حارث قدیر
ڈاکٹر سید عرفان اشرف کہتے ہیں کہ”اس وقت خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جنگی صورتحال ہے۔ لوگ اتنے مایوس ہیں کہ انہیں کوئی استعارہ چاہیے، جو ریاست کے خلاف ان کے غم و غصے کا مرکز و محور بن سکے۔ ریاست نے عمران خان کو وہ استعارہ بنا دیا ہے۔ اس لئے لوگ اگر ووٹ دینے جاتے بھی ہیں تو عمران خان فیکٹر کی وجہ سے ووٹ دینے جائیں گے۔ جس طرح سٹیٹس کو قوتیں ریاست کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہی ہیں، ووٹر ان کے خلاف نظر آرہا ہے۔ بہر حال اگلا سیٹ اپ مخلوط قسم کا ہو گا۔ ایک کور کمانڈر ہی صوبہ چلائے گا۔ افغانستان کے حوالے سے پالیسیوں پر فوج اپنا اثرورسوخ جمائے رکھے گی۔“
وہ پشاور یونیورسٹی کے جنرلزم ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مصنف اور مضمون نگار بھی ہیں۔ ایک لمبے عرصے تک ملکی اور بین الاقوامی جریدوں کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کے آر پار کی تاریخ، سیاست، ثقافت اور معیشت پر عبور رکھتے ہیں۔
گزشتہ روز انتخابات کے حوالے سے ’جدوجہد‘ نے ان کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
پورے پاکستان میں ہی انتخابی مہم ماضی کی طرح زیادہ عروج نہیں پا سکی۔ کے پی میں الیکشن مہم کا ماضی سے موازنہ کیا جائے تو آپ کے خیال میں لوگوں کی دلچسپی میں کیا فرق ہے؟
ڈاکٹر عرفان اشرف: بالکل جس طرح ملک بھر کی صورتحال خیبرپختونخوا میں بھی ہے۔ ماضی میں جو الیکشن مہم چلائی جاتی رہی ہے، اس طرح سے اس مرتبہ نظر نہیں آرہی ہے۔ الیکشن میں ابھی 2سے3روز رہتے ہیں اور گزشتہ روز بھی میں دیکھ رہا تھا کچھ جماعتیں ابھی مختلف علاقوں میں انتخابی بینر اور پوسٹر وغیرہ لگا رہے تھے۔
یہی حال سیاسی قیادت کا بھی ہے۔ آخری وقت تک انہیں یقین نہیں تھا کہ الیکشن ہونگے بھی یا نہیں۔ زیادہ ترقیادت کا انحصار ٹی وی ٹاک شوز کی معلومات پر ہی ہے۔ پاور کوریڈور کے ساتھ یوں لگتا ہے کہ ان کے اس طرح کے تعلقات نہیں ہیں کہ ان پر اعتماد کر سکیں کہ وہ الیکشن کروا بھی رہے ہیں یا نہیں۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ نچلی سطح کے رہنماؤں کا ہائی کمان سے رابطہ نہیں یا ان پر اعتماد نہیں کیا جا رہا ہے۔یوں پھر الیکشن کا جوش و خروش نیچے تک سرائیت نہیں کر رہا ہے۔
یہ افقی مسئلہ بھی ہے، کہ سیاسی پارٹیوں کا ریاست یعنی فوج کے ساتھ تعلق غیر یقینی کا شکار ہے۔ اسی طرح یہ عمودی مسئلہ بھی ہے، کہ پارٹیوں کے اندر بھی قیادت، کارکنوں اور ووٹرز کے مابین ایک غیر یقینی صورتحال موجود ہے۔ اس وجہ سے الیکشن کے دن جو توانائی دیکھی جاتی ہے اس پر اثر پڑتا نظر آرہا ہے۔ الیکشن والے دن بھی شاید وہ جوش و خروش نظر نہ آئے، جو ماضی میں رہا ہے۔ ایک فیکٹر البتہ اس میں ابہام پیدا کرنے والا ہے، وہ عمران خان فیکٹر ہے۔
عمران خان کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیا گیا وہ شاید لوگوں اور ووٹرز کو زیادہ پسند نہیں ہے۔ آج وہ لوگ بھی عمران خان کے ساتھ ہیں جو عمران خان کے کبھی نہیں تھے۔ انہیں لگ رہا ہے کہ ریاست پر غصہ تارنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ عمران خان کو سپورٹ کیا جائے۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو کبھی عمران خان کے ووٹر نہیں رہے، شاید کبھی بنیں گے بھی نہیں۔ اس وقت خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جنگی صورتحال ہے۔ لوگ اتنے مایوس ہیں کہ انہیں کوئی استعارہ چاہیے، جو ریاست کے خلاف ان کے غم و غصے کا مرکز و محور بن سکے۔ ریاست نے عمران خان کو وہ استعارہ بنا دیا ہے۔ اس لئے لوگ اگر ووٹ دینے جاتے بھی ہیں تو عمران خان فیکٹر کی وجہ سے ووٹ دینے جائیں گے۔ جس طرح سٹیٹس کو قوتیں ریاست کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہی ہیں، ووٹر ان کے خلاف نظر آرہا ہے۔
ابھی تک کتنی جماعتیں مرکزی جلسے کر چکی ہیں اور ان جلسوں میں لوگوں کی دلچسپی کس طرح کی ہے؟خیبر پختونخوا میں انتخابی نتائج کی صورت کس طرح کی حکومت بنتی دیکھ رہے ہیں؟
ڈاکٹر عرفان اشرف:جب سے تحریک انصاف سے انتخابی نشان چھینے جانا کا فیصلہ ہوا ہے، اس کے بعد ہی خیبرپختونخوا میں انتخابی مہم میں کچھ تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس سے قبل کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ الیکشن ہو پائیں گے یا نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی یہ اندازہ تھا کہ الیکشن ہو بھی گئے تو تحریک انصاف ہی جیتے گی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ 9مئی کے بعد تحریک انصاف سب سے مضبوط پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔ ریاست سے ناراضگی کا ووٹ بھی عمران خان کو پڑ رہا ہے۔ مزاحمت کا ووٹ بھی عمران خان کی طرف جا رہا ہے۔ تاہم انتخابی نشان چھینے جانے کے فیصلے کے بعد سیاسی جماعتوں نے جلسے شروع کئے ہیں۔
جلسوں کے حوالے سے سب سے زیادہ فعال کردار ابھی تک پیپلزپارٹی کا رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کے پی کے دورہ کے دوران 5سے6جلسے کئے ہیں۔
اس کے علاوہ نوازشریف بھی آئے تھے، لیکن وہ مانسہرہ سے الیکشن لڑیں گے اور وہی ان کا مضبوط گڑھ ہے۔ انہوں نے جلسہ بھی وہیں پر کیا۔ ایک جلسہ سوات میں بھی کیا گیا۔
باقی پارٹیاں بھی چھوٹے چھوٹے جلسے کر رہی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی بھی جلسے کر رہی ہیں۔ تاہم اب بھی اگر عمران خان کو تھوڑی بہت بھی چھوٹ دی گئی تو ان کی جماعت زیادہ سیٹیں لے جائے گی۔ ایسا البتہ ہونے نہیں دیا جائے گا۔ کرک میں پی ٹی آئی کے جلسے پر پولیس نے حملہ کیا، کچھ لوگ گرفتار بھی ہوئے۔ ان کے لوگوں کے خلاف چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ جہاں پی ٹی آئی جلسہ کرتی ہے، وہاں دفعہ144لگا لیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اس کیلئے گنجائش نہیں ہوگی۔ تھوڑی سی بھی گنجائش ملی تو وہ سیٹیں لیں گے۔ حالانکہ میرا خیال ہے کہ کچھ سیٹیں ان کیلئے چھوڑی جائیں گی، پی ٹی آئی کو مکمل ختم نہیں کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ پرویز خٹک کی سربراہی میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے بنائے گئے گروپ کا بھی امکان ہے۔ سارے ادارے انہیں سپورٹ کر رہے ہیں، جلسے بھی وہی کروا رہے ہیں۔ اس صورتحال کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن میں کوشش کی جائیگی کہ وہ ایک قوت بن سکیں۔ عمران خان کے زوال کے بعد آزاد امیدواروں کا ایک عنصر بھی زیادہ نمایاں ہوا ہے۔ گزشتہ الیکشن میں تحریک انصاف نے 117میں سے90کے قریب نشستیں جیتی تھیں۔ اس مرتبہ ان کی جگہ کوئی ایک پارٹی نہیں لے پائے گی۔ زیادہ لوگ آزاد آسکتے ہیں۔ اس طرح دیگر پارٹیاں اگر کچھ سیٹیں لیتی ہیں تو زیادہ چانس ہے کہ یہ پرویز خٹک کو دوبارہ لائیں۔ اگر وہ 20سیٹیں بھی لے لیتے ہیں تو ان کو وزیر اعلیٰ بنایا جا سکتا ہے۔ بہر حال اگلا سیٹ اپ مخلوط قسم کا ہو گا۔ ایک کور کمانڈر ہی صوبہ چلائے گا۔ افغانستان کے حوالے سے پالیسیوں پر فوج اپنا اثرورسوخ جمائے رکھے گی۔
تاہم اگر ریاست اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہوئی پائی یا عملدرآمد نہ کر پائی توپھر زیادہ امکان یہ ہے کہ جے یو آئی ف زیادہ ووٹ لے سکتی ہے۔ ان کی مہم بھی اچھی خاصی ہے اور ان کا اثرورسوخ بھی ہے۔ جے یو آئی ف اور عوامی نیشنل پارٹی زیادہ سیٹیں لے سکتی ہیں، تیسری قو ت کے طور پر پیپلزپارٹی بھی ہو سکتی ہے۔ یوں ان کی ایک مخلوط حکومت بن سکتی ہے، جس میں اے این پی اور جے یو آئی ف کو فائدہ حاصل ہوگا۔
پیپلزپارٹی اور ن لیگ وفاقی پارٹیاں ہیں، ان کا اتنا زیادہ کام کے پی میں نظر نہیں آرہا۔پی ٹی آئی اور اے این پی کے بعد ان پارٹیوں کیلئے اس خطے میں جگہ بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔ ن لیگ کی حکومت ایک دو دفعہ آئی بھی ہے تو وہ سارا ووٹ عمران خان کے پاس چلا گیا ہے۔ یوں کہیں کہ پاکستانیت کا ووٹ عمران خان نے سنبھال لیا تھا۔ البتہ اس مرتبہ وہ ووٹ کہاں جائے گا، کیا ان دو پارٹیوں کی طرف آئے گا یا عمران خان کے پاس ہی رہے گا۔ یہ دیکھنا اہم ہوگا۔
خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی بائیں بازو کی قوم پرست جماعتیں کہلاتی ہیں۔ جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف دائیں بازو کی جماعتوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان میں زیادہ مضبوط جے یو آئی ف ہے۔ ان کے پاس پیسہ بہت ہے، مدرسوں کی صورت میں مشینری بھی بڑی ہے۔ تاہم ان کا حلقہ انتخاب ہمیشہ محدود رہا ہے۔ اس مرتبہ ان کی کوشش ہے کہ فاٹا کے اضلاع پر فوکس کیا جائے۔ اس کے ووٹ کا ابھی تک کوئی اندازہ نہیں ہے کہ وہ کدھر جائے گا۔ تاہم جے یو آئی ف کا خیال ہے کہ وہ مذہبی بنیاد پرستی کی بالادستی کی وجہ سے اس خطے سے ووٹ حاصل کریں گے۔ تاہم یہ ان کا خیال ہے۔ کرک، بنوں، ڈی آئی خان اور کوہاٹ تک ان کا ووٹ بینک ہے۔ فاٹا میں انکا کیا بنتا ہے، یہ ابھی وقت ہی بتائے گا۔ وہاں ابھی تک کوئی پارٹی جم بھی نہیں پائی ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا دورہ افغانستان بھی الیکشن مہم پر حملوں کے حوالے سے ہی تھا۔ ان کی الیکشن مہم پر داعش کی جانب سے حملے کئے گئے ہیں۔ انہیں شک ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ بھی ان کی مہم خراب کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس دورے کو ریاست کے خلاف سازشوں کو روکنے کی کوشش کے طورپر بیان کیا گیا۔ تاہم یہ میرے خیال میں آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا۔ پاکستانی ریاست نے بھی اس دورے کو ڈس آن کیا، افغان طالبان نے بھی یہ واضح کیا کہ وہ خود ہی آنا چاہتے تھے۔ اب یوں لگتا ہے کہ اس دورے کا انہیں نتیجہ بھی ملا ہے۔ اس دورے کے بعد جتنے بھی حملے ہوئے وہ پی ٹی آئی پر ہوئے ہیں۔ بلوچستان اور باجوڑ میں پی ٹی آئی پر حملے ہوئے، اے این پی پر بھی حملے ہوئے، البتہ جے یو آئی ف محفوظ رہی۔ اس کا انہیں الیکشن میں فائدہ ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف جماعت اسلامی کا میرا نہیں خیال کے زیادہ کچھ پذیرائی ملے، ان کا سپورٹ بیس دیر کے کچھ علاقوں تک ہی محدود ہے۔
لیفٹ کا حال یہ ہے کہ بلاشبہ اے این پی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ اسکا ووٹ بینک بھی ہے اور ووٹ پڑی گے بھی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو لوگ عمران خان کی طرف گئے گئے وہ واپس بھی آجائیں۔ البتہ اگر یہ پوچھا جائے کہ کیا اتنے ووٹ پڑ سکتے ہیں کہ یہ آرام سے حکومت بنا لیں، تو میرا نہیں خیال کے اتنے ووٹ پڑ سکتے ہیں، نہ ہی اسٹیبلشمنٹ ایسا چاہتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ آفتاب احمد شیرپاؤ کو بھی سپورٹ کرے گی، کیونکہ ان کے تعلقات اچھے ہیں۔ چارسدہ سمیت کچھ علاقوں میں انہیں بھی ووٹ پڑیں گے، البتہ اس کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ کو ہوگا۔ اس سب کا اے این پی کو نقصان ہو گا اور ان کی سیٹیں متاثر ہونگی۔ محمودخان اچکزئی کا گڑھ بلوچستان ہے اور ان کا ووٹ بینک کے پی میں بھی ہے، لیکن اتنا نہیں ہے کہ سیٹیں جیت سکے۔ میرا نہیں خیال کہ لیفٹ کو اتنا بڑا مارجن ملے گا۔ عوامی نیشنل پارٹی کو البتہ کچھ مینڈیٹ ضرور ملے گا۔
تحریک انصاف کا مضبوط بیس اب کے پی کو ہی سمجھا جا رہا ہے۔ انتخابی نشان چھن جانے اور پرویز خٹک لوگوں کے الگ ہونے کے بعد آپ کے خیال میں تحریک انصاف کے پی میں کس طرح کے نتائج کی توقع کر سکتی ہے؟
ڈاکٹر عرفان اشرف: تحریک انصاف کے اندر سے جو پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین بن گئی ہے۔ اس کی بظاہر قیادت تو پرویز خٹک کر رہے ہیں، لیکن اصل میں اس کی قیادت خفیہ ادارے کر رہے ہیں۔ سواد اور دیگر جگہوں پر جو جلسے ہوئے ہیں، ان میں لوگوں نے انٹیلی جنس کے ذمہ داران کو جلسوں میں بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔ پہلے اس نوعیت کی چیزیں نہیں تھیں، عمران خان کے وقت میں حمایت کی گئی لیکن لوگ پشت پر ہوتے تھے۔ اب تو یہ کھل کر سامنے آرہے ہیں اور سٹیج پر سادہ کپڑوں میں نظر آتے ہیں۔ اس صورتحال میں پی ٹی آئی کے سپلنٹر گروپ کو ووٹ دینے کا سیدھا سیدھا مطلب ریاست کو ووٹ دینا ہے۔
عمران خان فیکٹر کو نیوٹرلائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس کا ضرور کوئی نہ کوئی اثر بھی ہوگا۔ ان جلسوں پر بہت بڑا سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ پرویز خٹک گروپ نے سب سے پہلے جلسے شروع کئے اور ان کی مہم بھی بہت زیادہ ہے۔ ان کی قیادت بھی وہی ہے، جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ 2013سے2021تک اس خطے میں جو بھی کام کئے گئے ہیں وہ انہوں نے کئے ہیں۔ عمران خان کی جماعت کا صوبے میں چہرہ بھی وہی تھے۔ اگر وہ زیادہ سیٹیں نہ بھی لے سکے، پھر بھی کما ز کم عمران خان کو نقصان پہنچانے کا کردار ادا کریں گے۔ اس طرح پھر عمران خان کی پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا تھوڑا مشکل ہے۔
پی ٹی ایم کے ابھار کے بعد اے این پی اور پی کے میپ کی مقبولیت میں کمی کا رجحان نظر آرہا تھا، انتخابات میں وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرتی نظر آرہی ہیں یا نہیں؟
ڈاکٹر عرفان اشرف:اگر اے این پی اور قوم پرست پارٹیوں کا رجحان کم تھا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ریاست کی پوری مشینری عمران خان کے ساتھ تھی۔ یہ جماعتیں بیک فٹ پر چلی گئیں اور ان کو اچھے خاصے وقت کیلئے اس سب سے باہر کیا گیا۔ 2013سے2021تک عمران خان کو مینڈیٹ دلوایا گیا اور ان جماعتوں کو کافی ٹف ٹائم ملا۔ اس کی وجہ سے ان کا اپنا ڈھانچہ بھی متاثر ہوا، کچھ نیا ڈویلپ بھی نہیں کر سکے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن بھی نہیں کروائے جا رہے اوریہ بھی موروثی پارٹیاں بنتی جا رہی ہیں۔ ایمل ولی لیڈر بن کر سامنے آرہے ہیں، لیکن انہیں زیادہ پسند نہیں کیا جا رہا ہے۔ پی کے میپ بھی دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک طرف عثمان کاکڑ کا بیٹا قیادت کر رہا ہے تو دوسری طرف محمود خان اچکزئی ہیں۔ وہ بھی پارٹی کو موروثیت کی طرف لے جا رہے ہیں۔ یہ تقسیم کے پی میں بھی موجود ہے۔ اس لئے بہت زیادہ امید نہیں ہے کہ وہ الیکشن میں اثر انداز ہونگے۔
پی ٹی ایم نے ماضی میں انتخابات سے کنارہ کشی ہی اختیار کی، تاہم علی وزیر اور محسن داوڑ نے الیکشن میں حصہ لیا اور جیتے بھی۔ اس بار علی وزیر سمیت دیگر لوگ بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ پی ٹی ایم کے رہنماؤں میں سے امیدوار کتنے ہیں اور کیا اس بار بھی پی ٹی ایم کے لوگ الیکشن جیت سکتے ہیں؟
ڈاکٹر عرفان اشرف: پی ٹی ایم پارلیمانی پارٹی تو نہیں ہے، وہ تحریک ہے اور شروع سے ہی اس کی قیادت نے طے کر رکھا ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ پی ٹی ایم سربراہ جیل میں ہیں اور ان کا الیکشن میں کوئی کردار نہیں ہے۔ علی وزیر اور محسن داوڑ نے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ بعد میں محسن داوڑ نے الگ جماعت قائم کر لی تھی۔ علی وزیر اس بار بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ شاید کچھ اور بھی لوگ ہیں۔ جو بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوگا اس کے الیکشن میں جیتنے کے امکانات موجود ہیں۔ ریاست جو کچھ بھی کر رہی ہے اس کی وجہ سے بہت غم و غصہ ہے۔ اس غم و غصے کا فائدہ ہر اس جماعت اور فرد کو ہوگا جس پر اسٹیبلشمنٹ کا لیبل نہیں لگا ہوا۔ محسن داوڑ اور علی وزیر کو بھی اس کا فائدہ جائے گا۔
محسن داوڑ نے اپنی جماعت قائم کی تھی اور انکی جماعت الیکشن میں بھی حصہ لے رہی ہے۔ ان کے امیدوار کتنے ہیں اور کیا وہ بھی نئی جماعت کے طور پر سرپرائز کرنے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں؟
ڈاکٹر عرفان اشرف: محسن داوڑ نے جماعت بنائی ہے۔ وہ خود بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کے کچھ لوگ بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ معلومات کرنے پر بھی کچھ زیادہ معلومات ان کے امیدواروں کے بارے میں حاصل نہیں ہو سکیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ان کی کوئی زیادہ مہم موجود نہیں ہے۔ محسن داوڑ کی حد تک ہو سکتا ہے کہ وہ الیکشن جیت جائیں، یا کم از کم اچھے ووٹ لے لیں۔
خواتین امیدوار مجموعی طور پر ہی کم ہیں، کے پی کے کچھ علاقوں میں خواتین کو ووٹ سے بھی روکا جاتا رہا ہے۔ کیا اس بار بھی اس طرح کی پابندیاں کسی جگہ پر لگی ہیں؟ اور خواتین امیدواروں کی مجموعی تعداد کتنی ہے؟
ڈاکٹر عرفان اشرف: خواتین امیدواروں کی مجموعی تعداد کا تو علم نہیں ہے۔ بونیر سے آزاد حیثیت سے ایک سکھ خاتون الیکشن لڑ رہی ہیں اور ان کی مہم بھی اچھی ہے۔ امید بھی ہے کہ وہ جیت جائیں گی۔ ماضی میں یہ ضرور ہوتا رہا ہے کہ دیر، فاٹا اور کچھ دیگر علاقوں میں کچھ مرد اکٹھے ہو کر فیصلہ کرتے ہیں کہ خواتین کو الیکشن میں نہیں آنے دینگے۔ ساری جماعتیں بھی اس پر ایکا کر لیتی ہیں۔ زیادہ تر خواتین کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ مخصوص نشستوں کا انحصار بھی پارٹی قیادتوں پر ہی ہوتا ہے۔ اے این پی کے ایک ایم پی اے نے مجھے بتایا تھا کہ خواتین کی پارٹی میں بہت زیادہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ سیٹ نہیں جیت سکتیں، اس لئے ٹکٹ ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس مرتبہ بھی خواتین کے حوالے سے صوبے میں ماضٰ سے کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا۔
دہشت گردی کے واقعات بھی کچھ ہوئے ہیں، کون سی جماعتیں زیادہ ہدف ہیں اور اس طرح کے واقعات کے انتخابات پر کیا اثرات پڑیں گے؟
ڈاکٹر عرفان اشرف: دہشت گردی کے واقعات تو ہو رہے ہیں۔ البتہ سب سے زیادہ دھچکا پی ٹی آئی پر حملوں کی وجہ سے لگا ہے۔ باجوڑ میں ان کے ایک امیدوار کے قتل کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، بلوچستان میں بھی جو واقعات پی ٹی آئی کے خلاف ہوئے ان کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی۔ ماضی میں پی ٹی آئی پر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اے این پی پر بھی حملے ہوئے تھے، جے یو آئی پر بھی ہوئے تھے۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ انہی دو کے خلاف ہی ہونگے۔
ٹی ٹی پی نے الیکشن پر حملے نہ کرنے کا اعلان کیا تھا، البتہ داعش نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ حملے کرینگے۔ یہ بھی حیرانگی کی بات ہے کہ ان کے روایتی اہداف میں پی ٹی آئی کبھی نہیں تھی۔ وہ اے این پی اور جے یو آئی کو ٹارگٹ کرتے تھے۔
اس سب کو زیادہ تر لوگ مانتے بھی نہیں ہیں اور ان کا خیال ہے کہ داعش کا نام استعمال کیا جارہا ہے۔ باجوڑ میں امیدوار کو گولی ماری گئی، جو ایک ٹارگٹڈ حملہ تھا۔ یہ ویسا حملہ نہیں تھا جو ٹی ٹی پی یا داعش کا وطیرہ رہا ہے۔ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ ریاست کے اور داعش کا ہدف ایک ہی، یعنی پی ٹی آئی ہے۔ اسی وجہ سے لوگ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ یہ داعش کی کارروائیاں نہیں ہیں۔
اس سب کا اثر لازمی طو رپر الیکشن پر پڑے گا۔ باجوڑ میں لگتا ہے الیکشن ملتوی ہو جائیں گے۔ اگر حملے زیادہ ہوتے ہیں تو الیکشن مہم نہیں چل سکتی، کچھ جگہوں پر الیکشن بھی ملتوی ہو سکتے ہیں۔ مرکز سے بیانات بھی بہت مایوس کن آرہے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب اور سندھ میں بھی الیکشن ہو گئے تو کافی ہے۔ ایسی صورتحال کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ریاست کو ان دو صوبوں میں سکیورٹی صورتحال بہتر کرنے سے کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں ہے۔
مجموعی ملکی صورتحال سے ہٹ کر اگر کے پی کے مخصوص مسائل کا تذکرہ کیا جائے تو کس نوع کے مسائل ہیں اور کس کس جماعت کے منشور میں انہیں ایڈریس کیا گیا ہے؟
ڈاکٹر عرفان اشرف: خیبرپختونخوا اور بلوچستان کا سب سے اہم مسئلہ تو مصنوعی دہشت گردی ہے۔ مصنوعی اس لئے کہ اسے بنایا گیا ہے۔ ریاست کی عدم دلچسپی اور پالیسیوں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ افغانستان میں ریاست عمل دخل جاری رکھے گی تو اسے بلوچستان اور کے پی میں عدم استحکام چاہیے ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فیصلے فوج لیتی ہے اور وہ امن کے وقت میں ایسے فیصلے نہیں لے سکتی۔ جب بھی سرحد کے آر پار آپریشن کرنا ہوں تو ان علاقوں میں حالات خراب کر دیئے جاتے ہیں۔ پارا چنار سے ہنگو تک کے واقعات اس کی بڑی مثال ہیں، جہاں اکثر حالات خراب کر دیئے جاتے ہیں۔ طالبان کے اقتدار کے بعد بھی ملٹری موومنٹ کیلئے عدم استحکام ہونا بہت ضروری ہے۔ بلوچستان کو ایک کور کماندر چلا رہا ہے۔ باپ پارٹی کیلئے پورا انتظام کیا جارہا ہے۔ تذویراتی اہمیت اور منرلز کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ عسکریت پسندوں کو اس سب کا جواز بنایا جاتا ہے۔
ایسی ہی صورتحال کے پی کی بھی ہے۔ وسائل زمینی ہوں یا تذویراتی، منرلز، دہشت گردی کے خلاف جنگ، امریکہ کو ڈرون کیلئے جگہ مہیا کرنا وغیرہ سب کچھ بد امنی سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ افراتفری قائم رہے۔ اس لئے یہاں سب سے بڑا ایشو سکیورٹی کا ہے۔ جب تک اس پر بات نہیں ہو گی دونوں صوبے حالت جنگ میں ہی رہیں گے۔
وسائل پر دونوں صوبوں کا اختیار نہیں ہے۔ کے پی میں بھی گیس فیلڈز، کاپر مائنز سے لیکر سنگ مر مر اور جنگلات کی کٹائی تک بغیر کسی منصوبہ بندی کے چل رہے ہیں۔ سب کچھ سمگل ہو رہا ہے اور بلیک اکانومی بن رہی ہے۔ وسائل بلیک میں بھیجے جائیں گے تو صوبوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ درخت کاٹے جا رہے ہیں، پہاڑ کاٹے جا رہے ہیں۔ سیلابوں سے نمٹنے کیلئے این جی اوز نے منصوبے لگائے تھے، لیکن ان این جی اوز کو اب این او سی لینے کا پابند کیا گیا ہے۔ این او سی نہیں دی جاتی اور انہیں پنجاب اور کراچی وغیرہ میں سرمایہ کاری پر مجبور کیا جاتاہے۔ اس وجہ سے اب ماحولیات سے متعلق بھی کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ وسائل سے بھی این ایف سی میں مکمل حصہ نہیں دیا جاتا۔ ہائیڈل پرافٹ سمیت دیگر وسائل پورے نہیں دیئے جاتے۔ فاٹا کے حوالے سے بھی این ایف سی ایوارڈ میں حصہ دینے کا اعلان کیا گیا، لیکن انضمام کے بعد ابھی تک ادارے نہیں بنے، نہ کوئی ایک نظام قائم ہو سکا ہے۔ ابھی تک ایک افراتفری کی کیفیت ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کس آرڈر کے تحت لوگ کام کر رہے ہیں۔ اس سب سے پھر سب اپنے اپنے دھندوں اور کمائیوں میں مصروف ہیں۔ ضم کئے گئے علاقوں کے اخراجات ہیں اور اس کیلئے وسائل کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی مسائل ہیں، اقتدار نچلی سطح تک نہیں جائیگا تو یو لگتا ہے کہ کے پی کی تھوڑی بہت خودمختاری بھی ختم ہو جائے گی۔ بلوچستان کی طرح لگتا ہے کہ اب کے پی میں بھی نان ڈیموکریٹک لوگ ہی حکومت کا نظام ہائبرڈ طریقے سے چلائیں گے۔
ان مسائل کے حوالے سے کسی کا کوئی منشور اور پروگرام نہیں ہے۔ نوجوان روزگار کیلئے اس خطے سے بھاگ رہے ہیں۔ روزگار موجود نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں کے پاس تنخواہوں کے پیسے نہیں ہیں۔ 30سے زائد جامعات ہیں، لیکن 29جامعات کے پاس تنخواہوں کے پیسے نہیں ہیں۔ طلبہ کی فیسیں نجی جامعات سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں۔ اس کے باوجود اخراجات پورے نہیں ہو رہے ہیں۔ ریاست کے لوگوں نے مسلط ہو کر ایسے بیوروکریٹک اسٹرکچر بنا دیئے ہیں کہ نہ طالبعلم کیلئے کوئی گنجائش ہے اور نہ ٹیچر کیلئے کوئی جگہ ہے۔