نقطہ نظر

’پٹھان‘ پر فاطمہ بھٹو کا تبصرہ منافقت اور جہالت سے لبریز ہے

حارث قدیر

فاطمہ بھٹو نے برطانوی اخبار گارڈین میں ایک تفصیلی مضمون، ’بالی وڈ میں پاکستان کا جنون، اگر یہ اتنا گندا نہ ہوتا تو ہم خوش ہوتے‘ کے عنوان لکھا ہے۔

مضمون میں بھارتی فلم انڈسٹری’بالی ووڈ‘ کے مواد میں گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ہونے والی تبدیلیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور مقدمہ قائم کیاگیا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار کے 9 سالوں کے دوران بھارتی فلم انڈسٹری پر ہندوتوا کے تعصب کا رنگ چڑھا دیا گیا ہے۔ پاکستان مخالف پروپیگنڈہ فلمیں بنانا معمول ہو گیا ہے، جن کے ذریعے سے نفرت اور تعصب کو ہوا دی جاتی ہے۔

مضمون میں حال ہی میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم سٹار شاہ رخ خان کی فلم ’پٹھان‘ پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ جموں کشمیر کے حوالے سے بھارتی ریاست کے توسیع پسندانہ عزائم، مظالم اور فوجی جبر کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ بالی ووڈ کی تکنیکی خامیوں، معلومات کے فقدان اور حقائق کو مسخ کرنے کے عمل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ بھارت میں مودی حکومت کی متعصب پالیسیوں، مذہبی اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندی کی پشت پناہی اور مخالف آوازوں کو دبانے کے واقعات کا تذکرہ بھی کیاگیا ہے۔

یہاں تک بات تو ٹھیک ہے، تاہم یہ تصویر کا محض ایک رخ ہی نہیں بلکہ ایک طرح کی منافقت سے بھی بھرپور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کچھ حقائق کو سامنے لانے کے ساتھ ساتھ اس منافقت کو بھی سامنے لانے کی کوشش کرینگے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مضمون کے اندر فاطمہ بھٹو نے چین سے بھارتی ریاست کے خوفزدہ ہونے کو ظاہر کرنے کیلئے لداخ کی مثال دی اور لداخ کو بھارتی علاقہ قرار دے دیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’ہمارے مشترکہ پڑوسی چین نے بہت زیادہ جدوجہد کے بغیر لداخ میں 38 ہزار مربع کلومیٹر بھارتی زمین لے لی ہے۔‘

فاطمہ بھٹو کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ لداخ بھی اسی ریاست جموں کشمیر کے تنازعہ میں شامل علاقہ ہے، بھارتی علاقہ نہیں ہے۔ جس آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ذریعے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا گیا تھا۔ اسی اقدام کے تحت لداخ کو جموں کشمیر سے کاٹ کر ایک یونین ٹیریٹری کے طور پر بھارت میں ضم کر دیا گیا تھا۔ یوں بھارت کے جموں کشمیر پرقبضے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مخالفت اگر کی جاتی ہے، تو پھر چین کے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت لداخ اور اقصائے چن کے علاقوں پر قبضے کی بھی اسی طرح سے مذمت کی جانی چاہیے۔ نہ کہ اس اقدام کے لئے بھارت کو نیچا دکھانے کیلئے چین کے توسیع پسندانہ عزائم کا تذکرہ فخر سے کیا جائے۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ جاری کرتے وقت جموں کشمیر کی چین کے ساتھ منسلک سرحدوں کو غیر واضح چھوڑا گیا ہے، کیونکہ جموں کشمیر کی حقیقی سرحدوں کے تعین سے چین ناخوش ہوتا ہے۔

تاہم اس عمل میں معلومات کی کمی کا پہلو زیادہ نمایاں نظر آتا ہے، منافقت کو عیاں کرنے کیلئے دیگر مثالوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی ایک فاشسٹ رجحان رکھنے والے انتہا پسند مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے 9 سالہ اقتدار کے دوران بھارت میں مذہبی اقلیتوں، مظلوم قومیتوں اور ترقی پسند آوازوں کے خلاف سخت اقدامات کئے گئے، سنگین مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کو سلب کر دیا گیا ہے، جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بھارتی یونین میں ضم کرنے کے اقدام کے بعد پوری وادی کو کھلی جیل میں تبدیل کیا گیا۔ آج بھی آبادیاتی تبدیلیوں، حلقہ بندیوں میں ہیر پھیر سمیت دیگر اس طرح کے اقدامات کئے جا رہے ہیں کہ جموں کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کی بنیادیں مضبوط کی جا سکیں۔ قبضے کو مزید گہرا کرتے ہوئے بھارتی سرمایہ کاروں کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دی جا سکے۔

نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کا بایاں بازو بھی بھارتی حکمرانوں او رریاست کے ان مظالم اور اقدامات کے اتنا ہی خلاف ہے، جتنی مخالف فاطمہ بھٹو نے کی ہے۔ تاہم ہمارا ماننا یہ ہے کہ تنقید کرنے سے پہلے اپنے دامن میں بھی جھانکنا چاہیے۔ اگر دوسرے کے اقدام کی مذمت کی جائے تو پھر اپنے کئے گئے اسی نوعیت کے اقدامات کو درست قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔

فاطمہ بھٹوکے دادا ذوالفقار علی بھٹو شہید اس نوعیت کے اقدامات لائن آف کنٹرول کی دوسری طرف جموں کشمیر میں کئی دہائیاں پہلے کر چکے ہیں، جن کا تذکرہ کبھی فاطمہ بھٹو نے نہیں کیا۔ ہم انہیں یاد دلانا چاہتے ہیں کہ یہ آپ ہی کے دادا جی تھے جنہوں نے گلگت بلتستان سے سٹیٹ سبجیکٹ رُول معطل کر دیا تھا۔ یہ اسی نوعیت کا قانون ہے جو آرٹیکل 370 کی ذیلی شق 35A کے تحت بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی زمینوں کو محفوظ رکھتا تھا۔

آج بھی گلگت بلتستان کے شہری اپنی زمینوں کو بیرونی سرمایہ کاروں کے قبضے میں جانے سے بچانے کیلئے سراپا احتجاج ہیں اور غداری، بغاوت و انسداد دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

نریندر مودی کی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز پالیسی تو نظر آتی ہے لیکن یہاں پاکستان میں یہ فاطمہ بھٹو کے دادا جی تھے جنہوں نے نہ صرف احمدیوں کو کافر قرار دیا۔

جموں کشمیر میں نریندر مودی کی قومی شاؤنزم پر مبنی پالیسیاں بھی فاطمہ بھٹو کو بالکل درست نظر آتی ہیں، لیکن یہ ان کے دادا جی تھے، جنہوں نے قومی شاؤنزم کی بنیاد پر نہ صرف کشمیر کارڈ کھیلا، بلوچستان پر جارحیت کو حمایت فراہم کی، بلکہ جموں کشمیر میں توسیع پسندانہ عزائم کو تقویت دینے کیلئے ایکٹ 74ء جیسے غلامی کے ایک دستاویز کی بنیاد پر اس خطے کی خصوصی حیثیت کو تہہ و بالا کر دیا تھا۔

فاطمہ بھٹو کو تو شائد پتہ بھی نہ ہو گا کہ جس طرح جموں کشمیر میں نریندر مودی بھارتیہ جنتا پارٹی کو مقبولیت دلا کر کشمیری سیاسی جماعتوں کا خاتمہ کرنے اور جموں کشمیر کو بھارتی مرکزی دھارے کی سیاست سے ہم آنگ کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں، اسی طرح کی پالیسی 50 سال قبل بھٹو نے لائن آف کنٹرول کی پاکستانی جانب نافذ کر لی تھی۔ نہ صرف پیپلز پارٹی کی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ذیلی شاخ قائم کی گئی تھی، بلکہ ایوب آمریت میں اس خطے پر مسلط کئے گئے حکمران عبدالحمید خان کو ہی وزیر اعظم بھی بنا دیا تھا۔

یاد رہے، خان عبدالحمید خان صوبہ سرحد کے سابق وزیر اعلیٰ خان عبدالقیوم کے بھائی تھے۔ واضح رہے کہ یہ وہی خان عبدالقیوم تھے، جنہوں نے جموں کشمیر میں قبائلی حملے کی سازش میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

گویا مودی نے اگر ہندوستانی زیر قبضہ جموں کشمیر کی سیاست کو بی جے پی آئز کیا تو بھٹو نے پاکستانی قبضے میں موجود جموں کشمیر کی سیاست کو پاکستانائز کیا۔

پیپلز پارٹی کے قیام کا یہ نتیجہ بھی نکلا کہ اب پاکستان میں جو جماعت بھی اقتدار میں آتی ہے، وہی جماعت راتوں رات پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی قائم کر لی جاتی ہے اور وہ دو سال کے اندر اقتدار میں بھی آ جاتی ہے۔

تاہم ایک بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نریندر مودی اور ذوالفقار علی بھٹو کو ایک برابر نہیں سمجھتے۔ نریندر مودی دائیں بازو کے ایک فاشسٹ لیڈر کے طور پر پہچان رکھتے ہیں، جبکہ ذوالفقار علی بھٹو ایک اور عہد کا کردار تھے۔ وہ بائیں بازو کے ایک پاپولر لیڈر تھے، تاہم مظلوم قومیتوں کی جانب ان کی پالیسیوں اورنریندر مودی کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں رہا ہے۔ بالخصوص بات اگر جموں کشمیر سے متعلق ہو تو دونوں کی پالیسیاں اور اقدامات ایک دوسرے کی فوٹو کاپی نظر آئیں گے۔

اس لئے ہم فاطمہ بھٹو سے بھی یہی گزارش کرینگے کہ اپنے دادا جی کی طرح جموں کشمیر کارڈ کھیلنے سے پہلے اپنے دامن میں بھی جھانک لیں، آپ کے اجداد نے بھی جموں کشمیر کارڈ کھیلتے ہوئے کافی کھلواڑ کر رکھا ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔