نقطہ نظر

غزہ: 1 فیصد آبادی ہلاک: فرانس میں یہ 680,000 اموات کے مساوی ہو گا

انٹوئن لارراچے

(یہ طویل انٹرویو کا پہلا حصہ ہے)

اس انٹریو میں جلبیر اشقر غزہ میں جاری جنگ، اس کی ہولناکیوں اور فلسطین میں یکجہتی کیلئے متحرک اور نمایاں مزاحمت کی صورتحال اور اسرائیل اور اس کے ساتھی سامراجیوں کے خلاف مزاحمت کی راہیں بتاتے ہیں۔

جلبیر اشقر کا تعلق لبنان سے ہے۔ وہ لندن میں سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز (SOAS) میں ڈویلپمنٹ اسٹڈیز اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفسیر ہیں۔ فورتھ انٹرنیشنل کے پریس کے ریگولر معاون ہیں۔ ان کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی حالیہ تصنیف ’دی نیو کولڈ وار‘ گزشتہ سال شائع ہوئی۔

ان کا خصوصی انٹرویو انٹرنیشنل ویو پوائنٹ پر شائع ہوا، جس کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

اس وقت ہم اسرائیلی مداخلت کے کس مرحلے میں ہیں؟

جلبیر اشقر: قابض افواج کی فوجی رپورٹس کی روشنی میں چیزیں نسبتاً واضح ہیں۔ شمال کے لیے انتہائی شدید بمباری کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور جنوبی حصے میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ شمالی نصف اور مرکز میں، قابض افواج اگلے مرحلے کی طرف بڑھ گئی ہیں، جو کہ ایک نام نہاد کم شدت والی جنگ ہے۔ درحقیقت وہ سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے اور حماس اور دیگر تنظیموں کے جنگجوؤں کو تلاش کرنے کے لیے ان علاقوں پر مبنی ایک مکمل گرڈ(grid) ترتیب دے رہے ہیں۔ فلسطینی جنگجو ہر وقت گھات میں رہتے ہیں اور جب تک سرنگیں موجود ہیں یہ کسی بھی وقت ابھر سکتے ہیں۔

اسرائیلی فوج پر لڑائی کے اس نام نہاد کم شدت والے مرحلے میں جانے کیلئے تیزی سے بین الاقوامی، بالخصوص امریکی، دباؤ بڑھ رہا ہے۔۔۔ لیکن یہ نام گمراہ کن ہے،کیونکہ حقیقت میں کم شدت والی حکمت عملی کا مطلب ہے بمباری تک محدودرہنا۔ طیاروں اور ڈرونز کے ذریعے میزائلوں اور بمباری کی تعداد کم ہو جائے گی کیونکہ غزہ میں تباہی کے لیے بہت کچھ باقی نہیں بچا ہے۔ وہ یہاں اور وہاں ابھرنے والے جنگجوؤں کے گروپوں کے خلاف یک طرفہ مداخلت کی طرف بڑھیں گے۔

7 اکتوبر کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک بالکل تباہ کن بمباری کی مہم تھی،جس نے نسل کشی کی،ایک وسیع شہری علاقے کی بلاتخصیص تباہی کی،اور یہ بمباری لامحالہ شہریوں کی ناقابل یقین تعداد کی ہلاکت کی صورت میں نکلی۔ غزہ کی ایک فیصد سے زیادہ آبادی ماری گئی۔ فرانس کے لیے یہ 680,000 اموات کے خوفناک اعداد و شمار کے مساوی ہوگا!

اس میں 90 فیصد آبادی کو ان کی رہائش گاہوں سے بے دخل کرنا بھی شامل ہے۔ اسرائیل کے دائیں بازو کا ایک بڑا حصہ انہیں غزہ کی سرزمین سے مصر یا کسی اور جگہ بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل علاقے پر مکمل فوجی کنٹرول کو یقینی بنانا چاہتا ہے، لیکن یہ ایک وہم ہے۔وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ سب کو باہر نہ نکال دیں۔ جب تک غزہ میں آبادی ہے، قبضے کے خلاف مزاحمت رہے گی۔

غزہ پر بمباری کی شدت میں کمی سے اسرائیل کو لبنان اور حزب اللہ کے خلاف آواز بلند کرنے کا موقع ملتا ہے۔ صہیونی رہنما اس بات پر یقین کر رہے ہیں کہ لبنان کے کچھ حصے کو فرقہ وارانہ اور سیاسی وجوہات کی بنا پر حزب اللہ سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ حزب اللہ کے شمال کی طرف پسپائی اختیار کرنے کے لیے سخت دباؤ ہے۔ اسرائیل چاپتا ہے حزب اللہ سرحد سے اتنا دور چلا جائے جسے اسرائیل قابل قبول سمجھے گا۔ بصورت دیگر اسرائیل غزہ کی قسمت کو لبنان کے ایک حصے پر مسلط کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔ حزب اللہ دارالحکومت کے جنوبی مضافاتی علاقوں، ملک کے جنوب میں اور مشرق میں بھی مضبوط پوزیشن میں ہے۔

فلسطین میں فوجی مزاحمت کی حالت کیا ہے؟

جلبیر اشقر:غزہ میں جب تک سرنگیں موجود ہیں تباہ شدہ علاقوں میں مزاحمت جاری رہ سکتی ہے۔ جنگجوؤں کے لیے ایک طرح کا زیرِ زمین شہر بنایا گیا تھا۔ یہ میٹرو نیٹ ورک کی طرح ہے، لیکن غزہ کی آبادی وہاں پناہ نہیں لے سکتی، یہ اس کے برعکس ہے جو ہم نے دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ میں دیکھا،یا جیسا کہ آج ہم یوکرین کے شہر کیف میں دیکھتے ہیں۔ حماس کی طرف سے کھودی گئی سرنگیں جنگجوؤں کے خصوصی استعمال کے لیے ہیں۔

غزہ سے اسرائیلی قصبوں میں راکٹ داغے جانے کا سلسلہ جاری ہے، حماس اور دیگر گروپ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اب بھی سرگرم ہیں۔ غزہ میں حماس اور ہر قسم کی مزاحمت کا خاتمہ ایک ناممکن مقصد ہے۔

یہی وہ بات ہے جس وجہ سے اسرائیلی انتہائی دائیں بازوکو یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں غزہ کو آبادی سے خالی کرانا چاہیے، اس کا الحاق کرنا چاہیے، اردن سے سمندر تک گریٹر اسرائیل بنانا چاہیے اور فلسطینیوں کے اس سارے علاقے کو خالی کرنا چاہیے۔ لیکود سمیت اسرائیلی انتہائی دایاں بازو یہ خواہش رکھتا ہے۔ نیتن یاہو وزیر اعظم کے طور پر اپنے عہدے کی وجہ سے زیادہ مبہم سرکاری پوزیشن دکھاتے ہیں، لیکن وہ اس انتہا پسندانہ نقطہ نظر کی بھی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔
مغربی کنارے اور غزہ میں فرق یہ ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی آبادی والے علاقوں کی انچارج فلسطینی اتھارٹی کی صورتحال بالکل ویسی ہی ہے، جیسی جرمن قبضے کے سلسلے میں وشے رجیم کی تھی۔ محمود عباس فلسطینیوں کے فلپ پٹین (Fellipe Petain)ہیں۔

مغربی کنارے میں مسلح جدوجہد کی وکالت کرنے والی تنظیمیں ہیں، جیسے کہ حماس اور دیگر، لیکن گزشتہ سال جس چیز نے سب سے زیادہ توجہ مبذول کروائی ہے وہ نوجوانوں کے نئے گروہوں کا ابھرنا ہے،جو نہ تو الفتح کے ساتھ ہیں، نہ حماس کے ساتھ، اور نہ ہی روایتی تنظیموں میں سے کسی کے ساتھ ہیں۔ جینین اور نابلس جیسے کچھ پناہ گزین کیمپوں یا قصبوں میں انہوں نے مسلح گروہ بنائے ہیں اور قابض فوجیوں کے خلاف کبھی کبھار کارروائیاں کی ہیں، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انتقامی کارروائیاں کی گئی ہیں۔

7 اکتوبر سے قابض فوجی مغربی کنارے میں ایک صفائی مہم میں مصروف ہیں، جو 2001 کے بعد پہلی بار ہوا بازی کے اضافی استعمال کے ساتھ’الجزائر کی جنگ‘کا ری میک ہے۔ اس کے ساتھ صیہونی آباد کاروں کی مہم ہے جو ہراساں اور قتل کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم بات کرتے ہیں مغربی کنارے میں تقریباً 300 اموات ہوچکی ہیں۔ اس کا موازنہ غزہ میں ہونے والے بھیانک قتل عام سے بالکل نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسرائیلی انتہائی دایاں بازو اسے موقع ملتے ہی مغربی کنارے میں دہرانا چاہتا ہے۔ حماس کی امید کے برعکس اسلامی تحریک کی کال کے جواب میں مغربی کنارے اور ریاست اسرائیل کے اندر فلسطینی آبادی کی بغاوت نہیں ہوئی۔ وجہ یہ ہے کہ مغربی کنارے کی آبادی فوجی طاقت کے غیر متناسب توازن سے بہت باخبر ہے۔ غزہ میں حماس کے فوجیوں کے برعکس، جہاں 2005 کے بعد سے کوئی براہ راست قابض فوج موجود نہیں ہے، مغربی کنارے کی آبادی روزانہ کی بنیاد پر قابض افواج کے ساتھ رابطے میں آتی ہے اور ان کا براہ راست مقابلہ انتہائی دائیں بازو اور آباد کاروں سے ہوتا ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ وہ صرف ایک موقع کا انتظار کر رہے ہیں، یعنی لوگوں کو دہشت زدہ کرنے اور انہیں علاقے سے بھاگنے پر مجبور کرنے کے لیے،جو 1948 میں کیا گیا تھا۔ یہ وضاحت کرتا ہے کہ کیوں مغربی کنارے نے غزہ کے ساتھ اپنی یکجہتی کا صرف اعتدال سے مظاہرہ کیا ہے۔

اسرائیل میں عوامی تحرک کی کیا حالت ہے؟

جلبیر اشقر:7 اکتوبر کا حملہ ایک بہت ہی شدید جھٹکا تھا، جیسا کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہوا تھا۔ پھر میڈیا میں اس کا بار بار استعمال ہوا۔ اس واقعہ کا بھر پوراستحصال جاری ہے، گواہیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے تاکہ آبادی کے انتقامی تحرک کو برقرار رکھا جا سکے۔ یہ امریکہ میں اس قسم کی مہم تھی جس نے بش کی ٹیم کو افغانستان اور عراق کی جنگوں میں حصہ لینے کا جواز فراہم کیا۔ فی الحال اسرائیل میں بھی یہ طریقہ کام کر رہا ہے، اور اسرائیلی یہودی آبادی کی اکثریت جنگ کی حمایت کرتی ہے۔

جنگ مخالف ایک چھوٹی اقلیت نسل کشی کی مذمت کرتی ہے۔ ہمیں اس کی ہمت کو سلام کرنا چاہیے، کیونکہ اسے اپنے سماجی ماحول کی طرف سے مکمل طور پر مسترد کیا گیا ہے۔ جو چیز حیران کن ہے،وہ یہ کہ 2021 کی طرح اسرائیل کے فلسطینی شہرمتحرک نہیں ہوئے ہیں،2021میں مغربی کنارے میں انتفادہ کے آغاز کے ساتھ یکجہتی کے لیے ایک مضبوط ہجوم باہر نکلا تھا۔ اس کے نتیجے میں ملک میں انتہائی دائیں بازو کے صہیونیوں کی جانب سے پرتشدد ردعمل سامنے آیا۔ 7 اکتوبر کے بعد جس نفرت نے یہودی اسرائیلی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اس کے پیش نظر اگر فلسطینی شہریوں نے اس طرح کی نقل و حرکت کو دوبارہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہوتی تو اس کے نتائج بھیانک ہوتے۔

یہ آبادی ایک انتہائی خوفناک ماحول کا شکار ہے، جس میں دھونس، جبر اور سنسرشپ ہے۔۔۔اس فلسطینی آبادی پر مسلط ہے، جس سے ان کی حیثیت دوسرے درجے کے شہریوں کے طور پر بھی مزید خراب ہوتی ہے۔ اب وہ اسرائیلی معاشرے کے زیادہ تر لوگوں کی نظروں میں مشکوک ہیں۔

آپ کے خیال میں عرب ممالک میں مزید کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟

جلبیر اشقر:میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے 1967 اور اس کے بعد کی شکست کا تجربہ دیکھا، پھر 1970 کی دہائی میں بہت مضبوط تحرک کا تجربہ بھی دیکھا۔ اس بار عرب ممالک میں کچھ بڑے مظاہرے ہوئے، لیکن انڈونیشیا،یا پاکستان سے زیادہ نہیں۔ اردن اور مراکش میں بڑے مظاہرے ہوئے لیکن ان ممالک نے اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات بھی ختم نہیں کئے۔

تحرک کی نسبتاً کمزوری کو جمع شدہ شکستوں کا نتیجہ ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر تقسیم اور وِشے(Vichy) طرز کی فلسطینی اتھارٹی کی کارروائی کی وجہ سے فلسطینی کاز کو کمزور کیا گیا، جس نے عرب ریاستوں کی ایک مخصوص تعداد کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی۔

2011(عرب بہار)اور2019کی دو انقلابی لہروں کی شکستیں بھی ہیں جن کا اس خطے نے اب تک تجربہ کیا ہے۔ آج جب ہم اس خطے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ نتیجہ افسوسناک ہے: ان دونوں لہروں میں حاصل ہونے والی فتوحات میں تقریباً کچھ بھی نہیں بچا ہے۔

تیونس اور سوڈان آخری دو ممالک جہاں عوامی تحریک سے تبدیلیاں آئیں۔ تیونس بن علی کی آمریت کی جگہ اب قیس سعید کی آمریت آ گئی ہے، جو شاید ایک سانحے کے بعد ایک مذاق قرار دیا جا سکتا ہے۔ سوڈان میں مزاحمتی کمیٹیوں کو گزشتہ سال تک کچھ کامیابی حاصل ہوئی تھیں۔ اپریل میں پرانی حکومت کے دو دھڑوں نے ایک بے رحم خانہ جنگی شروع کر دی۔ دسیوں ہزار اموات اور لاکھوں بے گھر ہونے، جنسی تشدد اور ہر چیز کے باوجودبین الاقوامی میڈیا اس کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتا۔ خاص طور پر مغرب میں، لوگوں کی جلد کا رنگ جتنا گہرا ہوتا ہے، وہ اس کے بارے میں اتناکم بولتے ہیں۔ بہر حال یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے، جس کے لیے مزاحمتی کمیٹیاں تیار نہیں تھیں۔ ان کے پاس مسلح ونگز نہیں ہیں جو انہیں اس قسم کی صورتحال میں اپنا کردار ادا کرنے کی اجازت دیں۔

ہم’عرب بہار‘کے بعد کی شکستوں کے اثرات کو ٹھوس طور پر دیکھ سکتے ہیں: شام، یمن، لیبیا، اور اب سوڈان، خانہ جنگی کے حالات میں ہیں۔ مصر میں السیسی نے حسنی مبارک سے زیادہ ظالمانہ آمریت قائم کی،جس سے عوام نے 2011 میں چھٹکارا حاصل کر لیا تھا اور الجزائر میں فوج نے کووڈ کے پیش کردہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امن بحال کیا، پھر تیونس کی باری تھی۔۔۔

یہ سب کچھ وسیع تر تحرک ہونے کے لیے سازگار ماحول پیدا نہیں کرتا،جو قاہرہ یا دیگر دارالحکومتوں میں اسرائیل کی سفارتی نمائندگیوں پر حملہ کرے اور حکومتوں کو صہیونی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات توڑنے پر مجبور کرے۔

(جاری ہے)

Roznama Jeddojehad
+ posts