مجیب اکبر
گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں جائیداد کی ملکیت کے قوانین کافی پیچیدہ ہیں کیونکہ اس میں بیک وقت رنجیت سنگھ کی خالصہ سرکار کے قوانین، ڈوگراہ راج کے قوانین اور پھر تقسیم نے بعد کی لینڈ ریفارمز مختلف طریقے سے لاگو ہیں، جن کے تفصیلی جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی جگہوں پر یہ قوانین باہم متصادم ہیں۔
خالصہ سرکار کی اصطلاح بنیادی طور پر رنجیت سنگھ کی حکومت سے نکلی ہے جس کو خالصہ سرکار کہا جاتا تھا، چونکہ اس وقت ہندوستان کی شاہی ریاستوں میں یہ قانون تھا کہ زمینیں مہاراجہ کی ملکیت ہوتی ہیں، اس لیے ان زمینوں کا نام جو خالصہ سرکار کی ملکیت تھیں خالصہ سرکار پڑ گیا۔
ڈوگراہ راج میں پہلا بندوبست (زمین کے ملکیت کے متعلق قانون) 1887ء میں مالیہ اکٹھا کرنے کی غرض سے ہوا، جس میں زمینوں کی ملکیت کو تین طرح سے تقسیم کیا گیا۔ کاشتکاروں کو انکی زمین کی ملکیت دی گئی، جسکا انہیں مالیہ ادا کرنا تھا، دوسری قسم جاگیروں کی تھی جو مختلف راجاؤں کی ملکیت تھی اور پھر جو زمین باقی بچی تھی اسکو خالصہ سرکار کا نام ہی دیا گیا۔
تاہم 1936ء سے 1942ء کے درمیان ”نو توڑ“ کا قانون متعارف کروایا گیا، جو بنیادی طور پر خالصہ سرکار کے نام پر منجمد زمین کو کاشت کی غرض سے کسی کی ملکیت میں دینے کا قانون تھا، جس میں پولیٹیکل ایجنٹ اور پھر کلکٹر اور تحصیلدار کی انکوائری کے بعد وہ زمین کسی مقامی باشندے کو کاشت کے لیے دی جاتی تھی۔ گلگت بلتستان کے الگ ہونے کے بعد اس قانون میں 1965ء میں ترامیم کی گئیں اور بلتستان ایجنسی میں نافذالعمل کیا گیا، جو کہ کاشتکار کی طرف سے تسلی بخش کاشت نہ ہونے کی صورت میں زمین کی واپس ضبطگی اور الاٹمنٹ کی طریقہ کار میں ترمیم کی صورت میں تھیں۔
بعد ازاں پاکستان میں شمالی علاقہ جات کا نوتوڑ قانون متعارف کروایا گیا اور اسکا دائرہ کار پورے گلگت بلتستان تک پھیلا دیا گیا تھا بعد حکومت پاکستان نے نوتوڑ کے قانون کے تحت گلگت بلتستان کی زمینوں کی الاٹمنٹ روک دی تھی۔
گلگت بلتستان میں پچھلے کافی عرصے سے خالصہ سرکار اراضی حکومت کی طرف سے مختلف کاروباری کمپنیوں اور فورسز کو الاٹ کرنے کے خلاف احتجاجی تحریک موجود ہے، بابا جان اور انکے ساتھیوں کی گرفتاری اور سزا بھی ایک ایسے ہی کیس میں ہوئی تھی۔
تاہم بدھ 28 دسمبر کوحالات اس وقت کشیدہ ہوئے جب مناور کے مقام پر عوام کی طرف سے خالصہ سرکار پر قبضے کو روک دیا گیا، اسسٹنٹ کمشنرہمراہ بھاری نفری پولیس، رینجرز اور ایف سی وہاں پہنچے، جس کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے اور وقتی طور پر عوام نے قبضہ ناکام بنا دیا۔
اس واقعے پر حکومت کا موقف یہ ہے کہ حکومت ریاستی ملکیتی زمین کو استعمال کر کے گلگت بلتستان میں خوشحالی لانا چاہتی ہے اور بیرونی کاروباری لوگوں کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کر رہی ہے، جس سے گلگت بلتستان میں سیاحت کو فروغ ملے گا اور عوام کا معیار زندگی بلند ہو گا۔ تاہم دوسری طرف مظاہرین کے نمائندوں کا موقف ہے کہ حکومت عوامی زمین کو خالصہ سرکار اور نوتوڑ جیسے سامراجی قوانین کی مدد سے فروخت کر رہی ہے۔ مظاہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سی پیک بننے کے بعد اس خطے کی ترقی کے نام پرگلگت بلتستان کی تمام زمینوں کو اپنے منظور نظر لوگوں کو الاٹ کیا جا رہا ہے، کئی زمینیں فورسز کے قبضے میں ہیں، جس میں سکردو میں پاکستان ایئر فورس کی ملکیت میں بھی بڑی زمین شامل ہے۔
اس قانون کے خلاف گلگت بلتستان اسمبلی کے قائد حزب ایوان امجد حسین نے نومبر 2021ء میں ایک قرار دار پیش کی تھی مگر آج تک اس قرارداد پر بحث نہیں ہو سکی۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ آئین پاکستان کی رو سے بھی ریاست صرف اس زمین کی مالک ہو سکتی ہے، جو اس نے جنگ کر کے حاصل کی ہو جبکہ گلگت بلتستان کی زمین گلگت بلتستان کی عوام نے آزاد کروائی ہے۔ اس لیے اس زمین پر خالصہ سرکار اور نوتوڑ جیسے قوانین کے ذریعے عوامی زمینوں پر قبضے کیے گئے ہیں۔
ایک طرف حکمران بھارت کی طرف سے ملکیتی قوانین اور سٹیٹ سبجیکٹ کے خاتمے کے خلاف بات کرتے ہیں، جبکہ دوسری طرف گلگت بلتستان سے سٹیٹ سبجیکٹ کو ختم کر کے زمینوں پر قبضہ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
فی الحال حکومت کی جانب سے لینڈ ریفارمز کیلئے مشاورت کے بعد فیصلہ کرنے کی یقین دہانی کے بعد احتجاجی تحریک ایک ماہ کیلئے موخر ہوئی ہے۔ تاہم معدنی وسائل سے مالامال اس خطے کی زمینیں، پہاڑ اور جنگل اتنی آسانی سے محفوظ نہیں ہو سکیں گے۔ سی پیک راہداری کا گیٹ وے ہونے کی وجہ سے بھی گلگت بلتستان کی زمینوں کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے۔
گو کہ سی پیک سے بھی گلگت بلتستان کے شہریوں کو کوئی خاطر خواہ فوائد حاصل ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں، لیکن سرمایہ کاروں کیلئے اس خطے کی سیاحت اور سی پیک کی آمدو رفت کے باعث منافعوں کی کشش مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حکمرانوں کے جعلی وعدوں اور وقتی طور پر تحریک کو ٹھنڈا کرنے کے یہ اقدامات زیادہ دیرپا نظر نہیں آ رہے ہیں۔ پہاڑوں کے باسیوں کو اپنے حقوق کیلئے ایک بار پر سڑکوں اور گلی کوچوں کا رخ کرنا ہو گا۔