مجیب اکبر
4 جنوری کو اسرائیل کے نو منتخب وزیر انصاف نے عدالتی نظام میں اصلاحات کا اعلان کیا۔ ان اصلاحات میں ججوں کی تقرری بذریعہ حکومتی کمیٹی، سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی اور کسی بھی عدالتی فیصلے کو اسمبلی میں سادہ اکثریت سے معطلی شامل ہے۔
تیسری مرتبہ اسرائیل کے وزیر اعظم منتخب ہونے والے نیتن یاہو نے اپنے انتخاب سے محض 7 دن کے اندر یہ بل پیش کروایا۔ نیتن یاہو کی موجودہ حکومت کو اسرائیلی تاریخ کی سب سے رجعتی حکومت کہا جا رہا ہے، جس میں نیتن یاہو اسرائیل کی رجعتی جماعتوں کے ساتھ اتحاد سے وزیراعظم بنے ہیں۔ 2009ء سے اب تک نیتن یاہو ڈیڑھ سال وزیر اعظم کی کرسی سے الگ رہے ہیں۔ 12 جون 2021ء کو 12 سال بعد وہ وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے گئے تھے۔
اس بل کے پیش ہونے کے بعد 7 جنوری کو پہلا احتجاج تل ابیب میں ہوا،جس میں 20000 سے زائد لوگوں نے شرکت کی اسکے بعد لگاتار ہر ہفتہ کو تواتر سے اور اسکے علاوہ بھی مختلف علاقوں میں تقریباً 28 دن احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ ہر احتجاج کے ساتھ مظاہرین کی تعداد بڑھتی رہی، جو کہ 25 مارچ کے احتجاج میں 630000 سے تجاوز کر گئی۔ یہ اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج تھا۔ اسی دن اسرائیل کے وزیر دفاع نے عدالتی اصطلاحات بل کو وقتی طور پر روکنے کی سفارش کی اور اسی دن اسرائیل کے وزیر دفاع کو اپنے اس بیان کی وجہ سے نیتن یاہو کی طرف سے معطل کر دیا گیا۔ اسکے جواب میں 26 مارچ کو 150 سے زائد مقامات پر سڑکیں بلاک کر دی گئیں اور 23 لوکل کونسلروں نے وزیر اعظم کے آفس کے سامنے بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔
27 مارچ کو اسرائیل کی تمام لیبر یونینز نے احتجاج کا اعلان کیا۔ اسرائیلی ٹیکنالوجی کی انڈسٹری نے مکمل شٹر ڈاون کی کال دی، اسرائیل ایئر پورٹ ٹریڈ یونین نے ایک ایئر پورٹ کو بند کرنے کا اعلان کر دیا اور اسرائیلی ڈاکٹر زیونین نے بھی صحت کے پورے نظام کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کے تمام کاروباری سیکٹرز نے ایک ساتھ احتجاج کیا ہو۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے اسرائیل صدر نے نیتن یاہو کو عدالتی اصطلاحات فوری روکنے کا حکم جاری کیا۔ جس پر نیتن یاہو نے ایک ماہ تک اس بل پر کاروائی روک دی مگر احتجاج جاری ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک یہ اصطلاحات واپس نہیں لے جاتیں وہ احتجاج جاری رکھیں گے۔
تاہم 27 مارچ کو اور اسکے بعد رجعتی جماعتوں کی طرف سے نیتن یاہو اور اس بل کے حق میں احتجاج کیے گئے۔ 3 اپریل کو رجعتی جماعتوں کی طرف سے اسرائیل صدر کے گھر کے باہر احتجاج کیا، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کی منتخب حکومت کے کام میں ٹانگ نہ اڑائیں۔
ان عدالتی اصطلاحات بنیادی طور پر ملک میں جمہوریت اور نظام انصاف کو معطل کرنے کی واردات قرار دیا جا رہا، جن کے ذریعے ملک کی عدلیہ کو اس رجعتی حکومت کے ماتحت کرنے کامنصوبہ ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کی بجائے ایک انتہا پسند مذہبی جماعتوں کا اتحاد ملک میں فیصلے کرے گا۔
اسرائیلی وزیر اعظم کی اس واردات پر انکے پرانے اتحادی بشمول امریکہ بھی انکے ساتھ نہیں ہیں۔ نیتن یاہو موجود حکومت میں اسرائیل کی ان جماعتوں کی نمائندگی کر ر ہے ہیں، جو عرصے دراز سے اسرائیل میں عدالتی بالادستی کے خلاف تھیں۔ خصوصاً غزہ میں اسرائیلی آباد کاری کے متعلق 2005ء کے فیصلوں کے بعد وہ جماعتیں اسرائیل عدالت کو اپنا دشمن تصور کرتی رہی ہیں۔ اسکے علاوہ وہ اسرائیل میں اقلیتوں اور خواتین کے تحفظ کے حقوق سے بھی خوش نہیں ہیں۔ انکے حالیہ مطالبات میں سب سے سر فہرست ’LGTBQ‘ تحریک کے حق میں فیصلوں کو واپس لیا جانا ہے۔
تاہم اس دفعہ اسرائیلی وزیر اعظم کو اپنے پہلے اقدام پر ہی بہت بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، جو کہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ابھی تک یہ احتجاج کسی ایک لیڈر شپ میں نہیں ہو رہے، بلکہ اسرائیل میں روشن خیال اور ترقی پسند حلقوں کی سپورٹ سے ہو رہے ہیں، جو کہ مستقل میں نیتن یاہو کی حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
اس وقت اسرائیل 3 سالہ آئینی بحران (2018-2021ء) سے نکلا ہی تھا کہ نیتن یاہو کے رجعتی اقدامات نے اسے ایک بار پھر بڑے بحران میں ڈال دیا ہے۔ یہ اس امر کا اظہار ہے کہ اسرائیل میں اب وہ رجعتی حصار ٹوٹ رہا ہے، جس نے ایک لمبے عرصے سے اس پورے خطے کو جنگوں میں جھونکا ہوا تھا۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ نیتن یاہو کی یہ حکومت اس طرح لمبے عرصے تک نہ چل پائے، جیسے وہ ماضی میں حکومت کرتے رہے ہیں۔ اس بار انکی حکومت کا استقبال اسرائیل کی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتالوں سے کیا گیا ہے۔