حارث قدیر
سرکاری گراؤنڈ میں لوگوں کی قطاریں لگی تھیں۔ صفدر بھی ایک قطار میں موجود تھا۔ ہزاروں مرد و خواتین کا یہ مجمع حکومت کی طرف سے مفت آٹا ملنے کی خبر سننے کے بعد یہاں جمع ہوا تھا۔ تاہم آٹا تو صرف انہیں ملنا تھا، جو سرکاری امدادی پروگرام کے سروے کے دوران منتخب کئے گئے تھے۔ ان منتخب لوگوں کو موبائل پر آٹا وصول کرنے کا میسج آیا تھا۔ صفدر سمیت دیگر ہزاروں لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ وہ اس سروے کی مستحق افراد کی فہرست میں موجود ہی نہیں ہیں۔
جب آٹا فراہم کرنے والوں کی طرف سے کچھ ایسے افراد کو آٹا فراہم کرنے سے انکار کیا، جو میسج دکھانے میں ناکام رہے تھے،تو بھگدڑ مچ گئی۔ قطاریں اچانک بکھرنا شروع ہو گئیں، ایک مجمع آٹے کے ٹرکوں کی طرف لپکنے لگا، صفدر کو اس ساری صورتحال کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ وہ بھی مجمعے کے ساتھ ہی دھکے کھاتا ہوا ٹرک کی طرف سرکتا گیا۔
اچانک پولیس نے لوگوں کے ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ مرد و خواتین نے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ گراؤنڈ کی گنجائش سے زیادہ ہجوم ہونے کی وجہ سے کئی لوگ لڑکھڑا گئے اور ہجوم کی دھکم پیل مقابلے کی دوڑ میں گر جانے والے افراد سے لاپرواہ تھی۔ صفدر کی سانس رکنا شروع ہو گئی، وہ لڑکھا کر گر پڑا۔ ہجوم دیگر کئی مرد، خواتین اور بچوں کی طرح صفدر کو بھی کچلتا آگے بڑھتا رہا۔ صفدر نے چلانے کی کوشش کی لیکن اسکا حلق خشک تھا، وہ آواز نکالنے میں کامیاب نہیں ہو پایا اور اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ کب وہ بے ہوش ہو گیا۔
ہجوم تھم چکا تھا، کچلے جانے کی وجہ سے دو خواتین اور ایک بچہ ہلاک ہو چکے تھے، درجنوں افراد زخمی تھے۔ صفدر بھی انہی زخمی بے ہوش افراد میں سے ایک تھا، جنہیں قریبی سرکاری ہسپتال لے جایا گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ زخموں سے چور ہسپتال کے ایک سٹریچر پر پڑا تھا۔ اٹھنے کی کوشش ناکام ہوئی تو اردگرد دیکھنے لگا، شاید ویٹنگ ایریا میں لگے ٹیلی ویژن کا عکس سامنے کھڑکی پر نظر آ رہا تھا۔
ٹی وی سکرین پر اسے خبروں کے ٹکر نظر آئے:
”سپریم کورٹ ہر صورت میں آئین کا تحفظ کرے گی، چیف جسٹس“
”ملک گہرے بحران میں ہے، اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم اس بحران کو مزید گہرا کر رہی ہے، وزیر قانون“
”ملکی مسائل کا حل فوری انتخابات میں ہے، تمام نظریں سپریم کورٹ پر ہیں،اپوزیشن جماعت“
”مفت آٹے کی لائنوں میں بھگدڑ مچنے سے تین افراد ہلاک، 22 زخمی ہو گئے“
خبریں دیکھتے دیکھتے اسکی آنکھیں بند ہو گئیں۔ زندگی کے چند سال اسکی آنکھوں میں ایک فلم کی طرح چل رہے تھے۔
ایک روز قبل ہی وہ شدید پریشانی میں مبتلا پیدل قریبی موبائل مارکیٹ کی جانب رواں دواں تھا۔ راستے کی طرف دیکھنے کی بجائے اس کی نظریں سمارٹ فون پر جمی ہوئی تھیں۔ فون میں موجود بچوں کی تصویریں دیکھنے کیلئے وہ فون گیلری تیزی سے سکرول کر رہا تھا۔
اسی اثنا میں اس کے ہاتھ دونوں بچوں کی ایک گروپ تصویر پر ٹھہر گئے۔ یہ اسکی بیٹی کے سکول جانے کا پہلا روز تھا۔ نئے کپڑے اور جوتے پہنے، سکول بیگ لٹکائے وہ اپنے بھائی کے ساتھ کھڑی تھی۔ بھائی نے بھی محض ایک سال قبل ہی سکول جانا شروع کیا تھا۔ بچوں کی یہ تصویر دیکھ کر اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ منتشر خیالات اس کے ذہن میں پنپ رہے تھے۔ موبائل مارکیٹ پہنچنے سے پہلے اس نے موبائل کو ’ری سیٹ‘کرنا تھا، تاکہ اسے فروخت کر کے کچھ رقم حاصل کر سکے۔
نوکری جانے کے بعد اس نے گھر کی تمام اشیاء فروخت کر دی تھیں۔ بچے نجی تعلیمی ادارے ہٹا کر سرکاری تعلیمی ادارے میں چھوڑے اورپھر تعلیم کا سلسلہ ہی ترک ہو چکا تھا۔ محلے کا نجی سکول بچوں کے تعلیمی سلسلہ ترک کرنے کی وجہ سے بند ہو گیا تھا۔ یوں اس کی بیوی کی معمولی تنخواہ پر لگی نوکری بھی جا چکی تھی۔ موبائل فون وہ آخری اثاثہ تھا، جس کو فروخت کر کے کچھ روز کا راشن خریدا جا سکتا تھا۔
تصویریں دیکھنا ترک کر کے اس نے سوشل اکاؤنٹ لاگ آؤٹ کرنا شروع کئے۔ پھرویڈیو زدیکھنے لگا۔ معروف شاعر فیض احمد فیض کی ایک نظم کی ویڈیوسامنے آئی تو اس نے پہلے کر دی۔ اتنے میں سامنے سے ایک موٹر بائیک کی لائٹ اس کے چہرے پر پڑی۔ جب تک وہ بائیک کی طرف ٹھیک سے متوجہ ہوتا، بائیک سوار نے انتہائی پھرتی سے اسکے ہاتھ سے موبائل چھینا اور بائیک کی سپیڈ مزید تیز کر دی۔
جب تک صفدر پیچھے مڑکر بائیک سوار کو دیکھتا، وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ ایک لمحے میں اسے آخری اثاثے سے بھی محروم کر دیا گیا تھا۔ کچھ دیر سڑک پر کھڑے رہنے کے بعد اس نے واپس گھر کی راہ لینے میں ہی عافیت جانی۔ تاہم راشن کی پریشانی اب بڑھتی جا رہی تھی۔
اسی اثنا میں صفدرنے دو لوگوں کی گفتگو سنی، جو اگلے روز قریبی سرکاری گراؤنڈ میں حکومت کی جانب سے مفت آٹا تقسیم کئے جانے پرتبصرہ کر رہے تھے۔ اس نے سوچا ایک دروازہ بند ہوا، تو دوسرا کھل گیا۔ چلو اب صبح گراؤنڈ سے مفت آٹا حاصل کر کے کچھ دن گزارہ ہو جائے گا۔ اس طرح مفت آٹا حاصل کرنے کی کوشش میں وہ ہسپتال کے ایک سٹریچر پر زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا تھا۔
وہ ملک میں قائم ہونے والی نئی جماعت کی حکومت کا بہت بڑا حامی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ملک میں کرپشن بہت بڑا مسئلہ ہے۔ خان آئے گا تو سب کرپٹ عناصر سے لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی اور ملک میں خوشحالی آجائے گی۔
اس نے انجینئرنگ مکمل کرنے کے بعد ایک ٹیک کمپنی میں ملازمت کا آغاز کیا تھا۔ یہ وہ پہلی کمپنی تھی جو اس ملک میں ٹیک مصنوعات کی پیداوار کا کام شروع کر رہی تھی۔ اس کے آغاز پر کاروباری طبقے کو کوئی زیادہ امید نہ تھی، وہیں صفدر جیسے انجینئرز کو بھی ٹیک مصنوعات کی ایک پسماندہ ملک میں پیداوار کا آغاز کوئی زیادہ چلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ انجینئر تعلیمی سلسلہ مکمل کرنے کے بعد بیرون ملک جانے کی تگ و دو شروع کر دیتے تھے۔
صفدر کے ساتھ المیہ یہ تھا کہ اسکی تعلیم مکمل ہوتے ہی والدین ایک حادثہ کی نظر ہو گئے۔ ایک مڈل کلاس گھرانے کی اکلوتی اولاد ہوتے ہوئے اس کی پرورش ایک کرائے کے مکان میں ہی ہوئی تھی۔ والدین کی وفات کے بعد اس کیلئے رہائش اور خوراک کا فوری مسئلہ درپیش تھا۔ ایسے حالات میں اس کے پاس بیرون ملک جانے کی خواہش کو پایہئ تکمیل تک پہنچانا ممکن نہ تھا۔
بیرون ملک موجود صفدر کے دوست نئی پارٹی کی حکومت کی تعریفیں کر رہے تھے، لیکن صفدرپر اب مایوسی کے بادل چھاتے جا رہے تھے۔ مہنگائی نے پریشانیاں بڑھانا شروع کر دی تھیں۔
اس نے کمپنی کے پرانے وفادار ملازم ہونے کے ناطے تنخواہ میں اضافے کیلئے درخواست کی، تو مالک نے اسے ملکی صورتحال کے پیش نظر انتظار کرنے کو کہا۔ مالک کا کہنا تھاکہ جلد حکومت ختم ہونے والی ہے، اپوزیشن جماعتیں اقتدار میں آئیں گی تو معیشت کسی حد تک بحال ہو گی، کاروبار بڑھے گا۔ اس طرح مہنگائی بھی کم ہو جائے گی اورتنخواہوں میں بھی اضافہ کر لیا جائے گا۔
اپوزیشن جماعتیں اقتدار میں تو آئیں لیکن حالات مزید خراب ہوتے جا رہے تھے۔ درآمدات پر پابندی عائد ہونے کی وجہ سے کمپنیوں کے پیداواری یونٹس بند ہوتے جا رہے تھے۔ بلال کی پریشانیاں کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ وہ روزانہ گھر واپس آتے ہی ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتا، ساتھ ساتھ ٹویٹر پر چلنے والے ٹرینڈز دیکھتا۔ اس کی خواہش تھی کہ ملکی حالات کی بہتری کیلئے کوئی ایک اقدام تو ہو جائے۔ اسے اب نئی حکومت سے اپنی پسندیدہ پارٹی کی پرانی حکومت کچھ بہتر لگنا شروع ہو چکی تھی۔
تمام سیاسی تصادم عدالتوں میں مرتکز ہو چکا تھا۔ حکومت کا پلڑا بھاری ہوتا تو ڈالر نیچے آتا، سٹاک مارکیٹ کے انڈیکس اوپر جاتے اور ایک امید بندھ جاتی کہ شاید اب تھوڑی مہنگائی کم ہو جائے۔ جلد ہی کوئی فیصلہ اپوزیشن کے حق میں آجاتا اور ڈالر کی قیمتیں مسلسل آسمان کے ساتھ باتیں کرنا شروع کر دیتیں۔ حکومت نے درآمدات پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور انڈسٹری کا دارومدار درآمدات پرتھا۔ یوں انڈسٹری بند ہونا شروع ہو گئی۔ ٹی وی پر بحث جاری تھی کہ آئین کی بالادستی کے بغیر اس ملک کی بہتری کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
انڈسٹری بند ہو چکی تھی، صفدر ان آخری ملازمین میں شامل تھا، جنہیں اسکی کمپنی نے اس شرط پر نوکری سے برطرف کر دیا کہ جونہی پیداوار دوبارہ شروع ہو گی، انہیں دوبارہ ملازمت پر بلایا جائے گا۔
زندگی اچانک تھم سی گئی تھی، ملازمت دوبارہ بحال ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی، جمع پونجی ختم ہوتی جا رہی تھی۔ بچوں کو سکول جاتے ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ انہیں مہنگے نجی سکول سے ایک سرکاری سکول میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔
محلے میں قائم نجی سکول میں صفدر کی بیوی 8 ہزار کی اجرت پر ملازمت کر رہی تھی، دو وقت کی روٹی کا بس یہی ایک آسرا باقی رہ گیا گیا۔ صفدر کی طرح دیگر لوگوں نے بھی مہنگائی سے تنگ آکر بچوں کو نجی سکولوں سے ہٹانا شروع کر دیا اور یوں محلے کا نجی سکول ہی بند ہو گیا۔ دو وقت کی روٹی کا آخری آسرا بھی چھن چکا تھا۔
صفدر نے موبائل میں آئین کی اپلی کیشن انسٹال کر لی اور آخری آسرے کے طور پر آئین کا مطالعہ کرنے لگا۔ وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ آئین میں ایسا کیا لکھا ہے، جس پر عملدرآمد ہونے سے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔
ریاست 5 سے 16 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کیلئے مذکورہ طریقہ کار پر جیسا کہ قانون کے ذریعے مقرر کیا جائے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی…ریاست تمام شہریوں کیلئے، ملک میں دستیاب وسائل کے اندر، معقول آرام و فرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی…تمام اشخاص کو لازمی معاشرتی بیمہ کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کرے گی…وہ بڑبڑا رہا تھا۔
اس نے سوچا کہ اس آئین پر تو کبھی عمل ہوا ہی نہیں ہے۔ اسی تجسس میں اس نے ایک ہی نشست میں پورا آئین پڑھ لیا۔ اس کا تجسس کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا گیا۔ پریشانیاں کم ہونے کی بجائے اور بڑھتی گئیں۔
”ہمیں امید ہے سپریم کورٹ غیر آئینی اقدامات کا راستہ روکے گی، اپوزیشن جماعت“
اچانک اس کی نظر ٹی وی پر چلنے والی اس خبر پر پڑی۔
اس نے سپریم کورٹ کے متعلق گوگل پر معلومات حاصل کرنا شروع کر دیں۔ وہ ہر طرف معلومات کیلئے اس طرح ہاتھ پاؤں مار رہا تھا، جیسے کوئی گہرے پانی میں ڈوب رہا ہو اور بچاؤ کی آخری سی کوشش کر رہا ہو۔
اچانک اس کی نظر اس خبر پر پڑی کے عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔
پارلیمان میں تقریر کے دوران ایک رکن کہہ رہا تھا کہ’’سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کیلئے وکیل کروڑوں روپے فیس وصول کرتا ہے۔“
”سپریم کورٹ میں تو غریب آدمی پہنچ ہی نہیں سکتا۔“
رکن پارلیمان کی تقریر سنتے ہی وہ بڑبڑایا۔
سپریم کورٹ میں انتخابات کے انعقاد کیلئے مقدمہ کی سماعت جاری تھی۔ حکومت انتخابات میں تاخیر چاہتی تھی، اپوزیشن انتخابات کا جلد از جلد انعقاد چاہتی تھی۔
جج بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تقسیم تھے۔ فوجی سربراہ نیوٹرل ہونے کی اداکاری میں مصروف تھے، جبکہ نیچے حکومت اور اپوزیشن کے حق میں تقسیم نظر آ رہی تھی۔
سماعت کے دوران ججوں کے ریمارکس اور بنچ سے علیحدگی کے واقعات بھی ملکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کر رہے تھے۔ ان ملکی مسائل کے حل کی بات کوئی بھی نہیں کر رہا تھا۔ ایک ہی رٹ تھی…انتخابات…انتخابات…انتخابات…
”اوہ…سپریم کورٹ نے تو ماضی میں بھی کبھی آئین کا دفاع نہیں کیا۔“
اچانک ایک تحقیق دیکھتے ہوئے صفدر پھر بڑبڑایا۔
”جب جب آئین معطل ہوا، اسی سپریم کورٹ کے ججوں نے آمروں کی حمایت کیلئے راستہ ہموار کیا…اسکا مطلب ہے یہ سب ایک دھوکہ ہے، یہاں عوام کیلئے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔“
وہ لگاتار بڑبڑاتا جا رہا تھا۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب موبائل پر یہ سب کچھ پڑھتے اور سوچتے وہ سو گیا…
اسے یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ کسی گہرے پانی میں ڈوب رہا ہے۔ کنارے پر کھڑی کشتی اسے بچانے کا آخری ذریعہ ہے اور اس کشتی کو چلانے کیلئے کچھ لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں۔
وہ ان لوگوں کو پکارنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ اس کی جانب متوجہ ہونے کی بجائے کشتی کی ڈرائیونگ نشست پر بیٹھنے کیلئے لڑائی میں مصروف تھے۔
اچانک ایک شخص بلند آواز میں انہیں اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔
صفدر کو تھوڑا اطمینان ہوا کہ شاید اب اسے بچانے کا فیصلہ کر لیا جائے گا، کشتی چلانے کے حق کا فیصلہ بعدمیں ہوگا۔ تاہم ایسا نہ ہوا، لڑنے والے افراد اب اس جج کے سامنے کشتی چلانے کا حق حاصل کرنے کی دلیلیں دینے میں مصروف تھے۔ جج نے کہا کہ پہلے الیکشن ہوگا، جو شخص جیتے گا وہی کشتی چلائے گا۔ اسی طرح قانون اور آئین کی حکمرانی قائم ہو سکتی ہے۔
”یہ آئین تو آدم خور ہے“
چیخ مارتے ہی صفدر کی آنکھ کھل گئی…
ماضی کے جھروکوں میں گم، زخموں سے چور جسم کو ہسپتال کے سٹریچر پر حرکت دینے کی کوشش کی وجہ سے پہنچنے والی تکلیف نے اسے چونکا دیا تھا۔ وہ ایک بار پھر کھڑکی پر نظر آنے والے ٹی وی کے عکس کی طرف متوجہ ہوا۔ اب کی بار باہر اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے ٹی وی سکرین کا عکس زیادہ واضح نظر آ رہا تھا۔
اسکی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ ٹی وی پر پارلیمان کے کسی سیشن کی روداد کے ٹکرز چل رہے تھے۔
اس نے پوری طاقت لگا کر آنکھیں کھولیں۔
”پاکستان میں خدا کا شکر ہے، کوئی شخص بھوکا نہیں مرا۔“
سپیکر اسمبلی کے یہ آخری الفاظ تھے، جو صفدر نے ٹی وی سکرین پر دیکھے اور اسکی آنکھیں ہمیشہ کیلئے بند ہو گئیں۔
ادھر ندیم گزشتہ شب راہگیروں سے چھینے گئے موبائل فون فروخت کر کے مہینے بھر کا راشن گھر لے کر آیا تھا۔ وہ ایک پاور لوم میں ملازمت کرتا تھا۔ ملکی بحران کے باعث ٹیکسٹائل سیکٹر بھی بند ہو چکا تھا۔
ندیم نے چند روز نوکری کی تلاش کے بعد اپنی موٹر سائیکل کو ہی روزگار کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ دن کو سواریاں اٹھا لیتا اور رات کو راہگیروں سے موبائل چھین کر بھاگ جاتا۔
اس روز چھینے گئے موبائل فروخت کرتے ہوئے اس نے ایک سمارٹ فون اپنے پاس ہی رکھ لیا تھا۔ یہ فون چھینتے وقت اس میں ایک ویڈیو چل رہی تھی، ندیم کو وہ نظم بہت پسند آئی تھی۔
راشن پہنچانے کے بعد شام کو ایک بار پھر راہگیروں کو لوٹنے کیلئے نکلنے سے قبل اسکے بیٹے نے اسے بتایا کہ آج دن کو مفت آٹا حاصل کرنے کی کوشش میں لو گ مر گئے ہیں۔
”بھکاری بننے کی بجائے جو چاہیے وہ چھین لیں، بغاوت کریں…بھکاریوں کا مقدر اس دنیا میں موت ہی ہے۔“
ندیم نے بیٹے کو سمجھایا کہ اپنا حق چھین کر لینا چاہیے۔ یہ دنیا بہت بے رحم ہے، یہاں مانگنے سے کچھ نہیں ملتا۔
اس نے سگریٹ سلگائی اور کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ چھینے گئے موبائل کی جانچ پڑتال کر رہا تھا کہ اس کی بیوی نے اسے بھگدڑ میں مارے جانے والے افراد کی خون سے لتھڑی لاشوں کی تصویریں دکھائیں۔ اچانک اس کی نظر ایک تصویر پر پڑی اور اس کے ہاتھ موجود موبائل فون کھڑکی سے نیچے گر کر سڑک پر جا لگا۔
ندیم کی زبان پر فیض کی نظم کے اشعار تھے:
جو بگڑیں تو اک دوسرے کو لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں