پاکستان

پی ٹی آئی ہی نہیں، ن لیگ بھی ٹوٹ گئی ہے

فاروق سلہریا

۱۔ پاکستان تحریک انصاف کی توڑ پھوڑ پر تبصرے جاری ہیں۔ ایک دلچسپ پہلو پر تبصرہ البتہٰ دیکھنے کو نہیں ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی ہی نہیں، مسلم لیگ نواز بھی ٹوٹ گئی۔ عمل مختلف ہے۔ عمران خان کو وقتی طور پر فوج سے ٹکر لینے کی وجہ سے، اپنی جماعت کی توڑ پھوڑ دیکھنا پڑی ہے۔ انہیں ریاستی تشدد سے ختم کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب، نواز لیگ فوج سے تعاون کے نتیجے میں عوام کے اندر اپنی حمایت کھو کر کھوکھلی ہو گئی ہے۔ عمران خان کے پاس کم از کم شہید بننے کا، مظلوم کہلانے کا بہانہ تو ہے۔۔۔نواز لیگ تو اپنا دفاع کرنے کے لائق بھی نہیں رہی۔ یوں آخر میں جس سیاسی جماعت نے طاقت حاصل کی ہے اسے عرف عام میں محکمہ زراعت کہا جاتا ہے۔

۲۔ عمران خان کی فوج سے کوئی لڑائی تھی نہ ہے۔ وہ فوج کی اندرونی دھڑے بندی کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اقتدار کھونے کے بعد، انہوں نے مہم جو یانہ اقدامات کئے جو انہیں بہت مہنگے پڑے۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ وہ فوری طور پر اقتدار میں واپس نہیں آ سکتے۔ یوں وقتی طور پر ان کے حامیوں اور بعض تبصرہ نگاروں کو لگا کہ وہ فوج مخالف ہو گئے ہیں۔ اقتدار ملنے سے قبل، مسلم لیگ نواز بھی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر وقتی طور پر اپنی عوامی بنیادیں وسیع کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ وقتا فوقتا پیپلز پارٹی بھی فوج مخالفت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔ آخر میں،اقتدار کی خاطر سب فوج کی نوکری کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ؟

اس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دار جماعتیں اندرونی جمہوریت اور بیرونی عوامی حمایت کی بجائے شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتی ہیں کیونکہ یہ جماعتیں سیاسی کم اور خاندانی جاگیر زیادہ ہیں۔ تحریک انصاف کی صورت میں یہ شخصیت پرستی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ یوں ان جماعتوں سے یہ توقع وابستہ کرنا کہ یہ ملک میں جمہوریت مضبوط کریں گی، غلط دروازے پر دستک دینے کے مترادف ہے۔

۳۔ کیا تحریک انصاف کی توڑ پھوڑ کی حمایت کی جا سکتی ہے؟ یہ سوال ہی غلط ہے۔ نہ اس جماعت کے بننے سے جمہوریت مضبوط ہوئی تھی نہ اس کے ٹوٹنے سے، عوامی نقطہ نظر کے مد نظر، جمہوریت کو کوئی نقصان پہنچنے والا ہے۔ جمہوریت کو اگر مضبوط کرنا ہے تو اس کے لئے گراس روٹس پر کام کرنا ہو گا۔ یہ مشکل کام ہے۔ اس لئے بہت سے لبرل اور لیفٹ کارکن یا دانشور جو سوشل میڈیا پرر ہی متحرک رہتے ہیں، کبھی اِس جماعت کی ’فوج دشمنی‘ پر بغلیں بجانے لگتے ہیں تو کبھی اُس جماعت کے ’جمہوری حقوق‘ کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ گراس روٹس پر کام کا مطلب ہے ٹریڈ یونین بنانا، سوشل تحریک تشکیل دینا، بائیں بازو کے میڈیا آوٹ لیٹ تشکیل دینا، طلبہ کو سکول کالج کی سطح پر منظم کرنا، کسان کو دیہات کی سطح پر منظم کرنا۔۔۔۔جو پہلے سے موجود تنظیمیں ہیں، ان کے ساتھ مل کر کام کرنا۔ جمہوریت محض الیکش کا نام نہیں۔ جمہوریت تنظیم سازی کا نام ہے۔

۴۔ تو کیا تحریک انصاف پر ریاستی جبر کی حمایت کی جائے؟ ہر گز نہیں۔ تحریک انصاف ہو یا ٹی ٹی پی، کسی کے بھی انسانی و جمہوری حقوق پامال نہیں ہونے چاہئیں۔۔۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ترقی پسند کارکن تحریک انصاف یا ٹی ٹی پی کے ترجمان بن جائیں، ہمدرد بن جائیں۔ اگر آپ ترقی پسند سیاسی کارکن ہیں اور آپ ریاست کے ان اقدامات کے ناقد ہیں جن سے تحریک انصاف کے جمہوری حقوق متاثر ہو رہے ہیں تو اسی لمحے یہ موقف لینا بھی ضروری ہے کہ تحریک انصاف بذات خود ایک جمہوریت دشمن جماعت ہے۔ افغانستان میں امریکہ سامراج کی یلغار سراسر غلط تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ طالبان کی حمایت شروع کر دی جائے۔ ایک تیسرا موقف بھی ممکن ہوتا ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔