حارث قدیر
ڈاکٹر نورین نصیر کہتی ہیں کہ: ”تحریک انصاف کو 10سال کے دوران خیبرپختونخوا میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ نہیں ملا۔ بی آر ٹی کے علاوہ ان کی کوئی کارکردگی ووٹ ملنے والی نہیں تھی۔ پبلک یونیورسٹیاں پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے بھی مہنگی ہو گئی ہیں اور بحران کا شکار ہیں۔ تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں انہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ ماحولیات کا تو بیڑا ہی غرق کیا گیا۔ انہیں ہمدردی کا ووٹ ملا، پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے کی گئی مہنگائی، نوجوانوں کو متاثر کرنے والے بظاہر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اور غلامی سے آزادی کے نعرے کی وجہ سے نوجوانوں اور خواتین کا ووٹ ملا۔ پورے پاکستان میں متبادل سیاست کیلئے ایک بہت بڑا خلاء ہے۔ نوجوان اکثریت میں ہیں انہیں قائل کرنے والے قومی سطح کے متبادل کی ضرورت ہے۔“
ڈاکٹر نورین نصیر یونیورسٹی آف پشاور کے شعبہ سیاسیات میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر نورین کی تمام تر تحقیق پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں پر مبنی ہے۔ گزشتہ روز ’جدوجہد‘نے ان کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو ایک بہت بڑا ووٹ ملا ہے، اس کی کیا وجوہات ہیں؟ کیا گزشتہ ادوار حکومت میں اس کی کارکردگی اتنی اچھی تھی،یا اس کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں؟
ڈاکٹرنورین نصیر: میرے خیال میں کارکردگی کے علاوہ اس کی بہت سی وجوہات تھیں کہ تحریک انصاف کو زیادہ ووٹ ملا ہے۔ کیونکہ کارکردگی تو ان کی تھی ہی نہیں۔ ایک تو یہ وجہ تھی کہ پی ٹی آئی کا ووٹر بڑی تعداد میں باہر نکلا اور اپنے امیدواروں کو ووٹ ڈالا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ پارٹی قیادت اور ممبران پر جو پے درپے مقدمات بنائے گئے اور جس طرح ان کو سزائیں سنائی گئیں، اس پر ایک ہمدردی کا عنصر بھی موجود تھا۔ اس طرح ایک ہمدردی کا ووٹ بھی ملا ہے۔
10سال کے دوران تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں اقتدار میں تھی۔ اس دوران ایک بی آر ٹی بنانے کے علاوہ کوئی خاطر خواہ کارکردگی کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی۔ ماحولیات کا بیڑا غرق کیا گیا، ٹیکس دہندگان کے پیسے پر صحت کارڈ دیا گیا اور اس کے ذریعے سے ایک مخصوص یعنی پرائیویٹ ہیلتھ کیئر کو تو فائدہ ملا لیکن پبلک ہسپتالوں کی حالت مزید خراب ہو گئی۔ پبلک یونیورسٹیاں اب نجی یونیورسٹیوں سے بھی مہنگی ہو چکی ہیں۔ ٹیوشن فیسیں بڑھیں، ہاسٹل چارجز بڑھائے گے اور جامعات کے اندر سبسڈائزڈ کھانے کی قیمتیں تک بڑھائی گئیں۔ اس وجہ سے خیبرپختونخوا کی جامعات انتہائی مہنگی ہونے کے باوجود بحران کا شکار ہیں۔ تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر ہی اہم چیزیں ہوگی ہیں، جن سے حکومتی کارکردگی دیکھی جاتی ہے۔ ان تینوں شعبوں میں 10سال کے دوران تحریک انصاف نے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا کہ جس بنیاد پر یہ سمجھا جائے کہ انہیں کارکردگی پر ووٹ ملا ہو۔
عدم اعتماد کے ذریعے پی ڈی ایم حکومت بننے کے بعد جس طرح مہنگائی میں بدترین اضافہ ہوا، اس کی وجوہات جو بھی ہوں، لیکن ووٹر میں ایک عمومی تاثر تھا کہ پی ڈی ایم نے یہ سب کچھ کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور بڑی وجہ تھی جس نے بڑی تعداد میں ووٹر تحریک انصاف کے حق میں باہر نکلا۔ ایک بیانیہ بنا کہ پی ٹی آئی نے اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا ہے۔ گو کہ میں اس سے اتفاق نہیں کرتی، ایسا نظر بھی کچھ خاص نہیں آرہا۔ سوائے کچھ جگہوں پر کچھ جارحانہ مظاہرے کئے گئے۔ تاہم جو بیانیہ بنایا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے والی یہ واحد پارٹی تھی، اس کو بھی کسی حد تک مقبولیت ملی۔ حالانکہ ایسی بات تھی نہیں، پیپلزپارٹی سے مسلم لیگ ن تک تقریباً ساری ہی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنا چکی ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی نے بڑی خوبصورتی سے غلامی سے آزادی لینے کے نعرے کو استعمال کیا اور اس نعرے نے نوجوانوں کو بہت زیادہ متوجہ کیا۔
یوں میرے خیال میں یہ اہم وجوہات تھیں جن کی وجہ سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار جیت گئے۔ میرا تو خیال ہے کہ اس الیکشن میں وہ کسی علامتی کردار کو بھی الیکشن میں کھڑا کر دیتے تو وہ بھی شاید اس ماحول میں جیت جاتے۔ جو ماحول بنا تھا اس کی وجہ سے صرف خیبر پختونخوا میں نہیں بلکہ ہر جگہ انہوں نے اپنے لئے گنجائش پیدا کی اور سیاسی جگہ حاصل کی۔ باقی جگہوں پر ہمیں پتہ ہے کس طرح ہیر پھیر کی گئی۔ خیبرپختونخوا ہمیشہ ہی کولیٹرل ڈیمیج کا وکٹم بنتا رہا ہے، سو اس بار بھی بنا ہے۔
اے این پی، قومی وطن پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور این ڈی ایم کے ساتھ ساتھ محسن داوڑ اور علی وزیر کی شکست کے حوالے سے صوبہ میں کیا تاثرات ہیں؟ کیا انہیں ہرایا گیایا واقعی ہارے ہیں؟
ڈاکٹرنورین نصیر: اے این پی سمیت دیگر جماعتوں کے خیبرپختونخوا میں کارکردگی نہ دکھا پانے کی ایک وجہ تو ظاہر ہے یہی ہے کہ ان کا ووٹر نہیں نکلا۔ ایک تاثر پہلے سے ہی ایسا تھا کہ الیکشن انجینئرڈ ہونگے اور جو پارٹی آج کل لاڈلی ہے، اس کیلئے ہی سب کچھ کیا جائے گا۔ محض اے این پی اور دیگر قوم پرست پارٹیوں کیلئے ہی کوئی ووٹر نہیں نکلا بلکہ جماعت اسلامی کا ووٹر بھی نہیں نکلا اور جماعت اسلامی کو بھی ایسے ہی نتائج دیکھنے پڑے۔
علی وزیر اور محسن داوڑ کی شکست کی بڑی وجہ میرے خیال میں یہی ہے کہ ان کیلئے ماحول سازگار نہیں تھا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ٹیک اوور کے بعد پاکستانی طالبان اور مسلح گروپ یہاں متحرک ہوئے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے وہ نہ تو الیکشن پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ جمہوریت کو مانتے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت جتنے بھی حالیہ ضم شدہ اضلاع ہیں، وہاں یہ لوگ باقاعدہ سرگرم ہیں۔
ایسے ماحول میں علی وزیر اور محسن داوڑ کا الیکشن لڑنا اہم تھا، لیکن جیتنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ شمالی وزیرستان کے حلقے میں صرف محسن داوڑ کیلئے ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کیلئے بھی بڑی مشکل ہو گئی تھی۔ مسلح گروپوں کا واپس آجانا، سکیورٹی وجوہات اور ماحول کچھ ایسا بنا کہ جس کی وجہ سے ان کیلئے جیتنا مشکل ہو گیا۔
شمالی وزیرستان میں احتجاج کے وقت جو حادثہ ہوا وہ بہت افسوسناک ہے، جس طرح وہاں پر ہلاکتیں ہوئیں اور لوگ زخمی ہوئے یہ بات قابل مذمت ہے۔ میرے خیال میں الیکشن صرف ووٹ کے ذریعے رائے کا اظہار ہونا چاہیے، بندوق نہیں استعمال ہونی چاہیے۔ یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ شمالی وزیرستان میں ایسا ہوا۔
تحریک انصاف کو توڑنے کیلئے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین بنائی گئی تھی۔ پرویز خٹک پر بھاری سرمایہ کاری کے دعوے بھی سامنے آئے تھے۔ ان کی الیکشن مہم کس طرح کی تھی اور ان کی الیکشن کارکردگی کس طرح کی رہی؟
ڈاکٹر نورین نصیر: تحریک انصاف کو توڑنے کیلئے یا ان کو نیوٹرلائز کرنے کیلئے جو دھڑے پیدا کئے گئے ہیں، پاکستانی سیاست میں یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی سے ناراض لوگوں پر ایک نئی پارٹی بنائی گئی تھی۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ ان کی مہم غلط تھی یا زیادہ موثر نہیں تھی۔ میرے خیال میں صورتحال اس بار ویسی نہیں تھی جیسے مسلم لیگ ن کو توڑ کر مسلم لیگ ق بنائی گئی تھی اور وہ کامیاب بھی ہوئی تھی۔ اگر اس وقت بھی صورتحال ویسی ہوتی تو پی ٹی آئی سے نکلنے والے دھڑے بھی کامیاب ہو جاتے۔
اس وقت چونکہ جن لوگوں نے بھی یہ پارٹی چھوڑی ان کیلئے لوگوں کے دلوں میں نفرت سی بن گئی۔ لوگ پوچھنا شروع ہو گئے کہ جب آپ پانچ سال وزیر اعلیٰ بنے رہے اس وقت سب ٹھیک تھا۔ جب آپ وزیر اعلیٰ نہیں رہے اور اپنی پارٹی بنانے جا رہے ہیں تو اب پی ٹی آئی بری ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا جو اپنا ووٹر سمجھا جاتا تھا وہ بھی انہیں ووٹ دینے نہیں آیا۔ یہ بھی درست ہے کہ انہوں نے اپنے حلقوں میں بہت کام کیا لیکن ان کے بارے میں تاثر عام ہو گیا کہ یہ منافقین ہیں، جو پارٹی میں ہوتے ہوئے مزے اڑاتے رہے اور جب پارٹی مشکل میں آئی تو یہ چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ پاکستان میں ایک عمومی نفسیات بھی ہے۔ تاہمن لیگ کے ساتھ جو کچھ ماضی میں ہوا، وہ الگ صورتحال تھی، کیونکہ وہ آمریت تھی اور اس کے زیر سایہ بننے والی کنگز پارٹی کیسے حکومت میں آئی وہ سب کو پتہ ہے۔ باقی میں زیادہ تاریخ میں نہیں جاؤنگی، لیکن اس وقت صورتحال الگ تھی اور اس وجہ سے ہمدردی کا ووٹ پی ٹی آئی کو ملا اور اپنی پارٹی کو متاثر کرنے والوں کے خلاف ایک نفرت تھی اور ان کے بارے میں لوگوں کے خیالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے، وہی نتائج میں بھی نظر آرہا ہے۔
انتخابات میں خواتین کی شرکت کیسی تھی؟ کتنے فیصد خواتین نے ووٹ ڈالے اور کیا الیکشن مہم میں بھی خواتین سرگرم تھیں؟
ڈاکٹر نورین نصیر:صرف خیبر پختونخوا ہی نہیں میرے خیال میں پورے پاکستان میں ہی اس بار خواتین باہر نکلیں اور انہوں نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ کے پی کے اعداد و شمار تو میرے پاس نہیں ہیں لیکن بڑی تعداد میں یہاں بھی خواتین نے ووٹ ڈالا۔ اس میں ایک بڑی وجہ پھر پی ٹی آئی کو ملنے والا ہمدردی کا ووٹ تھا۔ پی ٹی آئی کی خواتین ورکرز نے خواتین کو متحرک کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
شاندانہ گلزار کے الیکشن جیتنے پر یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ صوبے کی پہلی خاتون ہیں، حالانکہ نسیم ولی پہلی الیکشن جیت چکی ہیں۔ شاندانہ گلزار کے علاوہ کوئی اور خاتون بھی الیکشن جیتی ہیں؟
ڈاکٹر نورین نصیر: پہلے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا وغیرہ نہیں تھا، اس وجہ سے نوجوان نسل کو یہ نہیں پتہ کہ بیگم نسیم ولی خیبرپختونخوا کی پہلی خاتون تھیں، جنہوں نے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ انہیں کوئی ہمدردی کا ووٹ بھی نہیں ملا تھا، انہیں صرف اور صرف نظریات پر ووٹ دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بیگم نصرت بھٹو بھی ان ابتدائی خواتین میں شامل ہیں جو جنرل الیکشن میں آئیں اور جیتیں بھی۔بینظیر بھٹو سمیت دیگر بہت سی خواتین ہیں جو پاکستان میں انتخابات میں حصہ لیتی اور جیتتی رہی ہیں۔ اس میں پشتون، پنجابی اور سندھی خواتین کا تناسب نکالنا میرے خیال میں ایک بے کار بحث ہے۔ میرے خیال میں بحث یہ ہونی چاہیے کہ وہ سرخیل یا بنیاد ڈالنے والی خواتین تھیں جنہوں نے باقی خواتین کیلئے یہ راہ متعین کی۔
آج شاندانہ گلزار اسمبلی میں نہ ہوتیں اگر عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی جیسی خواتین حقوق کیلئے باہر نہ نکلتیں اور صر ف خواتین کیلئے ہی نہیں بلکہ پسماندہ کمیونیٹیزکیلئے بھی آواز نہ اٹھاتیں تو شاید آج بہت سی چیزیں نہ ہوتیں۔
مثال کے طور پر مخصوص نشستیں اور پانچ فیصد خواتین کو ٹکٹ دینے کی پابندی بھی نہ ہوتی۔ اگر الیکشن ایکٹ2017دیکھیں تو اس میں کچھ سزائیں بھی متعین کی گئی ہیں، پانچ فیصد ٹکٹ نہ دینے کی صورت انتخابی نشان سے محرومی، یا حلقہ میں 10فیصد خواتین کا ووٹ کاسٹ نہ ہونے کی صورت الیکشن ہی کالعدم ہونے سمیت ایسی بہت سی سزائی بھی موجود ہیں۔ میرے خیال میں کچھ عالمی دباؤ تھا، خواتین کی تحریک بھی تھی، ویمن کمیشن اور یہ سب کچھ مل کر آج پاکستان میں خواتین کسی حد تک امپاور ہو رہی ہیں۔
خیر کوئی بات کہ وہ شاندانہ گلزار کو پہلی خاتون سمجھتے ہیں۔ یہ ہماری لاعلمی ہے، لیکن ہم نے بھی کچھ ایسا نہیں کیا کہ یہ لاعلمی دور کی جا سکے۔ ہمارا نصاب ان خواتین کی بات ہی نہیں کرتا، جنہوں نے پاکستانی سیاست اور نظام میں کچھ فرق ڈالا۔
بہر حال یہ معلومات بھی ہونی چاہیے کہ پہلی بار چترال سے بھی ایک خاتون الیکشن جیتی ہیں اور انہیں زیادہ تر ووٹ بھی خواتین کے ہی ملے ہیں۔ بیشک وہ پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار تھیں لیکن یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ انہیں اپنے حلقے میں خواتین کامیاب کرواتی ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خاتون وہاں پر خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہیں، انکا کہنا ہے کہ انہوں نے خواتین کو امپاور کرنے کیلئے الیکشن میں حصہ لیا ہے، یہ بہت خوش آئند بات ہے۔
شاندانہ گلزار کی جیت اور پیپلزپارٹی کی جانب سے ایک خاتون کو ٹکٹ دیا جانا صوبے میں خواتین کے حوالے سے کسی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے یا بااثر خاندانوں کی خواتین کی حد تک ہی بات محدود ہے۔ خواتین کے حوالے سے آپ اس صورتحال کو کیسے دیکھتی ہیں؟
ڈاکٹر نورین نصیر: پیپلزپارٹی میرے خیال میں صرف کے پی میں نہیں بلکہ سندھ میں بھی خواتین کو جنرل الیکشن کیلئے ٹکٹ دیتی آئی ہے۔ میرے خیال میں وہ بینظیر بھٹو کی میراث کو ابھی تک اپنائے ہوئے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ پانچ فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کی پابندی بھی ہے، جس کی وجہ سے آپ کی سیاسی بقاء مشکل ہو جاتی ہے۔ اس لئے بہت سی پارٹیاں جیسے جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی جیسی جیسی روایتی،ر مذہبی پارٹی اور قدامت پرست جماعتیں بھی خواتین کو ٹکٹ ایشو کر رہی ہیں، جو خواتین کو بالکل بھی جگہ نہ دینے کیلئے شہرت رکھتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ پھر 2017کے ایکٹ کی لٹکتی تلوار ہے۔
خیبرپختونخوا میں خاتون کو اور پھر اقلیت سے جنرل نشست پر ٹکٹ دینا میرے خیال میں بہت اچھی مثال ہے۔ نہ صرف وہ خاتون تھیں بلکہ اقلیت سے بھی اور بونیر جیسے بہت ہی قدامت پسند علاقہ سے تھیں۔ ایک پشتون علاقہ میں خاتون کو جگہ دینا ہی بہت بڑی بات ہے۔ یہ قابل تعریف عمل ہے۔ جیتنا ہارنا الیکشن کا حصہ ہے، لیکن خواتین کیلئے جگہ پیدا کرنا اچھی بات ہے جو مستقبل میں سیاست میں آنے والی خواتین کیلئے بہت سارے راستے اور ترغیب بن جاتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے نوجوانوں کی سمت کیا ہے۔ ایک رائٹ ونگ سے دوسری اور پھر اس سے بھی رائٹ ونگ کی طرف رجحان کی کیا وجوہات ہیں؟تحریک انصاف میں کیا خاص بات ہے جس نے نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنایا ہوا ہے۔ کے پی نے دہشت گردی بھی دیکھی ہے، افغانستان کی صورتحال بھی پنجاب سے زیادہ کے پی کے نوجوانوں کو معلوم ہے اور اس کے علاوہ عمران خان کو طالبان خان بھی کہا جاتا ہے، پھر تحریک انصاف کو اس قدر ووٹ کیسے اور کیوں مل رہا ہے؟
ڈاکٹر نورین نصیر: میرے خیال میں صرف خیبرپختونخوا میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں نوجوان ایک کنفیوژن کا شکار ہیں۔ اکثریتی نوجوان تحریک انصاف کو ایک ایسی پارٹی سمجھتے ہیں جو ان کو غلامی سے نجات دلائے گی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پارٹی ان کیلئے مواقع پیدا کرے گی۔ پی ٹی آئی کا میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال میرے خیال میں بہترین ہے۔ وہ اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہیں جہاں 99فیصد نوجوان موجود ہیں۔ سوشل میڈیا کے ہر فورم پر پی ٹی آئی نے اپنے لئے ایک مضبوط جگہ بنائی ہوئی ہے۔ اگر آپ ایکس (جو پہلے ٹویٹر تھا)دیکھ لیں تو اس پر ٹرینڈ چلانے میں وہ ماہر ہیں، ٹک ٹاک اور انسٹا گرام وغیرہ میں تصویریں اور ویڈیوز شیئر ہوتی ہیں اور پارٹی رہنماؤں کی مہم چلائی گئی ہے۔
ظاہر ہے نوجوان فوری متاثر ہوتے ہیں اور ان کی سوچ بھی ایسی ہوتی ہے کہ جو چیز بھی چاہیے وہ فوری مل جائے۔ یہ فوری مل جانے والا تاثر تحریک انصاف نے پیدا کیا ہوا ہے۔ جیسے نوجوانوں کیلئے اتنے دنوں میں یہ کر لیں گے، جس طرح ماضی میں 90دنوں والا پروگرام تھا، ابھی بھی اسی طرح کا بیانیہ ہے۔ اس بار انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم تو غلامی کی زنجیروں سے آپ کو آزاد کروائیں گے۔ جس طرح انہوں نے اس بیانیے کو استعمال کیا ہے ظاہر ہے نوجوان اس پر جذباتی ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جس طرح اسٹیبلشمنٹ مخالف پروپیگنڈہ بھی بہت موثر اور قائل کرنے والا بنایا۔ اس سے میرا خیال ہے کہ پورے پاکستان کے نوجوانوں کا متاثر ہونا آسان تھا۔ رائٹ ونگ پاپولزم ہمیشہ اسی طرح کے بیانیے اور اسی طرح کے پروپیگنڈہ کے ذریعے سے بڑی آسانی سے اثر انداز ہوتا ہے۔
ہم چونکہ سیاسیات کے طالبعلم ہیں، تو ہم نے ایڈولف ہٹلر کے پروپیگنڈہ کو دیکھا ہے کہ وہ دوسری عالمی جنگ میں اتنا موثر تھا کہ اس کے سپاہی آخری وقت تک لڑتے رہے۔ یہ تو شکر ہے اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا ورنہ ہٹلر کیا کچھ کر سکتا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نوجوان لوگوں کو متاثر کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
18سال کے بچے کو ووٹ دینے کا حق ہے تو وہ متاثر بھی جلدی ہوتا ہے۔ اگر آپ کچھ ایسی چیزیں اجاگر کریں جو اس کے مزاج کو متاثر کرنے کے قابل ہوں تو وہ بڑی آسانی سے کسی بھی پارٹی کو ووٹ دینے کیلئے قائل ہو سکتا ہے۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ماحول ایسا بنا ہوا تھا کہ ایک ہمدردی کا کارڈ بھی استعمال ہوا، غلامی سے آزادی کا کارڈ بھی استعمال ہوا اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کا بیانیہ بھی استعمال ہوا۔ اس سب کا رزلٹ بھی پورے پاکستان میں نظر آرہا ہے، یہ صرف خیبر پختونخوا میں نہیں ہے۔
متبادل کی تعمیر کیلئے آپ کے خیال میں کیا اقدامات ضروری ہیں؟ کیا اے این پی وغیرہ کی بجائے نئی تنظیموں اور اتحادوں کی بنیاد رکھنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ صوبائی سیاست کے ساتھ ساتھ قومی سیاست میں ایک نئے متبادل کی بنیاد رکھی جائے، یا اس کیلئے کوئی اور اقدامات وقت کی ضرورت ہیں؟
ڈاکٹر نورین نصیر: میرے خیال میں پورے پاکستان میں ہی نئی تنظیموں اور نئی سیاست کیلئے بہت بڑی جگہ ہے۔ جو پرانی سیاست ہے وہ اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ سمیت کے پی اور بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں تک سب کیلئے حالات اب اس طرح کے نہیں رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ بیانیہ بھی اب موثر نہیں رہا، جیسے اے این پی کا نعرہ تھا کہ اپنی زمین پر اپنا اختیار ہوگا۔ اب اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ چیزیں ختم ہو گئی ہیں، یہ الگ بحث ہے کہ وہ ترمیم کتنی فعال ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو یہ سب کچھ متاثر نہیں کرتا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایسا ہونا نہیں چاہیے، لیکن نوجوان فوری حل کے بارے میں سوچتے ہیں۔ جیسے بھی مسائل سے وہ گزر رہے ہیں چاہے وہ نفسیاتی ہیں یا ارد گرد کے ماحول سے متعلق ہیں، چاہے عسکریت یا دیگر تنازعات کے مسائل ہیں وہ ان کا حل فوری چاہتے ہیں۔
اس لئے میرا خیال ہے کہ نئی پارٹیوں اور متبادل کیلئے بہت خلا موجود ہے۔ تاہم ایسے متبادل ہونے چاہئیں جو نوجوانوں کو اپیل کریں، کیونکہ ہماری اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ جیسا میں نے پہلے کہا کہ جب 18سال کے نوجوان کو ووٹ کا حق بھی یہاں ایک مسئلہ ہے۔ ہم لوگ بہت سی چیزیں مغربی جمہوریت کی پیروی میں کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہاں ان کے مضمرات بہت مختلف نکلتے ہیں۔ مغرب میں اگر 18سال کے بچے کو ووٹ کا حق ہے تو وہ گھر سے کمانے کیلئے نکل چکا ہوتا ہے، یونیورسٹی کی فیس کا انتظام وہ خود کرتا ہے۔ تاہم یہاں نہ وہ ٹیکس دیتا ہے، نہ فیس اسے دینی ہوتی ہے اور نہ معیشت میں وہ کوئی حصہ ڈالتا ہے۔ پھر ظاہر ہے وہ ایسے سوالات پر غور بھی اس نوعیت کا نہیں کرے گا۔ یہاں نوجوان اپنے والدین پر انحصار کرتے ہیں اور زیادہ جذباتی ہیں، کیونکہ انکی کوئی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔ ایسے میں وہ کس طرح کی پارٹی کو ووٹ ڈالیں گے، اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ انہیں رائٹ ور لیفٹ کی بحث سمجھ ہی نہیں آتی، یا بہت کم سمجھ میں آتی ہے، یا پھر بہت بعد میں سمجھ میں آتی ہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ قومی سیاست میں نئی سیاست کیلئے ایک بہت بڑا خلا ہے۔ پیپلزپارٹی بھی سندھ تک محدود ہو چکی ہے، مسلم لیگ ن بھی اب پنجاب کی پارٹی رہ گئی ہے۔ ایسی پارٹی اور متبادل چاہیے جو قومی سطح پر مقبول ہو اور قومی مسائل کے حوالے سے پروگرام دے سکے اور انہیں حل کرنے کیلئے اقدامات کر سکے۔