خبریں/تبصرے

جموں کشمیر: ریاستی کریک ڈاؤن کیخلاف ہزاروں افراد سڑکوں پر، درجنوں گرفتار

مظفر آباد (حارث قدیر) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیرمیں جاری عوامی حقوق تحریک پر ریاستی کریک ڈاؤن کے خلاف ایک بار پھر ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ مظفر آبادمیں احتجاج کو روکنے کیلئے ہفتہ کے روز ایکشن کمیٹی کے 20 سے زائد اراکین کو گرفتار کیا۔ دھرنا اکھاڑ دیا گیا اور مظاہرین کو آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کے ذریعے منتشر کیا گیا۔ تاہم شہریوں نے بڑی تعداد میں دوبارہ جمع ہو کر بھرپور احتجاج کرتے ہوئے پولیس کو پسپا کر دیا اور دوبارہ دھرنا قائم کر دیا۔

راولاکوٹ میں ہزاروں افراد نے شہر میں مارچ کیا اور احاطہ کچہری میں اکھاڑے گئے دھرنے کی جگہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد صابر شہید اسٹیڈیم میں جلسہ کیا اور دھرنا دوبارہ قائم کر دیا۔ 145 روز سے جاری یہ دھرنا جمعہ کی شب پولیس نے کریک ڈاؤن کر کے اکھاڑ دیا تھا اور شرکا دھرنا کو گرفتار کر لیا تھا۔ مظاہرین نے تحریک کی کامیابی تک بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ جاری رکھنے اور تحریک کو پر امن انداز میں مسلسل آگے بڑھاتے رہنے کے عزم کا اظہارکیا۔

عباسپور میں مظاہرین کی بڑی تعداد نے گرفتاریوں کے خلاف پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ کر دیا اور بعد ازاں اسسٹنٹ کمشنر آفس کا بھی گھیراؤ کیا گیا اور مظاہرین کی رہائی تک یہ احتجاج جاری رکھا گیا۔

پلندری میں بھی اکھاڑا گیا دھرنا دوبارہ قائم کر دیا گیا اور ریاستی کریک ڈاؤن کے خلاف ہزاروں افراد نے احتجاجی مارچ کیا۔ تھوراڑ میں مظاہرین نے جلوس کی شکل میں تھانہ پولیس میں اپنا آپ گرفتاریوں کیلئے پیش کر دیا۔ تاہم پولیس نے لاک اپ کھولنے سے ہی انکار کر دیا۔

ہجیرہ میں بھی ہزاروں افراد نے احتجاجی مارچ کرتے ہوئے دھرنا دوبارہ قائم کر دیا ہے۔ نواحی قصبہ جات میں بھی دھرنے دوبارہ قائم کئے جا رہے ہیں۔ باغ، سہنسہ، دھیرکوٹ، تراڑکھل، کھائی گلہ، علی سوجل، ہولاڑ، میرپور سمیت مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے ہیں اور ریاستی کریک ڈاؤن کی مذمت کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کو جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

کوٹلی میں جمعہ کی شب کو ہی پولیس کریک ڈاؤن کے بعد سینکڑوں شہری دوبارہ آبشار چوک پہنچے اور دھرنے کی جگہ پر قبضہ کر کے دوبارہ دھرنا قائم کر لیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ حکومت نے جمعہ کی شب اچانک پر امن احتجاجی تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔ اب تک مجموعی طور پر 50 سے زائد رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ راولاکوٹ میں قائم دونوں دھرنے اکھاڑے گئے اور 16 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ کھائی گلہ سے 2 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ہجیرہ سے 12 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ باغ اور دھیرکوٹ سے بھی گرفتاریاں کی گئیں اور دھرنے اکھاڑ دیئے گئے۔ سدھنوتی سے بھی دھرنا اکھاڑ کر مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔

جمعرات کو تینوں ڈویژنوں میں لاکھوں کی تعداد میں بجلی کے بل جلانے اور دریا برد کئے جانے کے بعد حکومت نے مختلف مقامات پر دو درجن کے قریب مقدمات درج کئے۔ اس کے بعد ریاست گیر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا۔ مظاہرین کو گرفتار کرنے کے بعد نئے مقدمات بھی قائم کئے جا رہے ہیں۔

مظفر آباد سے میرپور تک ہر شہر، قصبے اور دیہات میں رات بھر پولیس کی جانب سے چھاپے مارے جاتے رہے ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹیوں کے رہنماؤں، سیاسی کارکنوں، سول سوسائٹی رہنماؤں، ٹرانسپورٹروں، تاجروں اور طلبہ تنظیموں کے ذمہ داران کے گھروں پر چھاپے مار گئے۔

کریک ڈاؤن پر عملدرآمد نہ کرنے والے انتظامی و پولیس افسروں کے تبادلوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ راولاکوٹ سے گرفتار رہنماؤں کو باغ منتقل کیا گیا، تاہم باغ تھانے اور جیل کے ذمہ داران نے ان رہنماؤں کو لینے سے انکار کر دیا۔ راولاکوٹ واپس لانے سے بھی پولیس افسران نے منع کر رکھا ہے۔ راولاکوٹ سے گرفتار کئے گئے رہنماؤں کو باغ تھانے میں ایک کمرے میں بند کر کے رکھا گیا ہے۔

گرفتار رہنماؤں نے ضمانتیں کروانے سے بھی انکار کر دیا ہے اور شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی رہائی کی کوشش کرنے کی بجائے تحریک کو جاری رکھنے پر توجہ دیں اور احتجاجی تحریک کو بہر صورت جاری رکھا جائے۔

واضح رہے کہ بجلی کی منگلا ڈیم کی پیداواری لاگت پر فراہمی، ٹیکسوں کے خاتمے، گندم پر سبسڈی کی فراہمی سمیت حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کیلئے یہ تحریک راولاکوٹ سے 9 مئی کو شروع ہوئی تھی۔ یہ تحریک بتدریج اس خطے کے تمام 10 اضلاع تک پھیل چکی ہے اور بجلی کے بلوں کا مسلسل دو ماہ سے بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ رواں ماہ ذرائع کے مطابق 90 فیصد سے زائد بجلی بل جمع کروانے سے انکار کیا گیا ہے۔ اس پر امن تحریک کے دوران متعدد مرتبہ شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتالیں کی گئیں، لاکھوں افراد پر مشتمل احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے۔ تاہم اس دوران مظاہرین مکمل طو رپر پرامن رہے۔

حکومت نے تحریک کو توڑنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنے اور تحریک کو تقسیم کرنے کیلئے تمام کوششیں کرنے کے بعدکریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم بھرپور عوامی ردعمل نے حکومت کے اس منصوبے کو بھی فوری طور پر کامیاب نہیں ہونے دیا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts