جیف کوورٹ
ترجمہ: قیصر عباس
زہرہ نادر افغان صحافی ہیں جو آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں اور افغانستان کے آن لائین اخبار ”زن ٹائمز“ کی ادارت بھی کررہی ہیں۔ نوے کی دہائی کے دوران ملک پر طالبان کے قبضے کے بعدوہ ایران منتقل ہو گئی تھیں۔ امریکہ کے ہاتھوں طالبان کی پسپائی کے بعد دوبارہ وطن آ کر انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور صحافتی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئیں۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد وہ کینیڈا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں اور یارک یونیورسٹی، ٹورانٹو میں پی ایچ ڈی بھی کر رہی ہیں۔ قارئین کے لئے ہم یہاں نیشنل پریس کلب واشنگٹن ڈی سی سے وابستہ صحافی جیف کوورٹ کے ساتھ زہرہ نادر کے ایک انٹرویو کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔
آپ نے ایک پوڈ کاسٹ میں کہا تھا کہ اچھی صحافت ایکٹوزم کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے لیکن اعلیٰ صحافتی اقدار کو ہمیشہ فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ آپ اس نظریے کواپنے اخبار ”زن ٹائمز“ میں کس طرح بروئے کار لا رہی ہیں؟
ہمارا کہنا ہے کہ ہم پس ماندہ طبقوں کی آواز ہیں اور ہمارے نزدیک عورتوں کے مسائل، معاشرے کے ہم جنس پرستوں کے حقوق اور ماحولیاتی تحفظ افغانستان کے اہم مسائل ہیں۔ صنفی مسائل کو ہم بہت اہمیت دیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں طالبان ایک استحصالی قوت ہیں اور اس صورت حال کو ہم زمینی حقائق کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ وہ ٹی وی پر آکر اعلان کرتے ہیں کہ ان کے علاوہ سب جھوٹ بول رہے ہیں لیکن ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے طالبان کے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ عام لوگوں کو اس بحث سے دور رکھا جائے مگر ہم اپنے استحصال زدہ شہریوں کوبھی قومی بیانئے کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔
صحافی ہونے کے ناطے ہم جانتے ہیں کہ ملک کے پس ماندہ لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے، ان کے چہرے ہمیں نظر نہیں آتے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم ان لوگوں کی آواز بن کر ان کی مشکلات زیر بحث لائیں۔ معیاری صحافت ہمارا اولین مقصد ہے۔
آپ کے بیان کے مطابق افغان خواتین کی مظلومیت کومیڈیا میں اجاگر کیا جاتا ہے جو درست بھی ہے۔ لیکن اس تصویر کے کئی اور پہلوبھی ہیں۔ شاید اسی لئے ”زن ٹائمز“ میں مختلف ثقافتی اکائیوں اور تہذیبوں کے تناظرمیں صنفی مسائل کا مفصل اور واضح تجزیہ کیا جاتاہے؟
اگرچہ مرد حضرات بھی ”زن ٹائمز“ میں شامل ہیں لیکن یہاں زیادہ تر خواتین کام کرتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صنفی مسائل پر جب ہماری خواتین بات کرتی ہیں تو تجزیے زیادہ پر اثر ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ صنفی امتیاز کا نہیں ہے، عورتوں کے مسائل پر لکھی گئی خواتین کی رپورٹس میں تجزیاتی گہرائی اورموضوعاتی تنوع ہوتا ہے۔ ان کے ذریعے ہم مختلف سماجی اکائیوں میں عورتوں کے مسائل کے مختلف رنگ دیکھتے ہیں، ان کے شب ورز کی کہانیاں ہوتی ہیں، ان کی امیدیں اور خواب ہوتے ہیں اور یہ سب پہلو انفرادی تجربات کی روشنی میں کچھ اور نکھر جاتے ہیں۔ یہ تجزیے عورت کی مظلومیت سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے گمبھیرمسائل سے پردہ اٹھاتے ہیں۔
سکیورٹی خطرات کے پیش نظر ”زن ٹائمز“ کے تقریباً پچاس فیصد صحافی قلمی ناموں سے لکھتے ہیں۔ چونکہ ملکی مسائل پر لکھنا ان کے نزدیک بہت اہم ہے وہ لکھنے کا یہ عمل بہر صورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال کوآپ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
ہمارے صحافیوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ ان کی زندگی کوسخت خطرات لاحق ہیں اور اس کے باوجود وہ لکھنے کا یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہم ان خطرات پر ان سے بات بھی کرتے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے غیر معمولی صدمات سے نبٹنے کے طریقوں پر ایک ورکشاپ کی جس کے دوران ہماری ایک ساتھی کا کہنا تھا:
”میں جب بھی گھر سے باہر نکلتی ہوں تو یہ سمجھ کر کہ یہ میرا آخری دن بھی ہو سکتا ہے اور طالبان مجھے گرفتار کر سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی میں باہر نکلتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ میں اپنے ہی وطن میں خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر کیوں مجبور ہوں؟ صرف اس لیے کہ میں ایک عورت ہوں، ایک صحافی ہوں“؟
میں ان خواتین سے کہتی ہوں کہ ہم لوگوں کوعورتوں کے مسائل سے آگاہ کر رہے ہیں۔ اپنی کہانی اخبار میں چھپنے کے بعد انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کمزور نہیں طاقتور ہیں۔ ان کو احساس ہے کہ گھر سے باہر نکلنا خطرناک ہو سکتا ہے مگر وہ ایک اہم کام کر رہی ہیں۔ ان کی ہر صبح ایک نیا عزم، ایک نئی امید لے کر آتی ہے اور یہی سوچ انہیں توانائی بخشتی ہے۔
”زن ٹائمز“ کی مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے دنیا کے ان صحافیوں کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے جوسچائی لکھتے ہیں اور انسانی آزادی پر مکمل یقین رکھتے ہیں؟
میں یہی کہنا چاہوں گی کہ آپ جہاں بھی ہیں اور اپنے تجربات کے بل بوتے پر جو بھی لکھ رہے ہیں وہ بہت اہم اور منفردہے کیوں کہ یہ کہانی کوئی اور نہیں لکھ سکتا۔ جو کچھ آپ کے سامنے ہے وہی آپ لکھتے ہیں اور دوسروں کو اس سے آگاہ کرتے ہیں۔ اگر آپ یہ نہیں لکھتے تو شاید دنیا ان حقائق سے نابلد رہتی۔ اس جنگ میں آپ اکیلے نہیں ہیں، دنیا میں اور لوگ بھی ہیں جو آپ کی طرح خطرات جھیل کر زندگی کو بامعنی بنا رہے ہیں۔ یہ کام آپ کے لیے جان لیوا بھی ہو سکتا ہے پھر بھی آپ دنیا تک اپنی آواز پہنچا رہے ہیں۔ اس ماحول میں اپنے کام سے یہ لگاؤ کوئی معمولی بات نہیں۔
(یہ انٹرویو پہلے نیشنل پریس کلب جرنلزم انسٹی ٹیوب کی ویب سائٹ پر انگریزی میں شائع ہو چکا ہے)۔