پاکستان

نئی ریاستی پالیسی: گرفتاری سے بچنا ہے تو حق مانگنے سے توبہ کرو

حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ٹیچرز آرگنائزیشن کی گرفتاریوں، ملازمتوں سے معطلیوں اور برخاستگیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اتوار کے روز حکومت اور انتظامیہ متحرک رہے اور جن جن رہنماؤں نے احتجاج کا راستہ ترک کرنے کا اعلان بذریعہ پریس کانفرنس نہیں کیا، انہیں گرفتار کرنے کے علاوہ دیگر تادیبی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔

تادم تحریر پونچھ ڈویژن سے دو درجن سے زائد رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ 300سے زائد معلمین و معلمات کو نوکریوں سے فارغ کئے جانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔ مرکزی صدر اور جنرل سیکرٹری کو معطل کر کے نوکری سے برخاستگی کی کارروائی دو روز پہلے سے جاری ہے۔ حکومت کی جانب سے ٹیچرز آرگنائزیشن کو کالعدم قرار دیکر رجسٹریشن منسوخ کر دیا ہے۔

مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر وں نے دفعہ144نافذ کرتے ہوئے اساتذہ کے احتجاج پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان حکم ناموں میں شہریوں کو بھی احتجاج میں حصہ لینے سے باز رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹروں، ٹینٹ سروس اور دیگر کاروباری حلقوں کو بھی اساتذہ کی لانگ مارچ کیلئے کسی قسم کی سہولت قیمتاً بھی فراہم کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

باغ میں ٹیچرز آرگنائزیشن کے رہنماؤں کو پریس کلب کے اندر پریس کانفرنس کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔ ضلع پونچھ میں اساتذہ کو لانگ مارچ کے انتظامات اور سکیورٹی کے حوالے سے تفصیلات بتانے کی غرض سے دھوکے سے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر(ڈی ای او) کے ذریعے سے بلایا گیا اور وہاں سے گرفتار کر لیا گیا۔ اسی طرح مرکزی صدر تاصف شاہین کو بلوچ سے بھمبر کیلئے سفر پر روانہ ہونے کے وقت گرفتار کیا گیا۔ بلوچ سے دیگر اساتذہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ سہنسہ کوٹلی سے بھی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

دوسری طرف جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کے قلم پینل نے ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ پینل میرپورڈویژن کی ضلعی تنظیموں کی قیادت کر رہا ہے۔ متحدہ پینل سے منتخب ہونے والے مرکزی سیکرٹری جنرل نے مظفرآباد ڈویژن کی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران کے ہمراہ پریس کانفرنس کر کے ہڑتال ختم کرنے کااعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ متحدہ پینل سے ہی منتخب مرکزی صدر اپنے دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار ہیں۔ اساتذہ کے ایک تیسرے گروپ کرسی پینل کے پاس ضلع پونچھ اور حویلی سمیت دیگر ذیلی تنظیمات کی قیادت ہے۔ اس پینل کے ضلع پونچھ کے صدر سردار مجید سردار خان بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گرفتار ہیں۔

یہ اساتذہ آج پیر کے روز ضلع بھمبر سے مطالبات کے حق میں لانگ مارچ کا آغاز کرنے والے تھے، منگل کے روز انہوں نے مظفرآباد پہنچ کر احتجاجی دھرنا دینا تھا۔ اساتذہ گزشتہ لمبے عرصہ سے سکیل اپ گریڈیشن کے مطالبے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے متعدد مرتبہ اساتذہ کے مطالبات تسلیم کر کے تحریری معاہدہ جات کئے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔

سکیل اپ گریڈیشن کا یہ فیصلہ2009کی قومی تعلیمی پالیسی کے تحت کیا گیا تھا۔پاکستان کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں آنے والے مختلف سالوں میں اساتذہ کے سکیل اپ گریڈ کر دیئے گئے تھے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے اساتذہ مگر یہ سہولت حاصل کرنے سے تاحال محروم ہیں۔محکمہ مالیات کی جانب سے منظوری دیئے جانے کے باوجود اساتذہ کے سکیل اپ گریڈ کرنے کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جا سکا ہے۔

یوں تعلیمی پالیسی کے تحت اساتذہ کی بھرتی کا عمل این ٹی ایس اور پی ایس سی کے ذریعے شروع کر دیا گیا، تعلیمی قابلیت بھی بڑھا دی گئی، تاہم سکیل وہی پرانے ہی برقرار رکھے گئے ہیں۔اس طرح بی اے، بی ایڈ کر کے این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی ہونے والا پرائمری مدرس گریڈ7میں ملازمت کرتا ہے اور22سے27ہزار روپے تنخواہ حاصل کرتا ہے، جونیئر معلم سکیل 11اور سینئر معلم سکیل 16میں تعینات ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے صوبوں اور گلگت بلتستان میں پرائمری معلم سکیل 14، جونیئر معلم سکیل16اور سینئرمعلم سکیل 17میں تعینات ہوتا ہے۔

حکومت کی جانب سے اساتذہ پر کیا جانے والاکریک ڈاؤن غیر آئینی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ایسوسی ایشن اور یونین سازی اساتذہ سمیت ہر شہری کابنیادی حق ہے، جس سے اساتذہ کو محروم کرنا آمرانہ طرز عمل ہے۔ حق مانگنے پر گرفتاریاں کرنا، ملازمتوں سے برطرف کرنا، تنخواہیں روکنا اور دیگر انتقامی کارروائیاں کرنا بدترین ریاستی وحشت اوربربریت کا ثبوت ہے۔

تینوں ڈویژن ہا میں آٹے کی شدید قلت ہے، لوگ آٹے کے تھیلوں پر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ حکمران اشرافیہ البتہ تمام مشینری کو اساتذہ کے خلاف کریک ڈاؤن پر استعمال کرنے میں مصروف ہے۔مختلف شہروں میں آٹے کی قیمتوں میں کمی اور بجلی کے بلات پر عائد ٹیکسوں کے خاتمے کیلئے احتجاجی دھرنے گزشتہ 2ماہ سے جاری ہیں۔ تاہم حکمران اشرافیہ ان احتجاجی دھرنوں کو بزور طاقت ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل نظر آتی ہے۔

ابھی تک یہ نظر آرہا ہے کہ حکومت تمام ریاستی مشینری اور اساتذہ کے اندر موجود سہولت کاروں اور موقع پرست قیادتوں کو استعمال کرتے ہوئے اساتذہ کے احتجاج کو سبوتاژ کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ ماضی میں ہیلتھ ایمپلائز کی تحریک کو بھی اسی عمل کے ذریعے سے کچلا گیا تھا اور اس کے بعد ملازم تنظیموں کی رجسٹریشن کے حوالے سے نئی قانون سازی کرتے ہوئے ملازم تنظیموں سے احتجاج، ہڑتال اور جلسہ، جلوس کرنے کا حق چھین لیا گیا تھا۔ اس بار اگر اساتذہ کی تحریک کو حکومت کچلنے میں کامیاب ہوتی ہے تو محنت کشوں پر مزید حملے کرنے کیلئے ریاست کو تحریک ملے گی۔

ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کئے جانے کے خلاف احتجاج کا راستہ روکنے میں حکومت کو مدد ملے گی اور ملازمین کے دیگر حقوق کو سلب کرنے سے بھی حکومت لمحہ بھر نہیں چونکے گی۔

اساتذہ کی شکست نظام تعلیم کی نجکاری کے علاوہ پنشن اصلاحات کے نام پر پنشن کا حق چھیننے جیسے ملازم دشمن اقدامات کرنے کیلئے حکومت کو مزید طاقت فراہم کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ جہاں اساتذہ کو ثابت قدمی کے ساتھ اس ریاستی جبر کا مقابلہ کرنا ہوگا، وہیں اس خطہ کے دیگر محنت کشوں، ترقی پسند سیاسی کارکنوں اور طلبہ تنظیموں کو اساتذہ کی اس تحریک میں مدد اور یکجہتی کا اظہار کرنا ہوگا۔ پاکستان بھر سے محنت کش طبقے کی تنظیموں کیساتھ ملکر اس لڑائی کو لڑنا ہوگا۔ بصورت دیگر ریاستی جبر کے نتیجے میں صرف یہ تحریک نہیں کچلی جائے گی، بلکہ مستقبل میں محنت کشوں کے حقوق کی ہر آواز کو دبانے کا حوصلہ ریاست کو میسر آئے گا۔

حکمران اشرافیہ کے نمائندے اپنی عیاشیوں اور لوٹ مار کو جاری رکھنے کیلئے اس خطہ کے محنت کشوں سے روٹی کا آخری نوالہ تک چھیننے کے اس عمل میں یہ بات بھول رہے ہیں کہ ریاست جبر و بربریت کی ایک حد ہوتی ہے۔ جبر جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو بغاوتوں کو جنم دیتا ہے۔ اس خطے سے ابھرنے والی بغاوتوں کے طوفان حکمران اشرافیہ کے اقتدار اور اس نظام کی موت کا پیغام بن کر سامنے آنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔