نقطہ نظر

سامراجی قرضوں میں اضافے کی 3 وجوہات: مقروض ممالک کاسترو کا راستہ اپنائیں

ایرک توساں

ترجمہ: فاروق سلہریا

(ایرک توساں ’سی اے ڈی ٹی ایم‘کے رہنما اور بطور معیشت دان عالمی شہرت کے حامل ہیں۔’سی اے ڈی ٹی ایم‘ برسلز میں قائم ایک تنظیم ہے جو عالمی سامراجی قرضوں کی منسوخی کے لئے کوشاں ہے۔ پاکستان سمیت اس تنظیم کی شاخیں تیس سے زائد ممالک میں متحرک ہیں۔ ارجنٹینا کے اخبار ’Tiempo Argentino‘ کے نامہ نگار ’Jorge Muracciole‘ کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں ایرک توساں نے قرضوں کے عالمی بحران میں آنے والی تازہ شدت اور ان قرضوں کے خلاف مزاحمت بارے ایک انٹرویو دیا جس کا ترجمہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ سی اے ڈی ٹی ایم بارے معلومات کے لئے یہاں کلک کریں)

سی اے ڈی ٹی ایم عالمی قرضوں کے بحران بارے بات کرتی ہے۔ یہ جو بحران نئے سرے سے ابھر رہا ہے، اس کی وجوہات کیا ہیں؟

ایرک توساں: قرضے سے متعلقہ مسائل میں شدت کی وجہ بعض بیرونی جھٹکے ہیں۔ یہ جھٹکے شروع تو امیر ممالک میں ہوئے مگر ان کا اثر ترقی پزیر ممالک میں اس طرح ہوا کہ قرضوں کا بحران بڑھ گیا ہے۔ پہلا جھٹکا کرونا وبا کے مغرب پر اثرات سے لگا جس سے بعد ازاں ترقی پزیر ممالک کی آبادیاں بھی متاثر ہوئیں۔ پیرو، ایکواڈور اور برازیل جیسے ممالک میں کرونا وبا کے اثرات بالخصوص بہت شدید تھے۔ اس وبا کے شدید معاشی نتائج برآمد ہوئے۔ اس وبا سے نپٹنے کے لئے ریاستوں کو جو اقدامات اٹھانے پڑے ان کی وجہ سے بحران اور بھی شدید ہوا۔ اکثر یہ ہوا کہ بیرونی و اندرونی قرضے بڑھ گئے۔ 2020ء اور 2021ء میں یہ ہوا کہ حکومتوں نے کرونا وبا سے نپٹنے کے لئے قرضے لئے بجائے اس کے کہ بڑی فارما کمپنیوں یا گوگل، ایمازن، فیس بک، ایپل اور مائیکروسافٹ جیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں پر ٹیکس لگاتے۔ ان کمپنیوں نے وبا کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا منافع کمایا۔

اور کون سے جھٹکے لگے؟

ایرک توساں: دوسرا جھٹکا تھا یوکرین پر روس کا حملہ۔ اس جنگ کے نتیجے میں اناج کی تجارت پر اجارہ داری رکھنے والی کمپنیوں نے سٹے بازی شروع کر دی۔ یوں گندم اور اناج کی قیمت بڑھ گئی کیونکہ روس اور یوکرین گندم اور اناج برآمد کرنے والے دو اہم ممالک ہیں۔ اس سٹے بازی کا آغاز اناج کی تجارت کرنے والی اجارہ دار کمپنیوں نے کیا۔ یاد رہے اناج کی اَسی فیصد تجارت چار بڑی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے (ان میں سے تین امریکی اور ایک یورپی ہے)۔ ایندھن اور کھاد کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ اناج درآمد کرنے والے ترقی پزیر ممالک،بالخصوص مصر سے لے کر سینیگال اور تیونس تک بر اعظم افریقہ کے ممالک، اس نئی صورتحال کا شکار بنے۔

ان بیرونی جھٹکوں کے نتیجے میں پبلک قرضے بڑھ گئے کیونکہ حکومتوں نے تیل اور گیس کی کمپنیوں، ری ٹیل کی کمپنیوں، یاایگری بزنس کارپوریشنز پر ٹیکس لگا کر اضافی خرچے پورے کرنے کی کوشش نہیں کی۔ 1 فیصد پر ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ الٹا ان ایک فیصدی لوگوں کی دولت میں بیش بہا اضافہ ہوا۔

تیسرا جھٹکا تھا امریکی فیڈرل ریزرو، یورپی سنٹرل بینکس اور بنک آف انگلینڈ کا یہ فیصلہ کہ شرح سود میں اضافہ کر دیا جائے۔ یہ فیصلے 2022ء سے سامنے آنے لگے۔ امریکہ اور برطانیہ میں شرح سود 0.25 فیصد سے بڑھ کر 5.25 فیصد ہو گئی۔ یورو زُون میں 0 فیصد سے بڑھ کر 4.25 فیصد ہو گئی۔ جنوب کے ممالک کے لئے ان اقدامات کے ہولناک معاشی نتائج نکلے۔ وہ یوں کہ جو فنانس (مالی سرمایہ) جنوب کے ممالک کی جانب جا رہا تھا، اب اس فنانس کا رُخ شمال کے امیر ممالک کی طرف ہو گیا کیونکہ اس مالی سرمائے سے حکومتی بانڈ خریدے گئے کیونکہ اس میں زیادہ منافع تھا، مزید یہ کہ ان بانڈز پر زیادہ بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ کار اب جنوب کے ممالک سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ شرح سود میں اور بھی اضافہ کریں۔ اندرونی و بیرونی پبلک قرضوں کے ڈیٹ پیپر (Debt Paper) خرید کر جنوب کے ممالک میں حکمران طبقہ بھی منافع کما رہا ہے۔

موجودہ عہد اَسی کی دہائی سے کافی مختلف ہے۔ اَسی کی دہائی میں فیدل کاسترو اور برکینا فاسو کے صدر تھامس سنکارا سے جیسے رہنما بیرونی قرضوں کی مزاحمت کر رہے تھے۔

ایرک توساں: مماثلت یہ پائی جاتی ہے کہ امریکی فیڈرل ریزرو اور یورپ کے سنٹرل بینکوں میں یک طرفہ طور پر توسیع ہوئی۔ بڑا فرق یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کیوبا کے فیدل کاسترو یا برکینا فاسو کے تھامس سنکارا جیسے رہنما میسر نہیں۔ قرضوں کا شکار اس صورتحال میں جو ترقی پسند حکومتیں موجود ہیں وہ نہ اتنی ریڈیکل ہیں، نہ اتنی تخلیقی اور بہادر جتنی اَسی کی دہائی والی وہ حکومتیں تھیں جنہوں نے قرضوں کے خلاف مزاحمت کی۔

کیوبا کی موجودہ حکومت نے بھی قرض دینے والوں کی اُس طرح سے مزاحمت نہیں کی جس کی مثال یہ ہے کہ جب برطانوی عدالت میں ’ولچر فنڈز‘ نے مقدمہ کیا تو کیوبا کی حکومت نے زیادہ جوش کا مظاہرہ نہیں کیا۔

جہاں تک تعلق ہے برکینا فاسو کا کے موجودہ صدر کیپٹن ابراہیم ترورے کا تومعاملہ یوں ہے کہ معاشی ماڈل اور بیرونی قرض داروں بارے ان کے بیانات اور عمل میں بہت فاصلہ ہے۔ جولائی 2023ء میں، یعنی چند ہفتے قبل، برکینا فاسو نے آئی ایم ایف سے 300 ملین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ مالی کی حکومت بھی قرضوں کی قسطیں اتار رہی ہے۔ نائجر میں فوجی جنتا نے علی مہمان لامین زین کو وزیر اعظم مقرر کیا ہے۔ وزیر اعظم علی ماضی میں ورلڈ بنک کے علاوہ چاڈ میں افریقن ڈویلپمنٹ بنک میں ملازمت کرتے رہے ہیں۔ موصوف سکہ بند نئیو لبرل ہیں اور 2003-2010ء کے عرصے میں، صدر ممادو کی کابینہ میں، نائجر کے وزیر خزانہ تھے۔

سری لنکن کی مثال بھی دی جا سکتی ہے جہاں 2022ء میں بھرپور عوامی تحریک نے حکومت کا تختہ الٹ دیا مگر نئی حکومت نے بھی آتے ہی آئی ایم ایف سے ایک سخت معاہدہ کر لیا۔ ارجنٹینا کی حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے ایک سخت معاہدہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدارتی انتخاب کے لئے ہونے والے پرائمری انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کا امیدوار سب سے آگے ہے۔ ایسے رہنماوں کی کمی ہے جو قرض دینے والوں سے ٹکر لے کر طاقت کے توازن کو عوام کے حق میں بدل سکیں۔ ہمیں گراس روٹ سطح پر لوگوں کو متحرک کرنا ہو گا، ڈھانچے تبدیل کرنے کی جدوجہد کرنا ہو گی اور لوگوں کی اس صلاحیت پر انحصار کرنا ہو گا کہ وہ اس جاری عمل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

انہی باتوں کے مد نظر ’سی اے ڈی ٹی ایم‘ نے مراکش میں اگلے ماہ کاونٹر سمٹ (Counter Summit) کی کال دے رکھی ہے۔ مراکش میں اگلے ماہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے اجلاس ہو رہے ہیں۔

ارجنٹیا کے صوبے جوجوئے میں آدی واسی مائنگ کمپنیوں کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ یہ لوگ زمین پر اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ آدی وادیوں کی جدوجہد کی یہ ایک مثال ہے۔ صوبائی حکومت کے ساتھ ساز باز کے ذریعے مائنگ کمپنیاں علاقے کی زمین ہڑپ کرنا چاہتی ہیں۔ لیتھیم کے کاروبار میں ملوث ایسی دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں اس طرح کے کام کر رہی ہیں۔

ایرک توساں: ارجنٹیا کے شمالی علاقوں میں ہونے والی یہ مثالی جدوجہد معدنی وسائل کی لوٹ مار کے خلاف مزاحمت کی ایک شاندار مثال ہے۔ ایسی جدوجہد صرف جنوب کے ممالک میں ہی نہیں ہو رہی بلکہ شمال کے ممالک میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ جرمنی کی اُوپن کاسٹ کانیں اس کی ایک مثال ہیں۔ سویڈن کی گریتا تھن برگ کی قیادت میں ہونے والی جدوجہد کی بات کی جا سکتی ہے۔ جوں جوں سخت گیر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں توں توں پیرس اور دیگر فرانسیسی شہروں کے مضافات میں بسنے والے نوجوانوں کا غصہ بھی بڑھ رہا ہے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ جن ممالک کو اپنے جمہوری ہونے پر ناز ہے وہاں اتھاریٹیرین ازم میں اضافے کا رجحان ہے۔ فرانس میں پنش اصلاحات کے خلاف احتجاج کو دبانے کے لئے جو پرتشدد اقدامات ہوئے، اس کی ایک مثال ہیں۔ قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں اور مظاہرین سے آہنی ہاتھ کے ساتھ نپٹا گیا۔ لوگوں میں پھیلی بے چینی سے فائدہ اٹھا کر، اکثر ممالک میں فار رائٹ کی قوتیں زور پکڑ رہی ہیں۔ ارجنٹیا میں میلئی کی مقبولیت اسی عمل کا ایک اظہار ہے۔

ایرک توساں: جنوب کے ممالک میں کئی دہائیوں سے بیرونی قرضوں کو بہانہ بنا کر سٹرکچرل ایڈجسٹ منٹ کے نام پر ایسی پالیسیاں مسلط کی جا رہی ہیں جو عوامی مفادات سے بالکل میل نہیں کھاتیں۔ 2023ء میں عالمی سطح پر مالی ایڈجسٹ منٹ کے نام پر ہونے والی ایڈجسٹ منٹس کا ایک ریکارڈ بن گیا ہے۔ ہر ملک میں آئی ایم ایف جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہے۔ پچھلے تین سال میں آئی ایم ایف نے مختلف ممالک کے ساتھ ایک سو قرضوں کے معاہدے کئے ہیں۔ یہ معاہدے کرونا وبا اور پھر یوکرین جنگ کا فائدہ اٹھا کر کئے گئے۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں نجکاری ہو گی اور مزدوروں کے حقوق چھینے جائیں گے۔ بیس سال پہلے کی نسبت آئی ایم ایف آج کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ 2005ء میں برازیل اور ارجنٹینا جیسے ممالک نے آئی ایم ایف کو پیشگی قرض چکا دیاتا کہ آئی ایم ایف کی شرائط سے جان چھڑا سکیں۔ ارجنٹینا نے نئے سرے سے قرض لیا ہے۔ اس کے علاوہ مصر، گھانا اور دیگر ایشیائی مالک (پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش) سمیت سو ممالک نے قرضے لئے ہیں جس کے نتیجے میں متشدد پالیسیاں بے رحمی کے ساتھ لاگو کی جائیں گی۔

’سی اے ڈی ٹی ایم‘کے جریدے ’دی ادر وائسز آف پلینٹ‘ کے ایک ادارئے میں یہ کہا گیا ہے کہ شمال کی طرح جنوب میں بھی قرضوں کا سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس مسئلے سے نپٹنے کے لئے مزاحمت کرنا ہو گی۔

ایرک توساں: دیکھیں! ہماری تشخیص حقیت کی ترجمان ہونی چاہئے۔ 1985ء سے لے کر 2015ء تک، قرضوں کی منسوخی کے لئے چلنے والی تحریک میں ابھار دیکھنے کو ملا۔ 2001ء کے اختتام پر ارجنٹینا نے قرضے اتارنے سے انکار کر دیا۔ 2008-09ء میں صدر رافیل کورایا کی حکومت کے ابتدائی دور میں ایکواڈور نے قرضے واپس کرنے سے انکار کر دیا اور قرضوں کا پبلک آڈٹ کرایا گیا۔ 2015ء میں یونان میں قرضوں کی مخالفت کرنے والی جماعت، سریزا کی حکومت بنی۔ سریزا نے ہتھیار ڈال دئیے۔ اس کے بعد سے قرضوں کی منسوخی کے لئے چلنے والی مہم زوال پزیری کا شکار نظر آتی ہے۔ اب چیلنج یہ ہے کہ قرضوں کے نئے بحران سے کیسے نپٹا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سماجی طاقتوں کا اتحاد بنایا جائے۔ عالمی سطح اور بین البراعظمی سطح پر بیرونی قرضوں کے آڈٹ کرائے جائیں، قرضوں کی ادائیگی روکی جائے اور قرضے منسوخ کئے جائیں۔

ماحولیات کی تباہی اور اپنی تباہ کن فطرت کے پاس سرمایہ داری کا خاتمہ ضروری ہے۔

ایرک توساں: یہ خیال کہ سرمایہ داری کی موجودہ شکل کی کسی صورت اصلاح کی جا سکتی ہے، محض ایک خیال خام ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد، سرمایہ دارانہ پس منظر میں، کچھ سماجی مراعات دی گئیں۔ کچھ ترقیاتی اقدامات بھی دیکھنے کو ملے۔ آج جس سرمایہ داری کا سامنا ہے یہ ’خالی ہاتھ سرمایہ داری ہے‘۔ بحرانوں میں دھنسی ہوئی سرمایہ داری۔ اسے ماحولیاتی بحران کا بھی سامنا ہے۔ آلودگی کے بحران کا سامنا ہے۔ آج خوراک کا بحران ہے: 2014ء کے مقابلے پر 2023ء میں 250 ملین زیادہ آبادی بھوک کا شکار ہے۔ سرمایہ داری کا ایک عالمی بحران ہمارے سامنے ہے۔ اس کا جواب بھی عالمی سطح پر دینا ہو گا۔ یہ جواب سرمایہ داری مخالف، فیمن اسٹ، ماحول دوست جواب ہونا چاہئے۔ نسل پرستی کی مخالفت بھی اس جواب کا ایک جزو ہونا چاہئے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts