon Emitter) پاکستان عالمی سطح پر صرف ایک فیصد کا ذمہ دار ہے مگر اس کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جنہیں ماحولیاتی تباہی سے شدید خطرہ ہے۔ نجم سیٹھی صاحب نے بھی منگل کے روز اپنے ٹاک شو میں اس بات کو دہرایا۔ کچھ دنوں کی بات ہے نواز لیگ سے لے کر قوم یوتھ تک، سب اس ’تازہ‘خبر کی روشنی میں سارا ملبہ مغرب پر ڈال کر اپنی اپنی زندگی میں مشغول ہو جائیں گے۔ نوکر شاہی اور کچھ سیاستدانوں کو موقع ملے گا کہ سیلاب کے نام پر آنے والے ڈالرز کو آف شور اکاونٹس تک پہنچائیں۔ غریب کسان پھر سے اینٹوں اور گارے سے گھر بنا کر اگلے سیلاب کا انتظار کریں گے۔
اس میں شک نہیں کہ دنیا میں ایک کلائمیٹ اپارتھائیڈ ہے۔ فی کس کے حساب سے امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والا ملک ہے لیکن مجموعی طور پر دنیا کا سب سے بڑا مجرم چین ہے۔ دنیا کے دس سب سے بڑے کاربن امٹرز میں پاکستان کے چار میں سے تین پڑوسی شامل ہیں: چین، بھارت اور ایران۔ اس فہرست میں سعودی عرب اور انڈونیشیا بھی شامل ہیں۔ دس کی اس فہرست میں دیگر ارکان ہیں: روس، جنوبی کوریا، جرمنی اور جاپان۔
جہاں پاکستان کے گلیشیئر پگھل رہے ہیں وہاں چین کی سرحد ملتی ہے امریکہ کی نہیں۔ انقلابیو! مانگو کسی دن چین یا سعودی عرب سے سے ماحولیاتی انصاف؟
ایک بات یاد رکھئے! جب حکمران (وہ عمران خان ہو یا بلاول اور ان کے ہینڈلرز) ’سامراج مخالفت‘ کا ڈرامہ شروع کرتے ہیں تو مقصد اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ یہ تھیٹر صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں۔ جب عرب بہار نے مصر کا رخ کیا تو حسنی مبارک نے بھی الزام لگایا کہ امریکہ اس کا تختہ الٹنے کے لئے سازش کر رہا ہے۔
اگر ان حکمرانوں کو واقعی عالمی ماحولیاتی انصاف کے لئے لڑنا ہے تو آغاز اپنے گھر سے کریں۔ پاکستان میں ماحولیاتی انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں۔ خود تو آپ نیوکلیئر پروگرام چلائیں، دریاوں کے رخ موڑ دیں، ندی نالوں کے راستے میں بحریہ ٹاون اور ڈی ایچ اے بنا دیں، قرون وسطی ٰ دور کے طریقوں کے ساتھ مائنگ کریں کیونکہ پاکستانی مزدور غلاموں کی طرح دستیاب ہیں، ویسٹ مینجمنٹ نام کی کسی چیز کو ملک میں متعارف نہ کرائیں، آبادی کی روک تھام پر ایک پیسہ نہ خرچ کریں اور جب سیلاب آئے تو آپ کو پالا ہوا ایک مولوی اسے بے حیائی کی سزا قرار دے دے اور آپ ’سامراج مخالف‘ بیانات دے کر دامن بچانے کی کوشش کریں، یہ سوائے منافقت کے کچھ نہیں۔
ہمارا موقف: سرمایہ داری نے انسانیت کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ماحولیات بلا شبہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اگر کوئی سچ میں ماحولیاتی انصاف چاہتا ہے تو اسے پھر سوشلزم کی بات کرنا ہو گی۔ سرمایہ داری اور ماحولیات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اگر کوئی سرمایہ داری کے خاتمے کی بات نہیں کرتا اور ’حقیقی آزادی‘ کے نعرے لگاتا ہے تو وہ منافق ہے،جھوٹا ہے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔