پاکستان

کیا جنرل مشرف لبرل تھے؟

فاروق سلہریا

جنرل مشرف کی وفات پر بعض افراد نے انہیں لبرل شخص قرار دیا۔ اس کی ایک مثال انتہائی معتبر اور اچھے صحافی اعزاز سید کا ویلاگ ہے۔ اعزاز سید نے اپنے ویلاگ ’ٹاک شاک‘ میں جنرل مشرف سے اپنی ملاقاتوں کا احوال سنایا اور جنرل مشرف کی’لبرلزم‘کا ذکر کرتے ہوئے بتا یا کہ جنرل مشرف اس بات پر بہت خوش ہوئے جب اعزاز سید نے انہیں بتایا کہ وہ خواتین میں بہت مقبول ہیں۔

اگر کسی طاقتور شخص کا خواتین میں مقبول ہونا لبرلزم ہے تو جنرل یحییٰ یقینا پاکستان کے سب سے لبرل فوجی ٓمر تھے۔

ہمارے ہاں شراب پینے، مغربی لباس پہننے، انگریزی بولنے یا ایلیٹ لائف سٹائل کو لبرلزم کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ اس سے بڑی لا علمی کا اظہار ممکن نہیں۔

لبرلزم روشن فکری کا نام ہے۔ اس کا مطلب ہے: آپ معاشی نظام کے طور پر سرمایہ داری کے حامی ہیں۔ مذہب کے معاملے میں آپ سیکولر ہیں یعنی یہ کہ ریاست کو سیکولر ہونا چاہئے اور ہر کسی کو یہ حق ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی یا غیر مذہبی نظریات کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے، سیاست یا معاشرہ اس شہری کے عقائد میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کر سکتے۔

سیاسی طور پر لبرلزم کا مطلب ہے جمہوری طور پر منتخب آئینی سیاسی نظام جس میں ہر کسی کو حق ہے کہ وہ سیاسی جماعت، ٹریڈ یونین، سوشل تحریک، طلبہ یونین یا کسی بھی قسم کی تنظیم بنا سکتا ہے۔ مکمل آزادی اظہار اس نظام میں ریڑھ کی ہڈی رکھتا ہے۔ لبرلزم انسانوں کی برابری پر یقین رکھتا ہے۔ ایک مولوی، راہب یا ذاتی زندگی میں کٹر مذہبی شخص بھی لبرل ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ سیکولر، جمہوریت پسند اور سر مایہ داری کا حامی ہو۔ ہم یہاں مولانا ابولکلام کا ذکر کر سکتے ہیں جو ایک عالم تھے۔ مولانا سیکولر، جمہوریت پسند تو تھے مگر مارکسسٹ نہیں تھے۔

مارکسزم لبرلزم سے اس بات ہر اختلاف رکھتا ہے کہ بغیر معاشی انصاف کے برابری ممکن نہیں۔ یوں لبرلزم اور مارکسزم دونوں یورپ میں ابھرنے والی روشن فکری (انلائٹن منٹ) کے نظریاتی بچے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ لبرلزم ابتدائی طور پریورپی بورژوازی کا نظریہ ہے جو منافقت پر مبنی ہے۔

مارکسزم روشن فکری کی حقیقی روح کا انقلابی نظریہ ہے جسے یورپ کی مزدور تحریک نے پیش کیا جو پوری دنیا کے محنت کشوں میں مقبول ہوا۔ کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کے پہلے مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا حسرت موہانی ایک مذہبی عالم اور مارکس وادی تھے۔ مولانا بھاشانی ایک اور اہم مثال ہیں۔ لبریشن تھیالوجی سے وابستہ پادری بھی کسی حد تک اس کی ایک مثال ہیں۔

ایک ایسا شخص جو جمہوریت کی بساط لپیٹ کر بزور بندوق اقتدار پر قابض ہوا ہو اسے مقبول عام اصطلاح کے مطابق لنڈے کا ہٹلر تو کہہ سکتے ہیں مگر لبرل نہیں۔

جنرل مشرف لبرل نہیں کلین شیو طالبان کے نمائندے تھے۔ ایک با وردی طالب تھے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔