مجیب اکبر
پاکستان کی ایک لبرل فیمن اسٹ کی طرف سے گزشتہ روز سماجی رابطہ کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک پوسٹ کی گئی کہ”اگر پوری دنیا کی عورتیں فیصلہ کر لیں کہ وہ بچے پیدا نہیں کریں گی تو سوچئے کیا ہوگا؟“
اس پوسٹ کے بعد ایک بار پھر سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی۔ ماضی میں بھی کئی بار اس طرح کے بیانات آتے رہے،جو یہاں کے لبرل فیمن اسٹ ایکٹوزم کی محدودیت کا اظہار کرتی ہیں۔
پوری دنیا کو ایک طرف رکھ کر اگر صرف یہ فرض کر لیا جائے کہ صرف پاکستان کی عورتیں فیصلہ کر لیں کہ وہ بچے پیدا نہیں کریں گی تو کیا ہوگا؟ پاکستان جیسے ملک میں اکثریتی آبادی کے لیے اولاد سوشل سیکورٹی ہوتی ہے،جو بڑھاپے میں ماں باپ کا سہارہ بنتی ہے۔ یوں اگر ایسا فیصلہ ہو گیا تو سوشل سکیورٹی اور ماں باپ کا آخرت کا سہارانہیں رہے گا۔ ریاست تو ایسی کوئی ذمہ داری نہیں لے رہی کہ بڑھاپے میں آپکا خیال رکھے۔ یوں جب تک تو خاوند (کیونکہ پاکستان میں معاشی ضروریات پوری کرنا عموما خاوند کی زمہ داری ہے) کام کرے گا، تب تک دونوں شاید گزارہ کر لیں اور جب وہ کام کے قابل نہ رہا تو دونوں رُل جائیں گے۔اس طرح کی سطحی گفتگو میں سوشل میڈیا پر مقابلہ بازی تو کی جا سکتی ہے۔ تاہم اگر مقابلے میں مرد بھی ایسا فیصلہ کر لے تو نتیجہ تقریباً ویسا ہی نکلے گا جو عورت کے فیصلے سے نکلے گا۔ اس طرح کی سطحی، سماجی، معاشی اور سیاسی حالات سے کٹی ہوئی بحث کے اسی طرح کے نتیجے ہی نکل سکتے ہیں۔
لبرل فیمن اسٹ آج تک عورت کے گھریلو کام اور مرد کے منڈی کے کام کے تعلق کی وضاحت نہیں کر سکے،نہ اسکا حل پیش کر سکے ہیں۔لبرل فیمن ازم نے جہاں ایک طرف یونیورسل سسٹرہوڈ (Universal Sisterhood) کی اصطلاح کے ذریعے پوری دنیا کے خواتین کو رنگ،نسل،عقیدہ،علاقہ کے بندھنوں سے بالا ہو کر ایک لڑی میں جوڑنے کی کوشش کی،وہیں اس نے پوری دنیا کے تمام مردوں کو موجودہ سیاسی و معاشی ڈھانچے کا بینیفشری ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔
یوں لبرل فیمن ازم جہاں خواتین کے اندر سرمایہ دار اور محنت کش خواتین کے مسائل میں تفریق کرنے سے قاصر رہا،وہیں ہر علاقے کے مخصوص سماجی ڈھانچوں اور ان میں مروجہ جنڈر رول (Gender role) کی تشریح اور انکی بنیادوں کو سمجھنے میں بھی ناکام رہا۔ مغربی سامراج کے ماڈرن ازم کے نظریات کی طرح،جس میں انہوں نے پوری دنیا کے ممالک کی ترقی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی ناکام کوشش، لبرل فیمن ازم بھی ان مسائل کو ایڈریس کرنے میں ناکام رہا،جو تیسری دنیا کی خواتین کو درپیش تھے۔یوں سرمایہ داری کے سائے تلے خواتین کی ترقی کی خواہش،وہ بھی ان حالات میں جب خود سرمایہ داری تاریخی طور پر زوال پزیری کی شکار ہے،خواہش ہی نظر آ رہی ہے۔
پدرسری نظام کے اندر عورت پر سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ ترقی کے سفر میں خاتون کی گھریلو محنت کو بطور محنت تسلیم نہیں کیا گیا۔ پاکستان جیسے سماج میں عورت صبح طلوع سحر کے ساتھ جاگتی ہے اور بغیر آرام کئے رات کو اگلی صبح کے تمام تر انتظامات کر کے سونے تک مسلسل کام کرتی رہتی ہے۔ سماج کی ترقی میں شامل اسکی محنت کو مگر تسلیم نہیں کیا جاتا، جو سب سے بڑا ظلم ہے۔ تاہم عورت کے اس گھریلو کام کو محض سماجی ترقی میں مدد گار تسلیم کروانے کیلئے کیا جانے والا احتجاج بھی تب تک ادھورا ہے، جب تک ان مسائل کا ایک مستقل حل پیش نہیں کیا جاتا۔
اسکا ایک حل عموماً یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جب عورتیں گھر سے باہر کام پر جائیں تو گھر کے کام میں خلا پیدا ہو گااور اس میں مردوں کو بھی حصہ ڈالنا پڑے گا۔ یہ بات آج بھی لبرل فیمن ازم کے کچھ نعروں میں دیکھی جا سکتی ہے، جس میں گھر کا کام مل کر کرنے یا بانٹ کر کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ تاہم اصل میں ہوا یوں کہ ان بنیادوں پر عورت پر گھر کے کام کے ساتھ ساتھ باہر کے کام کا بوجھ بھی آن پڑا ہے۔ یہ درست ہے کہ گھر کے کام عورت اور مرد کو مل کر کرنے چاہئیں، بلکہ سب سے آئیڈیل صورتحال یہ ہے کہ گھر کے کام یعنی بچے پالنا، صفائی، کھانا پکانا، کپڑے دھونا وغیرہ باضابطہ کام تسلیم کئے جا کر ان کی تنخواہ مقرر ہو، یا اس سے بھی بڑھ کر اجتماعی کچن، اجتماعی لانڈری اور کنڈرگارٹن سمیت دیگر ایسی سہولیات ریاستی سطح پر مہیا کی جانی چاہئیں، تاکہ عورت کو اس بیگار یا جبری مشقت سے مکمل طور پر نجات مل سکے۔
تاہم سرمایہ داری کی حدود کے اندر رہتے ہوئے جب تک گھریلو مشقت کو قابل اجرت محنت تسلیم نہیں کیا جاتا، تب تک یہ مشقت مرد کرے یا عورت کرے، یا پھر دونوں مل کر کریں پھر بھی یہ ایک بڑی قوت محنت کو کھاتی جائے گی۔ سرمایہ دار طبقے کے مرد اور عورت دونوں گھریلوں ملازم رکھ کر اس ذمہ داری سے آزاد ہو سکتے ہیں، جو بدترین استحصال اور غیر انسانی رویوں کی ایک الگ داستان ہے۔ تاہم یہ سہولت محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے مرد اور عورت کی پہنچ میں نہیں آسکتی۔
اس سب کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ سرمایہ دار طبقے کی عورتیں پدر شاہی پر مبنی موجودہ سماجی ڈھانچے میں مردوں کے برابر ہو گئی ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ محنت کش طبقے کی خواتین سے بہت بلند مقام پر ہیں، تاہم صنفی حوالوں سے انہیں بھی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پدر شاہی ڈکشنری سے لے کر سماجی رویوں تک ہر جگہ پر عورت کو یہ احساس دلاتی ہے کہ اس کا سماج میں درجہ کم تر ہے اور یہ صرف اور صرف اس کی صنف کی وجہ سے ہے۔ یوں لبرل فیمن ازم عورت کے مسائل کی شناخت تو کر لیتا ہے، تاہم حل پیش کرنے کیلئے تعصب اور مقابلہ بازی کی بنیاد کے علاوہ اسی نظام کے اندر حل تلاش کرنے کی کوششوں میں غرق ہو جاتا ہے۔
گھریلو مشقت سے عورت کی نجات حقیقی معنوں میں تب ہی ممکن ہے جب لانڈری، کچن اور بچوں کی پرورش کا مشترکہ انتظام ہوگا اور خاندان کے ہر یونٹ کو انفرادی طور پر ان میں حصہ نہیں لینا پڑے گا، تب عورت ایک مکمل انسان کے طو رپر ترقی کے عمل میں شامل ہوگی اور برابری کی بنیاد پر کام کر سکے گی۔ ضروریات زندگی کو پورا کرنے کیلئے اگر8سے 16گھنٹے کی مشقت سے ہی انسان کو نجات دلائی جائے، جو آج کے عہد میں تھوڑی سی منصوبہ بندی اور پیداوار کے مقاصد کو تبدیل کرتے ہوئے کی جا سکتی ہے، تو انسان کے پاس اتنا وقت میسر آئے گا کہ وہ اپنے من پسند کھانے بنانے اور اپنے گھروں کی تزئین و آرائش سے بچوں کی پرورش تک کے عمل کو لطف اندوز ہونے کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔انسان ضرورتوں سے آزاد ہو تو وہ نہ صرف فطرت کو مسخر کرنے جیسے مقاصد کی جانب راغب ہو سکتا ہے، بلکہ ایک صحت مند اور معاشرے کیلئے مفید خاندان کی پرورش کا عمل اس کیلئے مسرت آمیز ہوگا۔
اس ساری گفتگو کا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ جب تک سماجی تبدیلی نہیں آتی، تب تک اس نظام کے اندر صنفی بنیادوں پر موجود امتیاز اور جبر کے خلاف آواز نہیں اٹھانی چاہیے، یا مطالبات نہیں کرنے چاہئیں۔ اس نظام کے اندر بھی صنفی برابری اور انصاف کیلئے ہر لمحہ لڑنے کا راستہ ہی ایک بڑی طبقاتی جدوجہد کی راہیں کھول سکتا ہے۔
صنفی جبر اور امتیاز کے علاوہ اگر عورت اور مرد کو الگ الگ دیکھا جائے تو نہ سب مردوں کو درپیش مسائل ایک جیسے ہیں،نہ سب عورتوں کو بلکہ یہ مسائل انکو طبقے کی طور پر مختلف کرتے ہیں۔محنت کش طبقے کی عورت اگر نظام کی بربریت کی وجہ سے دوہرے استحصال کا شکار ہے، تو سرمایہ دار طبقے کی عورت محنت کش طبقہ کے مرد کی نسبت بہتر زندگی جی رہی ہے،لیکن خود اپنے طبقے کے مرد کے مقابلے میں محض عورت ہونے کی وجہ سے کئی مسائل کا شکار ہے. یہ جنگ صرف پدر شاہی (جسکی تاریخی بنیادیں ذاتی ملکیت کے ساتھ جڑی ہیں) یا مرد کو فتح کر کے نہیں جیتی جا سکتی۔
ان مسائل کو یہاں کے معروضی حالات اور تیسری دنیا میں سرمایہ داری کے کردار سے کاٹ کر سمجھنے کی کوشش اسی طرف لے جاتی ہے،جہاں آج لبرل فیمن ازم کھڑا ہے، جہاں انہیں عورت کے مسائل میں کپڑے، کھانا پکانا اور بستر پر تعلق نظر آتے ہیں۔حقیقت میں یہاں کی اکثریت کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں، کھانا دستیاب نہیں،نہ سر ڈھانپنے کو چھت ہے۔ ان حالات میں انکی دستیابی کا سوال یہاں کی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے۔جس گھر میں پکنے کو کھانا ہی دستیاب نہ ہو،بچے بھوک سے مر رہے ہوں اور چائلڈ لیبر کا شکار ہوں،وہاں کھانا پکانے اور بچوں کی پرورش کے مسائل ثانوی بن جاتے ہیں۔
جس ملک میں عورتیں دوران زچگی مر رہی ہوں، دوران حمل غذائی قلت کا شکار ہوں، انکی خواندگی کی شرح مردوں کی نسبت آدھی ہو،وہاں ان بنیادی مسائل کو ایڈریس نہ کر پانا لبرل فیمن ازم کی محدودیت کو واضح کر رہا ہے۔
فیمن ازم کی تحریک نے اپنی تاریخی جدوجہد سے جہاں کئی مسائل سے لڑتے ہوئے عورت کو شہریت اور ووٹنگ کے حق کی لڑائی سے لے کر ایک انسان منوانے کی جدوجہد کی،اور سرمایہ داری، پدرشاہی اور مذہبی بنیاد پرستی کے خلاف جنگ لڑی،وہیں پوری دنیا میں شاندار تحریکوں کے ذریعے ریاستوں کو خواتین کے حقوق کے متعلق قانون سازی پر بھی مجبور کیا۔ یہ بھی منوایا کہ عورت بھی مرد کی طرح تمام صلاحیتوں سے لیس ایک مکمل انسان ہے اور سماج کی ترقی میں مرد کے شانہ بشانہ کام کر سکتی ہے۔ اس پدر شاہی نظام کے خلاف جنگ لڑی،جس نے ہر درجے پر عورت کا استحصال کیا۔چاہے وہ عورت کسی سرمایہ دار گھرانے سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتی ہو اپنے طبقے کے مرد کے سامنے بے بس و کمزور ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس لڑائی کو صرف پدر شاہی کے خلاف محدود نہ کیا جائے،بلکہ اسے سرمایہ داری کے خلاف جنگ سے جوڑا جائے،جو پدرشاہی نظام کے ساتھ مل کر نہ صرف عورت بلکہ اس کرہ ارض کے اکثریتی انسان کا صنف، رنگ، نسل، ذات و عقیدہ کی تفریق کی بنیاد پر استحصال کر رہا ہے۔
جب تک یہاں سے سرمایہ داری کی غلاظت کو اکھاڑتے ہوئے ان ملکیتی رشتوں کو ختم نہیں کیا جاتا،جو استحصال کا باعث ہیں،تب تک عورت کی آزادی کی یہ جنگ ادھوری ہے۔اسے سرمایہ داری کے خلاف جنگ کے ذریعے مکمل کرتے ہوئے ایک ایسا سماج قائم کیا جا سکتا ہے،جہاں کوئی بھی انسان اپنی بنیادی ضروریات کے لیے اپنے آپ کو کسی دوسرے انسان کے سامنے بیچنے پر مجبور نہ ہو۔یہی جنگ نہ صرف عورتوں بلکہ پوری انسانیت کو ان استحصالی شکنجوں سے آزاد کروا سکتی ہے۔