پاکستان

پاکستان: آئی ایم ایف معاہدہ اور اس کے ناقدین

سوشوون دھر

پاکستان مالیاتی بحران کے دہانے پر ہے۔ آبادی مسلسل گرتی ہوئی قوت خرید سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، غیر ملکی ذخائر کم ہو رہے ہیں، مہنگائی بڑھ رہی ہے اور ملک کو بڑے پیمانے پر بدامنی کا سامنا ہے۔ تناؤ بہت زیادہ ہے کیونکہ آنے والے انتخابات کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انتظامیہ مالی، اقتصادی اور سیاسی کشمکش پر توازن قائم کر رہی ہے جبکہ سویلین حکمرانی کے مستقبل کے بارے میں سوالات بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ صورت حال 2022ء میں سری لنکا میں پیش آنے والے واقعات کی طرف بڑھنے کا خطرہ ہے۔

ڈان کے مطابق ”اس سال فروری میں سالانہ اشیائے خوردونوش کی افراط زر کی شرح شہری علاقوں میں 41.9 فیصد اور دیہی علاقوں میں 47 فیصد تک بڑھ گئی۔ پچھلے سال فروری میں یہ ریڈنگ بالترتیب 14.3 فیصد اور 14.6 فیصد تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اشیائے خوردونوش کی مہنگائی، یا اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کی رفتار، صرف ایک سال میں تین گنا زیادہ ہو گئی ہے۔“

اپریل 2023ء میں پاکستان کے رپورٹ کردہ زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر کے آس پاس تھے، جو ایک ماہ کے درآمدی بل کی ادائیگی کے لیے بھی ناکافی تھے۔

یہ بہت زیادہ بیرونی قرضہ ملک پر ادائیگیوں کاسنگین دباؤ ڈال رہا ہے۔ پاکستان کو اپریل 2023ء سے جون 2026ء کے درمیان 77.5 ارب ڈالر کا بیرونی قرض ادا کرنا ہے۔ یہ 376 بلین ڈالر کی معیشت کے لیے ایک اہم بوجھ ہے۔ سب سے زیادہ ادائیگی چینی مالیاتی اداروں، نجی قرض دہندگان اور سعودی عرب کو اگلے تین سالوں کے دوران کی جائے گی۔ دسمبر 2022ء تک پاکستان پر بیرونی قرضوں اور واجبات کی مد میں 126.3 ارب ڈالر کا بوجھ تھا۔ اس قرض کا تقریباً 77 فیصد، یا 97.5 ارب ڈالر، مختلف قرض دہندگان کا حکومت پاکستان پر براۂ راست واجب الادا ہے۔ حکومت کے زیر کنٹرول پبلک سیکٹر فرموں کے ذمے کثیر جہتی قرض دہندگان کی طرف سے اضافی $7.9 بلین واجب الادا ہیں۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ

17 مئی کو جاری کردہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق معیشت نے اپریل میں لگاتار دوسرے مہینے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ظاہر کیا، جس سے موجودہ مالی سال کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں جولائی تا اپریل میں حیران کن طور پر 3.3 ارب ڈالریا 76 فیصد کمی واقع ہوئی۔

یہ کمی درآمدات میں 13.5 ارب ڈالر کی کمی کی وجہ سے ہوئی، جو لگژری مصنوعات اور غیر ضروری خام مال کی درآمدپر 2022ء میں عائد کی گئی پابندی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ اگرچہ یہ حوصلہ افزا معلوم ہو سکتا ہے، لیکن ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ فائدہ درحقیقت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

خام مال کی درآمد پر پابندی کا ابتدائی اثر مینوفیکچرنگ سیکٹر پر پڑا، جس کا 2022ء کے دوران جی ڈی پی میں حصہ 19 فیصد تھا۔ پاکستان کی وزارت خزانہ کی اپریل کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق لارج سکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) کے شعبے میں جولائی 2022ء اور فروری 2023ء کے درمیان 5.56 فیصد کمی واقع ہوئی، جبکہ گزشتہ سال اسی عرصہ میں 7.8 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ پرسٹن یونیورسٹی میں پاکستانی نژاد امریکی ماہر اقتصادیات عاطف رحمن میاں کا خیال ہے کہ پیداوار اور برآمد کے لیے درکار خام مال کی درآمد پر حکومت کی پابندیاں بالآخر ملک کی پیداوار کو کم کر دیں گی، اور کم جی ڈی پی قرض کی ادائیگی کو مزید مشکل بنا دے گی، جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں مزید کمی اور مزید بدحالی ہو گی۔

 

کرنسی کی قدر میں کمی درحقیقت صنعتی قیمتوں کو بڑھانے اور صلاحیت کے استعمال کی شدت کو کم کرنے کی خوفناک صلاحیت رکھتی ہے۔ درحقیقت پاکستانی روپیہ حالیہ برسوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں بتدریج اپنی قدر کھو رہا ہے۔

آئی ایم ایف بیل آؤٹ

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) اس ترتیب میں اعلیٰ نجات دہندہ کے طور پر مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ 12 جولائی 2023ء کو ’IMF‘ کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستانی حکام کو معاشی استحکام کے پروگرام میں مدد کیلئے کوٹے کے 111 فیصد یعنی 3 ارب ڈالر (ایس ڈی آر 2250 ملین) کی رقم میں 9 ماہ کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) پر اتفاق کیا۔

ایگزیکٹو بورڈ کا معاہدہ SDR894 ملین (تقریباً 1.2 ارب ڈالر) کی فوری فراہمی کی اجازت دیتا ہے۔ بقیہ فنڈز پروگرام کے دوران دو سہ ماہی جائزوں کے ساتھ مرحلہ وار کیے جائیں گے۔ ایگزیکٹو بورڈ کی ڈسکشن کے بعد منیجنگ ڈائریکٹر اور چیئر کرسٹالینا جارجیوا نے بیان دیا کہ ”پاکستان کی معیشت کو گزشتہ سال اہم جھٹکے لگے، خاص طور پر سیلاب کے شدید اثرات، اجناس کی قیمتوں میں بڑے اتار چڑھاؤ اور بیرونی اور اندرونی مالیاتی حالات کے سخت ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ یہ عوامل ’EFF‘ کے تحت غیر مساوی پالیسی کے نفاذ کے ساتھ مل کر وبائی امراض کے بعد کی بحالی کو روکتے ہیں، افراط زر میں تیزی سے اضافہ کرتے ہیں اور اندرونی اور بیرونی بفرز کو نمایاں طور پر ختم کرتے ہیں۔ حکام کا نیا اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ، جس پر ایمانداری سے عمل درآمد کیا گیا ہے، پاکستان کو میکرو اکنامک استحکام دوبارہ حاصل کرنے اور مستقل پالیسی کے نفاذ کے ذریعے عدم توازن کو دور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔“

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا کہ بیل آؤٹ معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں ایک اہم قدم ہے۔انکا کہنا تھا کہ ”یہ پاکستان کی معاشی پوزیشن کو فوری طور پر درمیانی مدت کے معاشی چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے تقویت دیتا ہے، جس سے اگلی حکومت کو آگے بڑھنے کے لیے مالیاتی سپیس مل جاتی ہے۔“ ملک کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا خیال ہے کہ”حالات اب درست سمت میں جا رہے ہیں۔“

لاہور سے تعلق رکھنے والے ماہر اقتصادیات علی خضر کے مطابق ”اگر حکومت اور آئی ایم ایف اس معاہدے پر نہ پہنچتے توکرنسی اور مہنگائی قابو سے باہر ہو سکتی تھی۔“ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ”غیر ملکی زرمبادلہ کی عدم موجودگی کے نتیجے میں ایندھن، خوراک، ادویات اور دیگر اشیا کی بڑے پیمانے پر قلت ہو سکتی تھی۔ اب حالات بہتر ہونے کا امکان ہے، کیونکہ کرنسی مستحکم ہوگی اور مہنگائی مختصر سے درمیانی مدت میں آہستہ آہستہ نیچے آئے گی۔

گراؤنڈ پر اختلاف

تاہم ملک میں یا بیرون ملک ہر کوئی اس پرزیادہ پرجوش خیالات کا اظہار نہیں کر رہا ہے۔ عبدالخالق (CADTM پاکستان) نے مشاہدہ کیا کہ تازہ ترین مالیاتی لائف لائن اور حمایت کے لیے سخت گیر ممالک پر اس کا انحصار استحکام کو فعال کرنے کے لیے درکار سیاسی اصلاحات کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ”پاکستان نے شدت سے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ معاہدے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف سے چلنے والی پالیسیوں نے پاکستان کی خوراک اور توانائی پر انحصار اور عدم تحفظ کو مزید خراب کیا ہے، عدم مساوات میں اضافہ کیا ہے اور آمرانہ حکومت کی طرف رجحان کو تقویت دی ہے۔ پارلیمانی ڈیبٹ آڈٹ کمیشن کے قیام کے بعد قرضوں سے متعلق جامع ریلیف پاکستان کو اس بدترین معاشی بحران سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو گا۔“

اس تناظر میں یہ بتانا ضروری ہے کہ 1958ء سے لے کر اب تک، یعنی قوم کی بنیاد کے 11 سال بعد، پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ 22 معاہدے کیے ہیں۔ حکومت نے 1970ء کی دہائی میں دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں اضافے سے نمٹنے کے لیے قرض لیا تھا، اس لیے پاکستان بہت زیادہ مقروض ہو گیا۔ اس کے بعد سے بڑے پیمانے پر بیرونی قرضوں کے نتیجے میں لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ یکے بعد دیگرے انتظامیہ نے مسلسل بنیادوں پر آئی ایم ایف سے بچاؤ کیلئے امداد طلب کی ہے۔ ان بیل آؤٹ قرضوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ قرض نسل در نسل منتقل ہوتا رہے، جس سے آئی ایم ایف کو ملک پر مسلط معاشی حالات کے ذریعے پاکستان کی ترقی پر بے پناہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

 

پاکستان میں مغربی حمایت یافتہ فوجی حکومتوں، جیسا کہ جنرل مشرف (1999-2008ء) اور ضیا الحق (1977-1988ء) کی مدد کے لیے بھی قرضے اور گرانٹس کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس سے پہلے جنرل ایوب خان کے دور حکومت (1958-1968ء) کو آئی ایم ایف کے قرضے آزادانہ طور پر دیے گئے تھے۔ اس سے پاکستان کے بیرونی قرضوں کے ایک اہم حصے کی ناگوار نوعیت کے بارے میں تشویش پیدا ہوتی ہے۔

ڈیبٹ جسٹس میں سینئر پالیسی آفیسر ہیڈ آف پالیسی ٹیس وولفینڈن نے ریمارکس دیئے کہ ”آئی ایم ایف پاکستان کے عوام کو کفایت شعاری پر مجبور کرتے ہوئے سابقہ قرض دہندگان کو بیل آؤٹ کرنے کی اپنی ناقص حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ یہ پاکستان کے کئی دہائیوں کے طویل قرضوں کے بحران کو برقرار رکھتا ہے، جو کہ امیر لوگوں کی وجہ سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات، جیسے 2022ء کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے بدتر ہو رہا ہے۔ اس کی بجائے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے گرانٹ بیسڈ فنانس کے ساتھ ساتھ تمام قرض دہندگان سے قرض کی منسوخی کی ضرورت ہے۔“

درحقیقت قرضوں میں ڈوبا پاکستان عالمی قرض دہندہ کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت اگلے 9 ماہ کے دوران 3 ارب امریکی ڈالر کا نیا قرض حاصل کرنے کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا آئی ایم ایف سے قرض لینے والا بن جائے گا۔ پاکستان، جو تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے، اس سے قبل 31 مارچ 2023ء کوآئی ایم ایف سے سب سے زیادہ قرض لینے والے ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر تھا۔

پاکستان کے قرضوں کا ایک بڑا حصہ، تقریباً 45 ارب ڈالر، کثیر الجہتی تنظیموں پر واجب الادا ہے۔ ورلڈ بینک (18 ارب ڈالر)، ایشیائی ترقیاتی بینک (15 ارب ڈالر)، اور آئی ایم ایف (7.6 ارب ڈالر) اسلام آباد کے سب سے بڑے کثیر الجہتی قرض دہندہ ہیں۔ پاکستان اسلامی ترقیاتی بینک اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کا بھی کافی مقروض ہے۔

26 کسان تنظیموں کے نیٹ ورک، پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق کا خیال ہے کہ حکومت کواس لمحے کے لیے بچایا گیا ہے، لیکن اسکے لوگوں کو نہیں۔ ان کے مطابق ”پاکستان پر آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط بین الاقوامی سطح پر متوازی نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکمران طبقے پر خاصا اثر و رسوخ ڈالا ہے، ان سے ہر مطالبہ منوایاہے۔ اس صورتحال پر جغرافیائی سیاسی حرکیات کے بھی اثرات ہیں، کیونکہ چین پاکستان کا سب سے بڑا اقتصادی شراکت دار ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے چین نے پاکستان میں بنیادی طور پر قرضوں کی شکل میں 60 ارب ڈالر کے وعدے میں سے 25 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ آئی ایم ایف نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں کو چینی قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔“

انکا کہنا تھا کہ ”گزشتہ سال کے تباہ کن سیلابوں کے باوجود، جن کے نتیجے میں 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ان چیلنجز پر غور کیے بغیر آئی ایم ایف کی سخت شرائط نافذ کی گئی ہیں۔ حکومت سیلاب متاثرین کی مناسب بحالی میں ناکام رہی ہے، 40 لاکھ سے زیادہ لوگ اب بھی سڑک کے کنارے کیمپوں میں مقیم ہیں۔ مزید برآں ’لاس اینڈ ڈیمیج اگریمنٹ‘ کے تحت ’COP27‘ میں پاکستان سے کیے گئے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔“

بجلی کے نرخوں میں معاہدے کے بعد سختی سے اضافہ ہوا۔ آئی ایم ایف نے مبینہ طور پر پاکستان کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا حکم دیا ہے۔ معاہدے کے مطابق ملک میں مہنگائی کم کرنے کے لیے پاکستان کی مانیٹری پالیسی سخت ہونی چاہیے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ فنڈ نے پاکستان کو شرح سود میں مزید اضافہ کرنے کا کہا ہے۔ اس نے سفارش کی ہے کہ پاکستان بجلی کی صنعت میں سبسڈی کے ساتھ ساتھ تنخواہوں اور پنشن کے اخراجات کو بتدریج کم کرے۔ پنشن اصلاحات بھی آئی ایم ایف کی اہم ترجیحات میں شامل ہیں۔

دوسری طرف پاکستان نے ایک فوری ڈیفالٹ کو ٹال دیا ہے۔ فاروق طارق نے مزید کہاکہ ”ریاست پہلے ہی مختلف پہلوؤں سے نادہندہ ہے۔ کورونا کی وبائی بیماری کی وجہ سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد میں 20 ملین کااضافہ ہوا، اور اپریل 2022ء سے حکومت کی طرف سے نافذ کیے گئے حالیہ کفایت شعاری کے اقدامات نے اس شمار میں مزید 10 ملین کا اضافہ کیا ہے۔ جب کہ سرکاری شعبے کے ملازمین کی اجرت میں 35 فیصد اضافہ ہوا تھا (جنہوں نے 100 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا تھا)، نجی شعبے کے کارکنوں کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا گیا۔ عالمی بینک کے ایک قدامت پسند اندازے کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 37.2 فیصد (3.65 ڈالر یومیہ) تک پہنچنے کی توقع ہے۔“

آکسفیم کے مطابق ملک کی امیر ترین 1 فیصد آبادی غریب ترین 70 فیصد آبادی کی مجموعی دولت سے زیادہ دولت مندہے۔ دولت کا یہ تفاوت ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے دور رس اثرات مرتب کرتا ہے۔ پاکستان میں دولت کی عدم مساوات کے اعدادوشمار حیران کن ہیں۔ عالمی عدم مساوات کے ڈیٹا بیس کے تجزیے کے مطابق پاکستانی گھرانوں میں سے امیر ترین 10 فیصد ملک کی آمدنی کا 42 فیصد کماتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصدملکی آمدنی کا صرف 13 فیصد کماتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے امیر ترین گھرانوں کی کمائی غریب ترین گھرانوں سے تین گنا زیادہ ہے۔ جب بات آمدنی کے بجائے دولت کی ہو تو معاملہ بہت زیادہ واضح ہوتا ہے۔ آکسفیم کی تحقیق کے مطابق پاکستانی گھرانوں میں امیر ترین 1 فیصد ملک کی 21.9 فیصددولت کے مالک ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد کے پاس صرف 4.4 فیصددولت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے امیر ترین گھرانوں کے پاس غریب ترین گھرانوں سے 5 گنا زیادہ دولت ہے۔ دولت اور آمدنی کے ان تضادات کے ملک کی معاشی اور سماجی ترقی پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف معاہدہ یقینی طور پر ملک کی حالت کو بہتر بنانے میں مدد نہیں دے گا۔

بین الاقوامی مالیاتی تنظیموں کے مطابق ان لوگوں پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے جن پر وہ حکومت کرتے ہیں، یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے ستم ظریفی کے ساتھ قرضوں کا بوجھ پاکستان کے محنت کش طبقے پر ڈالا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان چیزوں نے عام لوگوں کی زندگیوں کو مزید دکھی کر دیا ہے۔

(بشکریہ: ’CADTM‘، ترجمہ: حارث قدیر)

Roznama Jeddojehad
+ posts