فاروق سلہریا
عصر حاضر میں،وشال بھردواج ہندوستان کے ان چند فلمی ہدایت کاروں میں شمار کئے جا سکتے ہیں جو ترقی پسند خیالات کو کامیابی سے اسکرین پر پیش کرتے ہیں۔ ان کی تازہ پیش کش ’خفیہ‘ بہر حال ہندتوا کا پراپیگنڈہ لگتی ہے۔
فلم پر مختصر تبصرے سے پہلے فلم کی کہانی پیش ِخدمت ہے۔ فلم کا مرکزی کردار بھارتی خفیہ ایجنسی کی آفیسرکرشنا مہرہ (تبو) ہیں۔ ڈھاکہ تعیناتی کے دوران ان کا واسطہ حنا (ازمیری حق) سے پڑتا ہے۔ کرشنا مہرہ حنا کو را کے لئے ریکروٹ کر لیتی ہے لیکن دونوں ہم جنس پرست بھی ہیں۔یوں دونوں کے بیچ میں پیار کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسی دوران کرشنا مہرہ کے باس جیوا (اشیش ودیارتھی) کو پتہ چلتا ہے کہ حنا تو اصل میں آئی ایس آئی کی ایجنٹ ہے۔یوں کرشنا مہرہ کو واپس دلی بلا لیا جاتا ہے۔ بعد ازاں، کرشنا مہرہ کے پیار میں حنا، را کے ساتھ مل کر ڈبل ایجنٹ بن جاتی ہے۔ وہ جیواکو بتاتی ہے کہ اگر را نے بنگلہ دیش کے انتخابات میں مداخلت نہ کی تو جماعت اسلامی انتخابات جیت جائے گی،یوں بنگلہ دیش آئی ایس آئی کے ہاتھ لگ جائے گا۔
اسی دوران حنا بنگلہ دیش کے وزیر دفاع برگیڈئیر ثقلین (شتف فگار)کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہے۔ دراصل حنا قتل کرنے برگیڈئیر ثقلین کی پارٹی میں پہنچتی ہے جہاں بھری محفل میں برگیڈئیر صاحب بے رحمی سے،کھانا کھانے والے کانٹے (فورک) سے حنا کو قتل کر دیتے ہیں کیونکہ انہیں منصوبے کا علم ہو جاتا ہے(یہ منظر گھٹیا قسم کی سنسنی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہر اچھے ہدایت کار کو اس قسم کے مناظر سے گریز کرنا چاہئے)۔
کرشنا مہرہ اور جیوا یہ کھوج لگانا چاہتے ہیں کہ حنا بارے مخبری کس نے کی۔ اس کھوج کے دوران پتہ چلتا ہے کہ را کا ہی ایک اہل کار روی(علی فضل)سی آئی اے کے ساتھ ملا ہوا ہے اور پیسوں کے عوض سی آئی اے کو خفیہ معلومات فراہم کرتا ہے۔ را اسے پکڑنے کے لئے پہنچنے والی ہے کہ روی کو بھی پتہ چل جاتا ہے۔ وہ اپنی والدہ (جسے سب پتہ ہے) اور آٹھ (دس) سالہ بیٹے کے ساتھ امریکن سفارت خانے کی بھیجی ہوئی گاڑی میں فرار ہو کر امریکہ جانا چاہتا ہے مگر اس کی بیوی چارو (وامق گیبی)،جو ایک فوجی افسر کی بیٹی ہے، ملک سے غداری پر تیار نہیں۔ روی کی ماں اسے گولی مار دیتی ہے۔ روی، ماں اور بیٹے کے ساتھ امریکہ پہنچ جاتا ہے۔
دریں اثنا،پتہ چلتا ہے کہ حنا بارے برگیڈئیر ثقلین کو معلومات دراصل سی آئی اے نے دی تھیں۔سی آئی اے کو یہ معلومات وزیر داخلہ نے بلیک میل ہو کر دی تھیں۔ امریکہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر وزیر داخلہ نے ڈھاکہ میں اپنے ایسیٹ (assets) بارے نہ بتایا تو امریکہ ہندوستان کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ختم کر دے گا۔
جب جیوا اور کرشنا مہرہ کو یہ سب معلوم ہوتا ہے تو وہ امریکہ پہنچ جاتے ہیں جہاں نہ صرف، ذاتی دورے پر آئے برگیڈئیر ثقلین کو مار دیتے ہیں بلکہ روی اور اس کے خاندان کو بھی واپس لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس دوران کرشنا مہرہ اسی طرح سی آئی اے کو ناکوں چنے چبوا دیتی ہے جس طرح سرد جنگ کے دنوں میں جیمز بانڈ سویت روس کو تن تنہا شکست دے آتا تھا۔ مجبوری میں،سی آئی اے اور امریکی حکومت برگیڈئر ثقلین کو اتفاقی موت بنا کر پیش کرتے ہیں۔
بلاشبہ فلم ابتدائی طور پر تجسس سے بھر پور ہے لیکن نصف حصے کے بعد نہ صرف دیکھنے والا بوریت کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ بعض سین یا تو سمجھ میں نہیں آتے یا خواہ مخواہ فلمائے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر: چارو مدد مانگنے کرشنا مہرہ کے پاس جاتی ہے مگر کرشنا مہرہ اس سے بات نہیں کرتی مگر بعد ازاں خود رابطہ کرنے کے لئے ایک غبارے بیچنے والے بچے سے مدد لیتی ہے جو دلی کی ایک مارکیٹ میں غبارے بیچتے ہوئے چارو کو اشارہ کر کے بتاتا ہے کہ سامنے گاڑی میں را کے اہل کار بیٹھے ہیں۔ دلی میں،انڈیا کے ایک عام شہری سے رابطے کے لئے، را کو یہ سب سیکریسی (secrecy)اور ڈرامے بازی کیوں چاہئے؟ کیا وہ ایک خفیہ کال کر کے کسی شہری کے ساتھ ملاقات طے نہیں کر سکتے؟ اب تو عام پولیس کے پاس بھی یہ سہولت ہے کہ وہ کال کریں تو کال ریسیو کرنے والے کی اسکرین پر کال کرنے والے کا نمبر نمودار نہیں ہوتا۔
اسی طرح، حنا کب ڈبل ایجنٹ بنی،کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اس سے قبل، حنا جس انداز سے ڈھاکہ میں قائم بھارتی سفارت خانے پہنچ کر خود را کی ایجنٹ بننے کی پیش کش کرتی ہے اور ریکروٹ کر لی جاتی ہے، بالکل مضحکہ خیز لگتا ہے۔ اس طرح کے مناظر سے لگتا ہے کہ یہ فلم بھارت میں نہیں،پاکستان میں بنی ہے اور مقصد را کو احمق بنا کر پیش کرنا ہے۔
گو اداکاری، کرشنا مہرہ (جو طلاق یافتہ اور نوجوان لڑکے کی ماں ہے)اور حنا کا لیزبین تعلق بلا شبہ فلم کو دلچسپ بناتے ہیں مگر فلم کا سیاسی بیانیہ ہندتواکا پرچار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر ’فورس ٹو‘ (جس میں جان ابراہم نے مرکزی کردار ادا کیا) میں را چین کو چتاونی دیتی ہے تو اس فلم میں پیغام یہ ہے کہ بھارت اب سی آئی اے کو بھی سبق سکھا سکتا ہے۔یہ درست ہے کہ بعض معاملات (نیوکلئیر میدان) میں امریکہ نئی دلی کو بلیک میل کر سکتا ہے لیکن اگر سی آئی اے نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے اندر گھس بیٹھ کرنے کی کوشش کی تو پھر را والے’گھر میں گھس کر ماریں گے‘۔
’فورس ٹو‘ میں بھی ایک منظر ہے جس میں جان ابراہم اپنے باس کو (چین بارے)کہتے ہیں:’سر اب دیش بدل گیا ہے۔ اب ہم گھر میں گھس کر مارتے ہیں‘۔
دوم، بنگلہ دیش میں اگر آئی ایس آئی کامیاب ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سی آئی اے پاکستان کی سر پرستی کرتا ہے لیکن ڈھاکہ میں بھی را اس قابل ضرور ہے کہ اپنے ایسیٹ کی ہلاکت کا بدلہ لے سکے اور وہاں کے انتخابات پر اثر انداز ہو سکے۔
گو فلم میں ایک موقع پر ترقی پسندانہ پیغام بھی دیا گیا ہے۔ ایک منظر میں روی کی بیوہ،چارو کرشنا مہرہ سے شکوہ کرتی ہے کہ را (یا کسی بھی خفیہ ایجنسی)کے نزدیک انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں، جب ان کے لئے کسی ایسیٹ کی اہمیت ختم ہو جائے تو اسے بے رحمی سے مار دیا جاتا ہے۔ جواب میں کرشنا مہرہ اسے سمجھاتی ہے کہ جب تک لوگ مذہب اور قوم میں بٹے رہیں گے، یہ خون خرابہ ہوتا رہے گا۔
اس ایک مکالمے کے سوا، فلم بھارتی خفیہ ایجنسی کو گلوریفائی کرتی ہوئی،مودی کے ’شائنگ انڈیا‘، اور ’گھر میں گھس کر ماریں گے‘ والا بیانیہ پیش کرتی نظر آتی ہے۔
وشال بھردواج سے انفارمڈ فلمی ناظرین بہتر پروڈکشنز کی توقع رکھتے ہیں۔ افسوس ’خفیہ‘ اس توقع کے بالکل برعکس ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔