مجیب اکبر
16 مارچ کو فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے آئین کی شق 49/3 کے تحت اپنا خصوصی اختیار استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم کو ہدایت کی کہ پینشن کی حد عمر 62 سال سے بڑھا کر 64 سال کرنے کا بل اسمبلی میں بغیر ووٹنگ کے منظور کر دیا جائے۔
یہ بل لمبے عرصے سے التوا کا شکار تھا، مگر میکرون نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اسے اسمبلی میں بغیر ووٹنگ کروائے منظور کر دیا۔ میکرون نے ووٹنگ سے کچھ ہی دیر قبل اپنے اس اختیار کو استعمال کیا جس پر اسمبلی میں بائیں بازو کے ممبران نے احتجاج کیا۔
49/3 کے استعمال کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اسمبلی میں اکثریت کھو چکے ہیں۔ اس سے قبل اس آرٹیکل کا استعمال 1962ء میں کیا گیا تھا، جسکے فوراً بعد حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی جو کہ کامیاب ہو گئی تھی۔
20 مارچ کو یکے بعد دیگرے دو عدم اعتماد کی تحریکیں پیش کی گئیں، جن میں سے پہلی کو 278 ووٹ ملے جبکہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 287 ووٹ چاہیے تھے یہ نہایت ہی قریبی معاملہ تھا۔ تاہم دوسری تحریک کے حق میں صرف 94 ووٹ پڑے۔
دوسری طرف جب اس بل کی باز گشت شروع ہوئی تھی تو جنوری سے ہی بڑے احتجاج پھوٹ پڑے تھے۔ سب سے بڑا احتجاج 19 جنوری کو کیا گیا تھا، جس میں تقریباً 12 لاکھ مظاہرین نے شرکت کی تھی۔ اسکے بعد بعد بعد دیگرے دو ماہ کے اندر تقریباً 10 بڑے احتجاج ہوئے۔
تاہم جس دن بل پاس کیا گیا، اس دن بھی 7 ہزار سے 12 ہزار کے درمیان کی ایک ریلی کی گئی جسکی کوئی کال نہیں دی گئی تھی۔ اس احتجاج میں 200 سے زائد لوگ گرفتار ہوئے۔ اگلے دن 17 مارچ کو بھی ایک احتجاج کیا گیا، جس میں بنیادی نعرہ تھا ”امیر پر ٹیکس لگاؤ۔“ 18 مارچ کو پیرس میں احتجاج پر پابندی لگا دی گئی، تاہم اس دن بھی احتجاج ہوئے، جن میں 169 سے زائد لوگ گرفتار کیے گئے۔ اسکے بعد لگاتار روزانہ کی بنیاد پر احتجاج ہو رہے ہیں۔ 28 مارچ کو ایک بڑا احتجاج ہوا، جس میں سی این این کے مطابق 740000 مظاہرین نے 240 سے زائد مقامات پر احتجاج کیا، جبکہ ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین جنرل کنفیڈریشن آف لیبر کے مطابق یہ تعداد 2 ملین سے زائد تھی۔
ریلوے ملازمین کی ہڑتال کی وجہ سے ریلوے بند ہے۔ آئیفل ٹاور کو بھی سیاحوں کے لیے بند کیا گیا ہے، جسکے بعد منگل کے روز ایئرپورٹس کو بھی بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس وقت احتجاج مزید بڑھ رہے ہیں اور یہ احتجاج فرانس کی سرحدوں کو پھلانگ سکتے ہیں۔ کرونا وبا کے بعد پوری دنیا بحران کا شکار ہے، اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اسکو مزید بھڑکا رہا ہے۔ ایسے میں کوئی ایک چنگاری ان ساری مسائل کے خلاف غصہ پھٹنے کی وجہ بن سکتی ہے۔