خبریں/تبصرے

معیشت 9 فیصد سکڑ گئی: جی ڈی پی شرح نمو سمیت دیگر اعداد و شمارکی جعل سازی

لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کی معیشت کا حجم 11.2 فیصدکم ہو کر 341 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ اقتصادی ترقی اور کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے فی کس آمدنی میں بھی 11.2 فیصد یا فی کس 198 ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ فی کس آمدن 1568 ڈالر رہ گئی ہے۔ ایسی صورتحال میں جی ڈی پی کی شرح نمو کے سرکاری اعداد و شمار کے بارے میں تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔

’ٹربیون‘ کے مطابق قومی اکاؤنٹس کمیٹی (این اے سی) کے ایک دن پہلے منظور کئے گئے عارضی تخمینوں کے مطابق معیشت 34 ارب ڈالر یا 9 فیصد سکڑگئی، جبکہ آمدن میں 198 ڈالر یا 11.2 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

تاہم کچھ حکومتی ذرائع اور تازہ تفصیلات کے مطابق پاکستان بیورو برائے شماریات (پی بی ایس) کی انتظامیہ کو معاشی ترقی کی شرح کو تبدیل کرنے کیلئے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، جس کا ابتدائی طو رپر 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کیلئے منفی 0.5 فیصد کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق پی بی ایس کی انتظامیہ نے دباؤ کے سامنے جھک کر 0.3 فیصد کی مثبت شرح نمو ظاہر کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ اس کے بعد این اے سی نے اعداد و شمار پر مہر لگائی۔

2022ء کے سیلاب سے متعلق پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز اسسمنٹ (پی ڈی این اے) رپورٹ میں حکومت نے دنیا کو بتایا تھا کہ تقریباً 10 لاکھ مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم پی بی ایس نے شمار کیا کہ گزشتہ موسم گرما کے سیلاب کے دوران صرف 2 لاکھ کے قریب جانور ہلاک ہوئے تھے، جس نے حکومت اور پی بی ایس دونوں کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

این اے سی نے منظوری دی کہ مویشیوں میں 3.8 فیصد اضافہ ہوا۔ اس تعداد نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا، کیونکہ سیلاب سے پہلے کی مدت کے دوران ترقی کی شرح 2.3 فیصد سے کچھ زیادہ تھی۔ واضح تضاد نے 0.29 فیصد کی سرکاری اقتصادی شرح نمو کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے، جسے این اے سی نے بدھ کو منظور کیا۔

منفی سے مثبت شرح نمو میں تبدیلی بظاہر عجلت میں کی گئی تھی اور پی بی ایس پہلی بار این اے سی کی منظوری کیلئے ایک مناسب ورکنگ پیپر بھی پیش نہیں کر سکی۔ این اے سی نے محض ایک پریزنٹیشن کی بنیاد پر ورکنگ پیپر میز پر رکھے بغیرعارضی اقتصادی ترقی کی شرح کی منظوری دی۔

اس کے باوجود جاری مالی سال کے دوران معیشت کا حجم اور فی کس آمدنی ڈالر کے لحاظ سے سکڑ گئی۔ تاہم ملک میں مہنگائی کی ریکارڈ شرح کی بدولت روپے کے لحاظ سے معیشت کا حجم 85 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 18 ہزار ارب روپے زیادہ ہے۔

اسی طرح فی کس آمدنی، جس کا تخمینہ گزشتہ مالی سال میں 1766 ڈالر لگایا گیا تھا، وہ کم ہو کر 1568 ڈالر رہ گئی ہے۔ روپے کے لحاظ سے فی کس آمدنی 2021-22ء میں 3 لاکھ 13 ہزار 337 روپے سے افراط زر کی وجہ سے ایک چوتھائی اضافے کے بعد رواں مالی سال میں 3 لاکھ 88 ہزار 755 روپے ہو گئی ہے۔

پی ڈی این اے کی رپورٹ کے مطابق زراعت، خوراک، لائیو سٹاک اور ماہی گیری کے شعبوں کو 3.7 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

رپورٹ کے مطابق صنعتی شعبے میں مندی کے باوجود بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی کے شعبوں میں 6 فیصد ترقی ہوئی ہے۔ تعمیراتی شعبے میں سکڑاؤ 5.5 فیصد دکھایا گیا ہے، جو ذرائع کے مطابق پی بی ایس کے اندازے سے کم ہے۔

حکومت نے اطلاع دی ہے کہ تعلیم کے شعبے کی شرح نمو 10.4 فیصد رہی ہے، اسی طرح صحت کی خدمات میں 8.5 فیصد اضافے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، جو کہ کورونا کے دوران 6.2 فیصد شرح نمو سے بھی زیادہ ہے۔

مجموعی طور پر زرعی شعبے کی شرح نمو 1.6 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، اس حقیقت کے باوجود کے کپاس کی پیداوار میں 41.1 فیصد کمی، کپاس میں 23 فیصد کمی، گنے کی پیداوار میں صرف 2.8 فیصد اور چاول کی پیداوار میں 21.5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

صنعتی شعبے کا سکڑاؤ 2.94فیصد دکھایا گیا ہے، جبکہ ذرائع کے مطابق ابتدائی تخمینہ منفی پیداوار سے کم ہے۔ درآمدات، اہم فصلوں اور مینوفیکچرنگ کے شعبے نمایاں طور پر سکڑ گئے، لیکن حکومت نے ہول سیل اور ریٹیل شعبوں میں صرف 4.5 فیصد منفی نمو دکھائی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts