انٹوئن لارراچے
(اس انٹرویو کا پہلا حصہ گذشتہ روز شائع کیا گیا تھا جواس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے، آج دوسرا اور آخری حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔)
کیا یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب ہے کہ اگر صہیونی فار رائٹ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا گیا تو خطے میں اسرائیل کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا؟
جلبیر اشقر:اسرائیلی انتہائی دائیں بازو کو معلوم ہے کہ خطے کی حکومتیں مسئلہ فلسطین پر بہت کم توجہ دیتی ہیں، ان کے ایک بڑے حصے نے پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات استوار کر رکھے ہیں، اور یہ کہ وہ رجعت پسند حکومتوں کے درمیان اچھے طریقے سے چل رہے ہیں۔ اس لیے اسرائیل اس محاذ پر رعایت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ وہ جانتے ہیں کہ سعودی حکومت منافق ہے، اور وہ ان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی راہ پر گامزن ہے،جیسا کہ عرب امارات نے کیا۔ ان کے مشترکہ دشمن ایران کے خلاف ان کے درمیان سیکورٹی اور فوجی تعاون موجود ہے۔
7 اکتوبر کے زیر اثر اسرائیلی فار رائٹ نے سنٹر رائٹ کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے۔ فار رائٹ اس بات کا فائدہ اٹھا رہا ہے کہ: امریکی انتظامیہ،جس نے اسرائیل کو غزہ کے خلاف غیر مشروط مدد فراہم کرنے کی غلطی کی تھی، نے خود کو ایسی پوزیشن میں ڈال دیا ہے جہاں سے وہ اب پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ درحقیقت امریکہ انتخابی دور میں داخل ہو چکا ہے، ڈیموکریٹس کا مقابلہ ریپبلکنز سے ہے، اور ٹرمپ بائیڈن انتظامیہ پر حملہ کرنے کے لیے اسرائیل اور واشنگٹن کے درمیان پیدا ہونے والے معمولی اختلاف کا بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ بائیڈن ایک کمزور پوزیشن میں ہیں، انہوں نے اپنے آپ کو ایسی پوزیشن میں ڈال دیا ہے جہاں سے وہ اسرائیل کے نسل کشی کے اقدام پر مزید دباؤ ڈالنے کے قابل نہیں ہیں۔ بلنکن کی تقریروں میں بہت زیادہ منافقت ہے،جن میں اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ’انسان دوستی‘کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا گیا ہے: وہ لوگوں کو احمقوں کے طور پر لے ر ہے ہیں، یہ بات جانتے ہوئے کہ غزہ میں نسل کشی اور قتل عام صرف امریکی حمایت کی بدولت ہی ممکن ہوا۔
یہ جنگ پہلی مشترکہ اسرائیلی امریکی جنگ ہے، پہلی جنگ ہے جہاں امریکہ شروع سے ہی مکمل طور پر، آپریشن کا ایک فریق ہے، اسرائیل کے بیان کردہ اہداف سے متفق ہے، اس کو ہتھیار دے رہا ہے اور اسرائیل کی مالی امداد کر رہا ہے۔
مزید برآں اسرائیلی انتہائی دایاں بازو اور نیتن یاہو ٹرمپ کی امریکی صدارت میں واپسی کے بارے میں سوچ رہے ہیں، جس سے انہیں گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہونے میں مدد ملے گی۔
یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل اعلان کرتے ہیں کہ جنگ 2024ء کے دوران جاری رہے گی۔ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی عسکری رفتار کو جاری رکھیں گے۔ اس لیے خطرہ لبنان اور مغربی کنارے کے لیے بہت سنگین ہے، جو مستقبل میں بڑے پیمانے پر صہیونی فوجی مہم کے دو ممکنہ اہداف ہیں۔ مغربی کنارے میں جاری ’کم شدت والی‘، ’انسداد بغاوت‘ جنگ شدت اختیار کر سکتی ہے۔ لبنان میں سرحد کے دونوں جانب بم دھماکوں کا محدود تبادلہ بڑے پیمانے پر آپریشن میں تبدیل ہونے کا خطرہ ہے۔
جنگ پر تاریخی تحرک کے تجربے کی روشنی میں، چاہے ویتنام ہو، عراق ہو یا پہلی انتفادہ، اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے موثر نعرے کون سے ہیں؟ بہت سے لوگ سوچ رہے ہیں کہ کیسے عمل کیا جائے، کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک ناقابلِ تباہی دشمن کا سامنا کر رہے ہیں۔
جلبیر اشقر:11 ستمبر کے بعد جو میں نے کہا تھا اس پر بھروسہ کرتے ہوئے 7 اکتوبر کے اثرات کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔ میں اسے ’نرگسیت پر مبنی ہمدردی‘کہتا ہوں۔ یہ ہمدردی صرف ان لوگوں کے ساتھ کی جاتی ہے جو آپ سے مشابہت رکھتے ہیں۔ فرانس میں 7 اکتوبر کی ’ریو پارٹی‘اور ’بٹاکلان‘کے درمیان فوری طور پر مشابہت تلاش کی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ اہل فرانس اسرائیلیوں سے برادری جتائیں اور حماس کو اسلامی ریاست کے زمرے میں ڈالیں۔
اس کے باوجود، ہم نے مغربی ممالک میں غزہ کے ساتھ یکجہتی کے لیے تحرک میں اضافہ دیکھا ہے، جو کہ زیادہ تر عرب خطہ یا خطوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی برادریوں پر مشتمل ہے،جو فلسطینی کاز کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں واقعات کی پیش کش میں قطعی غیر متناسب ہونے کے باوجود، جس کے لیے ایک فلسطینی کی موت اسرائیلی موت سے بہت کم اہم ہے، لوگوں کو اس نسل کشی کے پیمانے کا احساس ہے۔
لیکن 7 اکتوبر پر جو غصے کی شدت تھی، وہ غزہ میں نسل کشی کی جنگ، جو پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہے،بارے کم ہے۔
تاہم، غصہ زور پکڑ رہا ہے اور 7 اکتوبر کی لہر کو پلٹنا شروع کر دیا ہے،جس میں فلسطین کے ساتھ یکجہتی کی آوازوں کو ایک مہم کے ذریعے دبا دیا گیا تھا،اورجس میں اس یکجہتی کے معمولی سے اظہار کو یہود دشمنی، نازی ازم وغیرہ کا نام دیا گیا تھا۔ ہمیں نسل کشی پر غصے اور رد عمل کو طویل المدتی شکل دینا ہوگا۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسرائیل کی ریاست کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے، جس پر کئی سالوں سے انتہائی دائیں بازو کی حکومت ہے۔یہ ایک بڑھتا ہوا انتہا پسند انتہائی دایاں بازو ہے، جس نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 7 اکتوبر کو جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کی طرز پر استعمال کیا ہے، جیسے بش نے 11 ستمبر کو ان کارروائیوں کو انجام دینے کے لیے استعمال کرنے کے موقع کے طور پر استعمال کیا جس کی وہ طویل عرصے سے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
کارروائی کی قسم کے لحاظ سے BDS مہم بہت موثر ہے۔ اسے جاری رکھنا چاہیے اور اسے بڑھانا چاہیے۔ سیاسی سطح پر ہمیں مختلف سطحوں تک مغربی حکومتوں کی ملی بھگت پر زور دینا چاہیے۔ ہم جر من حکمران طبقے کے رویے کی تاریخی وجوہات کو سمجھ سکتے ہیں، لیکن نازی ازم کی تباہی سے انھوں نے جو سبق سیکھا ہے وہ بہت برا ہے، اگر وہ اسباق انھیں کسی ایسی ریاست کی حمایت کی طرف لے گئی ہے جو یہودی ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود نازیوں جیسا، بلکہ اس سے بھی زیادہ برتاؤ کرتی ہے۔
فرانس میں میکرون نے محسوس کیا ہوگا کہ جب اس نے غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں حصہ لینے کی پیشکش کی تھی تو وہ بہت آگے نکل گئے تھے، اور فرانس نے جنگ بندی کے مطالبے کی حمایت کرکے اب خود کو دیگر یورپی حکومتوں سے ممتاز کیا ہے۔ نسل کشی کے سوال پر جنوبی افریقہ کی جانب سے بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے شروع کیا جانے والا طریقہ کار بھی حکومتوں پر دباؤ کا ایک نکتہ ہے۔
ہمیں خاص طور پر امریکہ میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کی مخالفت بھی کرنی چاہیے، اور یوکرین اور فلسطین کے معاملے پر مغربی حکومتوں کی منافقت اور ’دوہرے معیار‘ کو اجاگر کرنا چاہیے۔ یوکرین پر ان کی انسانی اور قانونی گفتگو بے نقاب ہو گئی ہے، خاص طور پر جب گلوبل ساؤتھکے نقطہ نظر سے دیکھا جائے۔ یقینا بہت کم لوگوں کو مڑرب بارے کوئی خوش فہمی تھی،لیکن اب منافقت بالکل صریح ہے۔ اس میں نسل کشی کا سوال بھی شامل ہے: اسے یوکرین کے لیے تو استعمال کیا گیا حالانکہ روس نے اب تک وہاں جو کچھ کیا ہے وہ اس سے کہیں کم تباہ کن اور قاتلانہ ہے جو اسرائیل نے تین ماہ میں غزہ میں کیا ہے۔
سیاسی موضوعات کی ایک رینج آج واقعی ایک مستقل بین الاقوامی اور سامراج مخالف شعور کی تعمیر کو ممکن بناتی ہے۔ یوکرین اور غزہ کا جڑواں سوال ہونا ہمیں یہ ظاہر کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ ہم کسی بھی حملے کے خلاف ہیں، چاہے وہ روسی، اسرائیلی یا امریکی ہو، اور یہ کہ ہم عالمی اقدار جیسے کہ امن، لوگوں کے حقوق اورخود ارادیت وغیرہ کے دفاع میں مستقل مزاج ہیں۔
آج سیاسی تعلیم کے لئے جدوجہد کی گنجائش ہے، میڈیا کا چیلنج درپیش ہے، منافقت کا راج ہے، اور اسرائیل یا ماسکو کے تمام حامی ہیں جن کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ بیانیہ کی اس جنگ میں نیتن یاہو اور پوتن،دونوں کے لئے فار رائٹ سہولت کاری کر رہا ہے۔ اس سے یہ ثابت کرنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ کس طرح یہود دشمنی اور صہیونیت ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
ہمیں یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ صہیونیت مخالفت کو یہود دشمنی کے مترادف قرار دینا درست نہیں۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ بعض یہود مخالف تقاریر صہیونیت مخالفت کا روپ دھارتی ہیں، لیکن یہ صہیونیت اور یہود دشمنی کے درمیان مستقل رشتہ قائم کرنا اور بات ہے۔
تاہم ایک اور طرح کی یہود دشمنی اور صہیونیت کے درمیان تعاون پر بات ہونی چاہئے: یورپ اور امریکہ کا یہود مخالف انتہائی دایاں بازو، جو یہودیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے، صہیونیت کی حمایت کرتا ہے کیونکہ یہ اس حقیقت کی بھی حمایت کرتا ہے کہ یہودیوں کویورپ یا شمالی امریکہ میں رہنے کی بجائے اسرائیل چلے جانا چاہیے۔
غزہ کے ساتھ یکجہتی کے نعروں کے حوالے سے آج ہمیں ان مختلف سوالات کو بیان کرنا چاہیے جو ہم نے اٹھائے ہیں اور جو سب سے پہلے دفاعی نوعیت کے ہیں: یعنی قتل عام کو روکنے کی ضرورت، جو اولین ترجیح ہے، اس لیے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے کیونکہ پورے علاقے پر مسلح قبضے کی صورت میں لڑائی کو روکنا ظاہری طور پر ایک مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں فوری طور پر اور سب سے بڑھ کر غیر مشروط طور پر قابض فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے۔ ہمیں اسرائیل کے 1967 سے زیر قبضہ تمام علاقوں سے فوری اور غیر مشروط انخلا کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے۔
یہ ایک ایسا نعرہ ہے جو عام فہم ہے اور جسے لوگوں کی اکثریت سمجھ سکتی ہے کیونکہ بین الاقوامی قانون ان علاقوں کو مقبوضہ تصور کرتا ہے اور اس لیے ان کے قبضے کے خاتمے اور قابض کی طرف سے کسی بھی نوآبادیاتی نظام کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی قانون فلسطینی پناہ گزینوں کو واپسی یا معاوضے کا حق تسلیم کرتا ہے۔
وہاں سے یہ فلسطینیوں پر منحصر ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں: یکجہتی کی تحریک کے اندر ایک ریاست یا دو ریاستوں پر بحث اکثر میرے خیال میں نامناسب ہوتی ہے، کیونکہ یہ فیصلہ پیرس، لندن یا نیویارک میں نہیں ہونا چاہیے کہ فلسطینیوں کے لیے کیا ضروری ہے۔ یکجہتی تحریک کو فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کے لیے اپنے تمام اجزاء میں جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ فلسطینیوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اس وقت 1967 میں مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی انخلاء، مغربی کنارے میں بستیوں کو ختم کرنے، علیحدگی کی دیوار کی تباہی، پناہ گزینوں کی واپسی کے حق اور اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کیلئے حقیقی معنوں میں مساوات کے مطالبات پر فلسطینیوں کا اتفاق رائے ہے۔ یہ تمام جمہوری مطالبات ہیں، جو ہر کسی کے لیے قابل فہم ہیں، اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کی مہم کا مرکز ہونے چاہئیں۔
اس سے آگے یوٹوپیا کے دائرے میں سوچنے اور بحث کرنے کی گنجائش یقینا موجود ہے، لیکن جب نسل کشی ہو رہی ہو تو یوٹوپیائی بحثوں کی بنیاد پر عوامی تحریکیں تعمیر نہیں کی جا سکتیں۔
(انگریزی سے ترجمہ: حارث قدیر۔ بشکریہ: انٹرنیشنل وئیو پوائنٹ)