انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ
ترجمہ: شفا
پاکستان ایک انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ ملک کا ایک تہائی حصہ اس طوفان کی تباہ کاریوں کا شکار ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہیں اور مسلسل سیلاب کا خدشہ لاحق ہے۔ اس سے لاکھوں لوگ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس تباہی کی بنیاد طبقاتی ہے، یہ سب سے پہلے غریبوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ انقلابی تنظیم ’طبقاتی جدوجہد‘ پورے ملک میں امداد فراہم کر رہی ہے اور ایک منظم جرات مندانہ مہم چلا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہم اس مہم کے منتظم اور ایشین مارکسسٹ ریویو کے ایڈیٹر، اویس قرنی کا انٹرویو شائع کر رہے ہیں۔
پاکستان میں سیلاب کے نتائج کی موجودہ صورتحال کے بارے میں بتائیں؟
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ طوفانی سیلاب غیر معمولی مون سون بارشوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی ان شدید بارشوں اور سیلاب کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ زیادہ ترعلاقوں میں معمول سے تقریباً 5 گنا زیادہ بارش ہوئی، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں، جس نے پورے دیہات اور قصبوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور بہت سی زندگیوں اور فصلوں کو تباہ کر دیا۔ بین الاقوامی اور قومی ماہرین کے مطابق ان سیلابوں سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں جو کہ آبادی کا تقریباً 15 فیصد ہیں۔ موسمیاتی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ملک کا ایک تہائی حصہ اب پانی کے نیچے ہے، یہ علاقہ وکٹوریہ ریاست سے بھی زیادہ ہے۔ 55000 مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبہ سیلاب کی زد میں ہے جو کہ کوسٹاریکا کے برابر ہے۔ جون کے وسط سے لے کر اب تک 1300 سے 1500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 400 سے زائد بچے شامل ہیں۔ ناسا کی طرف سے شائع کی گئیں تصاویر میں تجزیہ کیا گیا ہے کہ 150 پل گر چکے ہیں، یہ وہ پل ہیں جو پورے ملک کو ایک ساتھ، ایک قصبے کو دوسرے قصبے سے، ایک شہر کو دوسرے دوسرے شہر سے، حتیٰ کہ صوبوں کو بھی آپس میں جوڑتے ہیں۔ 3500 کلومیٹر تک سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔ 700,000 سے زائد مویشی اور ڈھائی ملین ایکڑ تک فصلیں اور باغات تباہ ہو چکے ہیں۔ دس لاکھ گھر پہلے ہی برباد ہو گئے ہیں اور بہت سے لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ پچھلے آٹھ ہفتوں کے دوران مسلسل بارشیں ہوئی ہیں۔ اس سارے پانی اور سیلاب کو سنبھالنے کے لیے یہاں کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں تھا۔ کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ کوئی ہنگامی امداد نہیں تھی۔ ذاتی طور پر میں نے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک کا دورہ کیا ہے۔ اسے فاضل پور کہا جاتا ہے جو کہ جنوبی پنجاب کے سرائیکی خطے میں ضلع راجن پور میں واقع ہے۔ یہ پورا شہر ایک قومی شاہراہ جسے انڈس ہائی وے کہتے ہیں کے ذریعے منقسم ہے، ہم نے دیکھا کہ اس سڑک کا مشرقی حصہ فی الحال کسی نہ کسی طرح محفوظ ہے لیکن ان حصوں کے لیے بھی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے مگر مغربی حصے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ پچھلے 20 یا 30 سالوں میں مکانات، کاروبار اور فصلوں کے حوالے سے جو بھی ترقی ہوئی تھی وہ سب تباہ ہو گئی ہے۔ لوگوں نے سڑکوں پر خیمے لگا لیے ہیں، وہاں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہنے والے لوگوں کی دل دہلا دینے والی کہانیاں ہیں۔ کچھ کے ساتھ مویشی اور بچے بھی ہیں۔ ان تمام علاقوں میں ان کے پاس کوئی سہولت یا بحالی کا عمل دستیاب نہیں ہے۔ سندھ کے کے این شاہ سے بلوچستان کے ہرنائی تک اور وہاں سے لے کر کے پی کے کے مٹہ تک ہر جگہ ایسی ہی صورتحال ہے۔ پنجاب اور بلوچستان کو منقسم کرنے والے سلیمان رینج کے قبائل ان سیلابوں سے مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ یہ سب سے قدیم خطوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ مویشیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کے ذریعہ معاش کے لئے کوئی صنعت یا دوسرا ذریعہ موجود نہیں ہے۔ وہ بنیادی طور پر قدیم خود کفیل قبائل ہیں جو سینکڑوں سالوں سے وہاں رہ رہے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اپنا نظام چلاتے آئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے قریب کے بڑے شہر کو بھی نہیں دیکھا لیکن ان سیلابوں نے وہاں بہت تباہ کن صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ان علاقوں میں صرف سیلاب ہی نہیں بلکہ نشیبی علاقوں سے سیلابی پانی ٹن بھر مٹی بھی اپنے ساتھ لے کر آیا ہے۔ تقریباً 20 دیہات ایسے ہیں جو نظر ہی نہیں آتے کیونکہ ان کے مکانات اور فصلیں 7 سے 8 فٹ کیچڑ میں ڈوب چکی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دو منزلہ عمارتیں اب ایک منزلہ رہ گئی ہیں، وہاں مرنے والوں کی انتہائی دردناک تصاویرسامنے آئی ہیں۔ سیلاب سے تباہ ہونے والے ان علاقوں میں کوئی سرکاری ادارہ نہیں ہے، کوئی شہری یا ضلعی سطح کی انتظامیہ نہیں ہے، کوئی سیاسی یا انتظامیہ کا نمائندہ موجود نہیں ہے۔ رپورٹس کے مطابق 110 اضلاع ان سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں تقریباً 10 ارب مالیت کا نقصان ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کوئی سبزیاں، اناج اور خوراک دستیاب نہیں۔ قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ پیاز جو پہلے 30 سے 50 روپے فی کلو تھا، اب سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 500 روپے فی کلو کے قریب فروخت ہو رہا ہے۔ سڑکوں کی خرابی کی وجہ سے کچھ علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے اور حکومت یا انتظامیہ کی طرف سے کوئی بھی امداد وہاں نہیں پہنچی ہے لیکن چند طالب علم ہیں جو اپنی موٹر سائیکلوں پر پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے کچھ راشن لے کر ان تک پہنچے ہیں۔ وہ اناج کو ابال کر استعمال کرتے تھے لیکن اب یہ وسائل اور ذخیرے ختم ہو رہے ہیں اور انہیں ہنگامی مدد کی ضرورت ہے۔ مزید خیمے دستیاب نہیں ہیں۔ سیلابی پانی کی وجہ سے مچھروں کی موجودگی نے پریشان کن صورت حال پیدا کر دی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ یہ علاقے جنوبی پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے چھوٹے قصبے ہیں۔ زیادہ تر لوگ کھیتوں میں کام کرتے ہیں، یہاں ایسے کاروباری حلقے ہیں جن پر پورے قصبے کی سیاسی معیشت انحصار کرتی ہے۔ اب اگر فصلیں متاثر ہوتی ہیں تو آنے والے دنوں میں ان قصبوں کی ساری اجتماعی زندگی پر اس کی جھلک نظر آئے گی اور آنے والے دنوں میں ان علاقوں کو بھی شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا جو ابھی تک بچے ہوئے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ تمام نقصانات کے علاوہ ایک سنگین طبی صورت حال کا سامنا ہے۔ ملیریا، اسہال، جلد کے امراض اور دیگر چھوٹی موٹی بیماریاں بچوں اور بالخصوص خواتین میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ میں نے ایک رپورٹ میں پڑھا ہے کہ چونکہ یہ پسماندہ علاقے ہیں اور ان کے سماجی حالات اور معاشرتی اصول قبائلی ہیں اس لیے خواتین آسانی سے کچھ نہیں مانگ سکتیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی خواتین جو اب سڑکوں پر پناہ گاہ میں ہیں، وہ اتنی مقدار میں پانی نہیں پی رہی ہیں جس کی انہیں ضرورت ہے۔ وہ زیادہ کھانا نہیں کھا رہیں۔ بلکہ اسے محفوظ کر کے رکھ رہی ہیں کیونکہ ان کے پاس بیت الخلا کی سہولت نہیں ہے۔ خواتین اور لڑکیاں اس مقصد کے لیے کھلے عام نہیں جا سکتیں اور یہ پیٹ کے امراض اور قبض جیسی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ ماہواری چکر کے مسائل کا بھی سامنا ہے، ہمارے دوست اور یونیورسٹی کے طلبہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کھانے پینے کی اشیا، خیموں اور ادویات کے علاوہ خاص طور پر ماہواری اور حفظان صحت سے متعلق مصنوعات فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔
اس تباہی کی کیا وجوہات ہیں؟
جہاں تک ہم سمجھتے ہیں اس سیلابی صورت حال کی وجوہات بالکل واضح ہیں جیسے کہ گلوبل وارمنگ پوری دنیا میں غیر معمولی موسمی واقعات کا باعث بن رہی ہے۔ ہمیں ایمازون، آسٹریلیا اور دنیا کے دیگر حصوں میں جنگل کی آگ کا مسئلہ نظر آتا ہے۔ ابھی چند ہفتے پہلے ہم بات کر رہے تھے کہ ایک طرف برطانیہ میں گرمی کی لہر ہے اور دوسری طرف پاکستان میں سیلاب آ رہے ہیں۔ اس سب کا تعلق مجموعی طور پر ماحولیاتی اور سرمایہ داری کے بحران سے ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2000 کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ دریں اثنا، اقوام متحدہ کے مطابق عالمی کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف 1 فیصد ہے۔ مون سون اور سیلاب کی اس ساری صورتحال سے قبل، ہم نے پاکستان میں بھی گرمی کی لہر دیکھی ہے۔ بعض علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب تھا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ 54 ڈگری ایک ایسے علاقے میں ریکارڈ کیا گیا ہے جو اب سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی جگہوں میں سے ایک ہے۔ یہ دادو، سندھ کا علاقہ ہے۔ پاکستان میں تقریباً 7000 گلیشیئرز ہیں جو پگھل رہے ہیں۔ قطبی خطوں سے باہر اس ملک میں غالباً سب سے زیادہ برف پائی جاتی ہے۔ ملک کے شمالی حصے میں ماحولیاتی حرارت اور حالیہ گرمی کی لہروں نے کئی برفانی طوفانوں کے سیلاب کو جنم دیا ہے۔ بارش اور پگھلے ہوئے پانی کے امتزاج نے ڈھلوانوں کو سیلاب میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہمیں ماحولیاتی تباہی کی طرف اندھا دھند نہیں بڑھنا چاہیے لیکن یہ بالکل حقیقت ہے کہ یہ سب چیزیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں اور یہ مفادات کے لیے سامراجی ہوس ہے جو اب پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں جانی نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا جیسی گرم جگہوں میں رہنے والے لوگوں کے موسمیاتی بحران سے مرنے کے امکانات 15 گنا زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ صرف گلوبل وارمنگ نہیں ہے جو کہ یقیناً ایک حقیقت اور ایک اہم عنصر ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک کے پاس ایسی آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی بنیادی ڈھانچہ بھی نہیں ہے۔ طلبہ کو یہ پڑھایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں دنیا کا بہترین نہری آبپاشی کا نظام ہے جو برطانوی راج نے بنایا تھا لیکن اب جب یہ صدیوں پرانا نظام ٹوٹ رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ اس کی دیکھ بھال کی گئی اور نہ ہی اس کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسے ریاستی دولت کے بڑے ذخائر کی ضرورت ہے۔ برطانوی راج کے دور میں جو بنیادی ڈھانچہ تیار ہوا تھا وہ اب سارا منہدم ہو رہا ہے۔ ملکی انتظامیہ، سیاسی جماعتیں اور یہ نظام کبھی بھی ان آفات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ہم نے 2010ء میں سیلاب کی تباہی دیکھی ہے جس نے اس وقت 20 ملین افراد کو متاثر کیا تھا۔ کشمیر میں ہم نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ 2005ء کا زلزلہ دیکھا ہے۔ پاکستان نے ان تمام سالوں میں کوئی بنیادی ڈھانچہ تخلیق نہیں کیا۔ اس کے برعکس حکمران اشرافیہ صرف وسائل کو لوٹ رہی ہے۔ یہ بنیادی طور پر سامراج کی کٹھ پتلی ہیں اور صرف اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ آپ اس ستم ظریفی کو سمجھیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے سابق وزیر اعظم عمران خان جو ٹرمپ، مودی یا بولسونارو سے کچھ مختلف نہیں ہے اور نہ ہی ان میں کوئی کم فاشسٹ رجحان ہے، اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے جواب دیا کہ ان سیلابوں کے بعد مٹی زیادہ زرخیز ہو جائے گی۔ اس منطق کی کوئی وضاحت نہیں ہو سکتی۔ یہ اگلے درجے کی حماقت ہے، یہ ایسی ہی بات ہے کہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے آپ کو آبادی کو ختم کرنا ہو گا۔ دوسری طرف حکمران جماعتیں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صرف فوٹو سیشن کر رہی ہیں۔ مقامی سیاسی نمائندے امدادی سامان کو اپنے اڈوں میں ذخیرہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ عوام کی مصیبتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ انہوں نے متاثرہ علاقوں میں سے کسی کی براۂ راست مدد نہیں کی لیکن وہ بین الاقوامی اپیلیں کر کے اقوام متحدہ، امریکہ، چین، برطانیہ اور کئی ممالک سے بھاری مقدار میں امداد وصول کر رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں ہمارے پاس 2010ء اور 2005ء میں پاکستان میں آنے والی امداد کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی 70 فیصد معیشت کالے دھن پر مبنی ہے اور اس قسم کی لوٹ مار معیشت کے اس حصے کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس معیشت کا سیاست میں بھی بڑا کردار ہے۔ یہ سیاست کا ایک افسوسناک حصہ ہے اور عوام اس قسم کی سیاست سے خود کو الگ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی طور پر پریشان کن صورت حال ہے۔ ریاستی ادارے آپس میں لڑ رہے ہیں، سیاسی جماعتیں آپس میں لڑ رہی ہیں اور پاکستان معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس عرصے کے دوران آئی ایم ایف نے انہیں ایک بار پھر اربوں ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں سمجھنا چاہیے کہ آئی ایم ایف اور جتنے قرضے وہ اکٹھے کر رہے ہیں وہ بنیادی طور پر قرضوں کا ایک جال ہے جن میں محنت کش طبقہ زیادہ سے زیادہ پھنس رہا ہے۔ سامراج اور سرمایہ داری کی بیڑیاں ان جالوں کی وجہ سے مضبوط ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر ہم چھینک بھی نہیں سکتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقی طاقتوں کے آگے وہ کتنے بے بس ہیں۔ سرمایہ داری اور سرمایہ داری کا زوال ان تمام تباہیوں کی بڑی وجہ ہے۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ہر سال بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ مزدوروں کی ریاست میں بھی آفات آ سکتی ہیں لیکن منصوبہ بندی اور مفاد کی ہوس کو چھوڑ کے لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں سوچ کر ان آفات پرکم سے کم نقصان اٹھا کر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں انہوں نے محض ڈیم بنائے ہیں جو خاص طور پر بلوچستان میں سب ٹوٹ چکے ہیں۔ مسئلہ نظام اور نظام کو سنبھالنے والوں میں ہے۔ وہ اتنے لالچی اور اتنے خود غرض ہیں کہ عام لوگوں کے دکھوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کا نظام صرف منافع اور منافع کی شرح کے مطابق چلتا ہے۔ عالمی سطح پر یہ نظام اب تباہی، لوٹ مار اور جنگوں کا سبب بن رہا ہے۔ یہ سرمایہ داری کا گھن چکر ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں اور ہمیں اس نظام کو توڑنا پڑے گا تاکہ ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکیں جو انسانی ضروریات کے بارے میں سوچے۔ قدرتی آفات کے دوران ایسی ترجیحات ہونی چاہئیں جو عوام کو مصائب سے بچا سکیں۔ وجہ اور مسئلہ اس نظام کا ہے جس کی بنیاد لالچ اور عام لوگوں کا استحصال ہے۔
ان حالات میں ’طبقاتی جدوجہد‘ کیا پروگرام پیش کر رہی ہے؟
ان حالات میں ہم نے ایک مہم شروع کی ہے اور اپنے کتابچے اور پوسٹرز کے ذریعے کچھ مطالبات کر رہے ہیں۔یہ ’انقلابی امدادی و احتجاجی کمپئین‘ کے نام سے ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر ریاستی اداروں کا متبادل کوئی نہیں ہو سکتا، اس لیے ہمیں ریاست پر دباؤ ڈالنا ہو گا کہ وہ کچھ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بچانے کے لیے تمام سرکاری وسائل کو جنگی بنیادوں پر استعمال کیا جائے۔ سیلاب زدگان کے لئے فوری خوراک اور طبی امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، سرکاری عمارتوں اور حکمران طبقوں کی دیگر پرتعیش جگہوں کو بے گھر سیلاب متاثرین کی پناہ اور بحالی کے لیے استعمال کیا جائے۔ سیلاب سے متاثرہ تمام علاقوں کو آفت زدہ قرار دے کر ان کے تمام یوٹیلیٹی بل، ٹیکس اور دیگر ذمہ داریوں کو کم از کم ایک سال کے لیے معاف کر دیا جائے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے طلبہ کے لیے تمام فیسیں اور دیگر واجبات فوری طور پر معاف کیے جائیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو تقریباً 50 لاکھ پاکستانی روپے دیئے جائیں اور حکومت سیلاب میں تباہ ہونے والے مکانات کو دوبارہ تعمیر کرے۔ ہم اپنے لوگوں اور اپنے طبقے کو سرمایہ داروں اور ان کے نظام کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم یہ مہم چلا رہے ہیں، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے یہ ایک امدادی مہم ہونے کے ساتھ ساتھ احتجاجی مہم بھی ہے۔ امدادی مہم میں ہم خاص طور پر طبی اور خواتین کو حفظان صحت سے متعلق امداد مہیا کر رہے ہیں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو خشک خوراک کا راشن پہنچا رہے ہیں۔ ہم نے نور پور، حاجی پور، فاضل پور، جامشورو اور بھان سید آباد کے دیگر ملحقہ علاقوں میں ریلیف اور میڈیکل کیمپوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں ہم کے این شاہ، سوات، نوشہرہ اور دیگر مقامات جو متاثر ہوئے ہیں، میں مزید میڈیکل کیمپ لگانے جا رہے ہیں۔ ہم نے داجل، حاجی پور، عمر کوٹ اور کچے کے علاقوں میں راشن کا سامان فراہم کیا ہے۔ اس طرح کی آفت میں ہم طبی کیمپوں کے ذریعے ان لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں لیکن ان سب باتوں کے علاوہ ہم مقامی لوگوں کی کمیٹیاں بنانے پر توجہ دے رہے ہیں کیونکہ بہت سے لوگ عطیات بھیج رہے ہیں۔ وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ٹرکوں کے ٹرک بھر کر بھیج رہے ہیں۔ ہمیں چوری اور کھانے پینے کی اشیا کے ضیاع کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ہم اس بات کی تلقین کر رہے ہیں کہ ان امدادی اشیا کو مقامی کمیٹیوں کے ذریعے کنٹرول کیا جانا چاہیے کیونکہ مقامی لوگ بہتر جانتے ہیں کہ ان چیزوں کو کس کے پاس جانا چاہیے، ضرورت سے زیادہ خوراک اور اشیا کی تقسیم کیسے کی جانی چاہیے اور میڈیکل کیمپ کہاں لگایا جانا چاہیے۔ میں فاضل پور میں رہا ہوں، وہاں سماجی تنظیموں کی طرف سے کافی امدادی کام ہوا ہے اور ان علاقوں میں بہت سے رحم دل لوگ عطیات دے رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ مرکزی شہر سے 15 کلومیٹر دور جائیں تو آپ کو کوئی امدادی پیکیج نظر نہیں آئے گا اور لوگ ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے ہیں۔ ایسی ہی صورت حال اور جگہوں میں بھی ہے۔ ان کمیٹیوں کو اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ حکومت کے انتظامی اداروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور ان پر سڑکوں اور پلوں کی تعمیر نو اور بجلی فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے تاکہ امدادی مہم کو مزید آگے بڑھایا جا سکے۔ یہ وہ کمیٹیاں ہیں جو ہم بنا رہے ہیں۔ ہم نے فاضل پور، سوات، کے این شاہ، دادو، حیدرآباد، ملتان، لاہور، فیصل آباد، کراچی، اسلام آباد اور کشمیر میں کمیٹیاں بنائی ہیں اور بلوچستان اور سیلاب سے متاثرہ دیگر علاقوں میں کمیٹیاں بنائیں گے۔ ہم دیگر ترقی پسند سماجی اور سیاسی تنظیموں کو بھی اس مہم کا حصہ بننے کی دعوت دے رہے ہیں۔ فاضل پور کی ایک سماجی تنظیم سوجھل دھرتی واس اس آزمائش کی گھڑی میں سب سے زیادہ متاثرہ شہر میں زبردست کام کر رہی ہے اور وہ اس مہم میں شامل ہوئی ہے، اسی طرح ہم اس مہم میں مزدور طبقے کی ٹریڈ یونینز اور تنظیموں کو بھی مدعو کر رہے ہیں۔ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین اور آل پاکستان ایمپلائز، لیبر اینڈ پنشنرز موومنٹ، جو کہ 50 سے زائد ٹریڈ یونینوں کا اتحاد ہے جس کی آئی ایس ایل نے 14 اکتوبر 2020ء کو بین الاقوامی سطح پر مہم چلا ئی ہے، نے بھی اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔ ہم اس میں ترقی پسند طلبہ تنظیموں کو مدعو کر رہے ہیں۔ ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ، جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن اور بے روزگار نوجوان تحریک اس مہم میں شامل ہیں اور ہم دوسروں کو بھی دعوت دے رہے ہیں۔ ہم اس مہم اور اس کے مطالبات کے ذریعے ملک گیر متحدہ فرنٹ بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ کمیٹیوں پر مشتمل اس مہم کا آنے والے دنوں میں بڑا کردار ہو گا۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ آفات عوام کے اجتماعی شعور پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں کو عوام کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ان کا استقبال نہیں کیا جا رہا۔ سیاسی لیڈروں کی مضحکہ خیز سیاست کا پردہ فاش ہو رہا ہے۔ اس وقت سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی مفاد کے لیے عوامی جلسے کر رہی ہیں جبکہ کچھ حکمران محض فوٹو سیشن اور بین الاقوامی امداد کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات، خوراک کی قلت اور آسمان کو چھوتی مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے آنے والے دن سیاسی مقاصد اور مفادات پر مبنی ہوں گے۔ مہنگائی پہلے ہی 47 فیصد کے قریب ہے، سیلاب نے 90 فیصد فصلیں تباہ کر دی ہیں۔ یہ کمیٹیاں اپنی بنیاد تخلیق کریں گی اور اہم کردار ادا کریں گی۔ پاکستان میں عوامی تحریک کا ایک تناظر جنم لے چکا ہے۔ ریاست اور دیگر اداروں اور سیاست میں بھی بہت زیادہ پولرائزیشن ہے۔ پاکستان پر آئی ایم ایف کی شرائط اب بڑے پیمانے پر لگائی جا رہی ہیں اور حکومت کو نیا بیل آؤٹ پیکیج ملا ہے جو آنے والے دنوں میں تباہی کا باعث بنے گا۔ پاکستان میں مزاحمت جنم لے گی، عوام اور محنت کش طبقے کی تحریکیں ہوں گی۔ اس تحریک سے پورا خطہ متاثر ہو گا۔ ہم اپنے کامریڈز، اپنے دوستوں، اپنے ہمدردوں اور خود محنت کش طبقے کے ساتھ مل کر یہ کمیٹیاں بنانے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ انہیں اس وقت مداخلت کرنا ہو گی اور فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہو گا جس پر ہم یہاں پاکستان میں کئی دہائیوں سے بحث کر رہے ہیں۔ سرگرمیوں کی تفصیلی رپورٹس ہمارے خصوصی فیس بک پیج پر مل سکتی ہیں۔
آپ جو مہم چلا رہے ہیں اس میں کیا شامل ہے؟
جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے کہ یہ مہم ایک امدادی اور احتجاجی مہم ہے۔ ہم مزدوروں، اپنے ساتھیوں اور کمیٹیوں کو امداد فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم احتجاج بھی کر رہے ہیں۔ ہم نے دادو میں احتجاج کیا جہاں زمینداروں نے اپنے کھیتوں کو بچانے کے لیے ایک پل کو کاٹنے کی کوشش کی تاکہ پانی کو دوسری طرف دھکیلا جا سکے۔ ہمارے ساتھیوں اور دوسرے لوگوں نے اسکی مزاحمت کی۔ وہاں خواتین تھیں جنہوں نے دلیرانہ کردار ادا کیا۔ انہوں نے تمام رکاوٹیں ریت اور مٹی کے تھیلوں سے خود بنائی تھیں۔ ہم نے حیدر آباد میں بھی احتجاج کیا تھا۔ آنے والے دنوں میں اسلام آباد اور دیگر شہروں میں بھی احتجاج کیا جائے گا۔ اوپر کچھ سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو ہم کر رہے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس مہم کو دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔ میں نے 2010ء کے سیلاب کا حوالہ دیا ہے۔ یہ مہم 2010ء میں شروع کی گئی تھی اور تب اس نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ میں ماضی کی تفصیل کا ذکر نہیں کرنا چاہوں گا لیکن ہم دوبارہ ویسے ہی کام کر رہے ہیں۔ ہم زیادہ تر توجہ موبائل ایمبولینسز پر رکھ کر امداد فراہم کر رہے ہیں تاکہ ہمارے ساتھی اور رضاکار دور دراز علاقوں تک پہنچ سکیں جہاں ہسپتال نہیں ہیں اور ہم خشک کھانے کی اشیا، خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لیے اشیا پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ چونکہ تمام مال مویشی ڈوب چکے ہیں، اس لیے بچوں کے لیے دودھ اور خواتین کے لیے ماہواری کٹس کی فوری ضرورت ہے۔ اس سب کے ساتھ، ہم یونیورسٹیوں اور ان علاقوں میں مہم چلا رہے ہیں جو براۂ راست سیلاب سے متاثر نہیں ہوئے جیسے پشاور، اسلام آباد، لاہور، ملتان، کراچی اور کشمیر۔ آنے والے دنوں میں وسطی پنجاب کے شہروں میں احتجاجی اور یکجہتی کی مہم چلائی جائے گی۔ ہم پہلے ہی یونیورسٹیوں، ٹریڈ یونین کے دفاتر اور صنعتی علاقوں میں مہم چلا رہے ہیں تاکہ ہم مجموعی طور پر محنت کش طبقے کو آپس میں جوڑ سکیں۔ کیونکہ پاکستان میں ایک سلگتا ہوا قومی سوال ہے جو کہ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے ساتھ ساتھ کے پی کے میں بھی ہے، جو سب سے زیادہ سیلاب سے متاثرہ علاقے ہیں۔ ہم مختلف قومیتوں اور لسانی گروہوں کے درمیان یکجہتی پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ پنجاب کے محنت کش طبقے کی طرف سے بلوچستان، سندھ، کے پی کے اور سرائیکی خطے کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ مختلف قومیتوں کا محنت کش طبقہ طبقاتی یکجہتی پر متحد ہو۔ ہم یہ سیاسی کام کر رہے ہیں اور اس یکجہتی کی مہم کو پاکستان کے محنت کش طبقے کو جوڑنے پر مرکوز کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں سیاسی منظر نامے میں ایک خلا پیدا ہو گا جسے بائیں بازو کی تنظیموں کو پر کرنا چاہیے اور ہماری تنظیم جس کی 40 سال کی ایک میراث ہے پاکستان اور اس خطے کے محنت کش طبقے میں مقبول ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں ایک سیاسی پروگرام دیں اور اس سیاسی پروگرام کے گرد یکجہتی پیدا کریں۔ ہمیں محنت کش طبقے کے اتحاد کو ممکن بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششیں کرنی چاہیے۔
بین الاقوامی یکجہتی کے لیے پیغام؟
ہم نے اپنے ساتھیوں جیسا کہ انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ اور اس کے سیکشنز، ورکرز انٹرنیشنل نیٹ ورک، انٹرنیشنل سوشلزم پروجیکٹ، سوشلسٹ آلٹرنٹو (متبادل)، کمیٹی برائے کمیونسٹ انٹرنیشنل، لیفٹ ہورائزنز اور دنیا بھر میں ہر جگہ اپیل کی ہے۔ جس طرح ہم قومی سطح پر یکجہتی تعمیر کر رہے ہیں، ہم عام عوام اور پاکستان کے محنت کش طبقے کے لیے بین الاقوامی یکجہتی کی درخواست بھی کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم یہ بات کر چکے ہیں کہ یہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہے جو صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے جو خود نسل انسانی کے وجود پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ لہٰذا ہم بین الاقوامی سطح پر تمام ساتھیوں، کارکنوں، رضاکاروں اور نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سیاسی اور ہر ممکن طریقے سے اس لڑائی میں شامل ہوں۔ ہمیں آپکی ضرورت ہے۔ پاکستان کے محنت کش طبقے کو آپ کی ضرورت ہے۔ یہ تباہی ہے۔ انہیں آپ کی مدد اور ساتھ کی ضرورت ہے۔ انہیں آپ کے مالی تعاون اور عطیات کی ضرورت ہے۔ انہیں آپ کی سیاسی حمایت کی ضرورت ہے۔ انہیں آپکی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہم دنیا کے محنت کش طبقے سے کہتے ہیں، جیسا کہ مارکس نے خود کہا، دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ۔ ہمارا نعرہ ہمارے دکھ برابر ہیں۔ ایک کی چوٹ سب کی چوٹ ہے۔ لہٰذا ہم دنیا کے دیگر حصوں کے ساتھیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہم اس جدوجہد میں خود کو تنہا نہیں سمجھتے۔ ہماری جدوجہد آپ کی جدوجہد ہے اور ہمارا درد آپ کا درد ہے۔ آپ کا ساتھ بہت اہمیت کا حامل ہے اور ہماری جدوجہد، ذہنوں اور دلوں میں ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے اور اس بار ہم یکجہتی کا کھل کر اظہار کر سکتے ہیں اور محنت کش طبقے کی مختلف قومیتوں کے گرد یکجہتی پیدا کر سکتے ہیں، ایک تنظیم بنا سکتے ہیں، ایک انٹرنیشنل تشکیل دے سکتے ہیں جو اس غیر منصفانہ نظام کا مقابلہ کر سکے جو ایمازون سے ارجنٹائن، چلی سے لے کر لبنان، یورپ سے مشرق وسطیٰ اور یوکرین، امریکہ سے آسٹریلیا اور افریقہ سے لے کر ایشیا تک دنیا میں ہر جگہ تباہی پھیلا رہا ہے۔ اور ہم ایک بین الاقوامی تنظیم بنا سکتے ہیں جو ان تمام مصائب کا خاتمہ کر سکے۔ شکریہ!
جدوجہد جاری رہے!
سوشلزم زندہ باد!