نقطہ نظر

ترکی: ’اردگان کی مقبولیت برقرار ہے مگر بائیں بازو کو بھی زبردست کامیابی ملی ہے‘

ڈیو ے کیلا وے

اوراز آئیدن ترکی کی ورکز پارٹی(ٹی آئی پی) کی مرکزی کمیٹی کے رکن ہیں۔ اردگان حکومت نے سیاسی وجوہات کی بناء پر انہیں یونیورسٹی عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ ڈیوے کیلاوے نے گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں اردگان کی کامیابی کے بعد کی صورتحال، ٹی آئی پی کی ڈویلپمنٹ اور آمرانہ حکومت کے ہوتے ہوئے بائیں بازو کی تنظیم کیلئے مشکلات کے حوالے سے اوراز آئیدن کا تفصیلی انٹرویو کیا، جس کا ترجمہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

اردگان مسلسل جیت کیوں رہے ہیں؟ معیشت کے ساتھ مسائل ہیں، زلزلے نے گھروں کے تعمیراتی معیار اور امداد کی تقسیم میں کرپشن کو بے نقاب کیا اور آزادی اظہار پر پابندیاں یقیناحکومت کی مخالفت کو ہوا دے رہی ہونگی؟

اورازآئیدن:اردگان ترک معاشرے میں شدید پولرائزیشن کا فائدہ اٹھا کر اپنی طاقت کی بنیاد بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طرف ثقافتی اور مذہبی پولرائزیشن ہے اور دوسری طرف سماجی، طبقاتی پولرائزیشن ہے۔ جمہوریہ کی بنیاد کے بعد (کمال اتاترک، 1923) جس کا ایک مضبوط سیکولر پہلو تھا، مذہبی لوگوں کو طویل عرصے تک اقتدار کے عہدوں سے باہر رکھا گیا۔ اگرچہ قدامت پسند مذہبی سیاسی دھارے بچ گئے، لیکن معاشرے میں غالب نظریہ سیکولر اور شہری تھا اور اس نے ان قوتوں کو خارج کر دیا۔ قصبوں سے باہر دیہی معاشرے میں اور غریب پرتوں میں کہانی الگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی انتخابات ہوتے تھے کسانوں اور دیہی علاقوں میں قدامت پسند، مذہبی جماعتوں کی بنیاد ہوتی تھی۔ آپ کے شہروں میں دانشور، محنت کش، شہری پیٹی بورژوا اور بورژوا طبقے تھے۔

یہ قدامت پسند مذہبی جماعتیں ہمیشہ کمالسٹ ریپبلکن پارٹی کو چیلنج کرتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں فوجی بغاوتیں ہوئیں تاکہ یہ ریپبلکن/بورژوا/فوجی اشرافیہ اپنی طاقت برقرار رکھ سکے۔ تاہم 1994 میں استنبول سمیت بلدیاتی انتخابات میں اردگان کی اسلام پسند پارٹی بہت مضبوطی سے ابھری۔ اس کا پروفائل نہ صرف مذہبی تھا بلکہ اس کا ایک سماجی پروگرام بھی تھا۔ لیکن اسلام پسند جماعتیں وہاں بھی فوج کے ذریعے دبا دی گئیں، جہاں وہ ووٹ حاصل کر کے حکومت میں شامل ہو سکتی تھیں۔

2000 کے عین بعدایک خاص موڑ پر اردگان نے سمجھ لیا کہ ایک اور قسم کی پارٹی کی ضرورت ہے جو فوج کو فوری طور پر اس کے خلاف کارروائی کے لیے اکسانے سے گریز کرے۔ انہوں نے ترکی کو یورپی یونین کا رکن بننے کے لیے تجاویز پیش کیں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کی۔ نیو لبرل ازم کو قبول کیا گیا اور خود کو ایک جدید اسلامسٹ پارٹی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ جب مرکزی جماعتیں معاشی بحران سے نمٹنے میں ناکام رہیں تو 2002 میں اردگان اقتدار حاصل کیا۔ وہ 22 سال سے اقتدار میں ہیں۔

ان کے پہلے 10 سال کم آمرانہ تھے، اور انہوں نے فوج کے ساتھ کسی بھی تصادم سے بچنے کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ یہ بین الاقوامی سطح پر اقتصادی ترقی کا بھی دور تھا،جو 2008 کے کریش پر ختم ہوا۔ یہ حادثہ بعد میں ترکی میں پیش آیا۔ ارد گرد بہت پیسہ تھا،جس سے بورژوازی خوش تھی اور وہ محنت کش لوگوں اور غریبوں کی مدد کے لیے کچھ اقدامات کرنے کے قابل تھے۔ تاہم اردگان نے ایک حقیقی فلاحی ریاست یا سماجی تحفظ کا نظام قائم نہیں کیا، یہ زیادہ تر ہاتھ بٹانے کا نظام تھا۔ 2010 کے بعد انہیں فوج کے ساتھ مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ اردگان نے مذہبی ذہنوں، غریبوں اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں تاریخی پولرائزیشن کے ایک طرف انتخابی بنیاد بنائی۔ ان کی پارٹی نے بہت سی مقامی کونسلیں جیتیں اور انہوں نے اسے ٹرانسمیشن بیلٹ کے طور پر پیسہ اور وسائل معاشرے کی محروم پرتوں کے حوالے کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کے علاوہ پارٹی اپنی حمایت کو مستحکم کرنے کے لیے مقامی اتھارٹی کی ملازمتوں کی تقسیم کا استعمال کر سکتی ہے، ووٹ دینے والے لوگ جانتے ہیں کہ ان کی ملازمتوں اور ہینڈ آؤٹس کاانحصار اردگان کی پارٹی کو دوبارہ منتخب کرنے پرہے۔ حکومت کے فرنٹس کے طور پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں بھی امداد کی تقسیم کے لیے قائم کی گئیں۔

اس حکومت کے 20 سال کا مطلب دوسری تبدیلیاں ہے۔ اسلام اب سرکاری اداروں سے باہر نہیں ہے، اس سے پہلے خواتین طالبات کے لیے سکارف (حجاب) پہننا منع تھا لیکن اب ان کی اجازت اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ آج غربت اور محرومی میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا بذات خود مطلب یہ نہیں ہے کہ عوام اردگان کی بیعت چھوڑ دیں گے۔

لہٰذا مذہبی نظریہ دیگر خدشات کو منسوخ یا متوازن کر سکتا ہے۔ ہم نے زلزلے اور رائے عامہ کے جائزوں سے سوچا کہ اردگان گزشتہ سال کے انتخابات میں مشکلات کا شکار تھے، لیکن یہ پیشین گوئی درست ثابت نہیں ہوئی۔

ہم سب کا یہی خیال تھا۔ جب ہمیں زلزلے کے بعد مظاہروں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، تو ہمیں پولیس ایجنٹوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ اردگان کو جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اردگان بہت زیادہ قوم پرست،فار رائٹ بن گئے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے کردوں کے ساتھ ان کے مطالبات سے نمٹنے کے لیے تبادلہ شروع کیا تھا۔ یہ عمل کارگر نہیں ہوا اور انہوں نے الٹرا نیشنلزم کا راستہ اپنانا شروع کردیا۔ انہوں نے ترکی کی”روایتی“ فاشسٹ پارٹی،نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP)،کے ساتھ اتحاد کیا۔

کیا اس بات کا امکان ہے کہ آنے والے انتخابات میں کوئی زیادہ شدید دائیں بازو کا عنصر اردگان کی جگہ لے سکتا ہے؟

اورازآئیدن:یہ ایک ممکنہ رجحان ہے۔ اردگان کی پارٹی،پارٹی سے زیادہ ایک تحریک ہے۔ کوئی حقیقی اندرونی بحث نہیں ہے، یہ اردگان کی عدالت ہے۔ یقینا بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اقتدار کی پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ اگر وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو انہیں اردگان کی مرضی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ یہ تھوڑا سا سٹالنسٹ نظام جیسا ہے۔ جو زیادہ خوشامد کرتا ہے وہ اتنا عروج حاصل کرتا ہے۔ بدعنوانی بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہے، اردگان کے ساتھ آپ کو جائیداد یا دوسرے کاروبار میں ہر طرح کی سرگرمیوں کے لیے گرین لائٹ حاصل ہے، بدلے میں اردگان کو آپ کے منافع میں سے حصہ ملتا ہے۔ اردگان نے بورژوازی کے ایک ایسے حصے کو تشکیل دیا ہے جوان پر انحصار کرتاہے۔ اب یہاں واقعی کوئی اصول یا ضابطے نہیں ہیں۔ ہر فیصلہ اردگان کے موجودہ مفادات پر مبنی ہے۔ اس کا اطلاق خارجہ پالیسی پر بھی ہوتا ہے۔ وہ پوٹن کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہیں، لیکن وہ نیٹو کے حق میں بھی بول سکتے ہیں۔ اردگان خود کو یوکرین اور روس کے درمیان ثالث کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ کثیر قطبی سامراج کی طرف منتقلی اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے نسبتاً زوال نے ترکی جیسی درمیانے درجے کی طاقتوں کی زیادہ خود مختاری سے کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیاہے۔ اردگان اس نئی فائدہ مند بین الاقوامی صورتحال کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں اور زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

اردگان کی بورژوا مخالفت بہت منقسم ہے۔ اگر بورژوا قیادت میں تعطل یا خلا پیدا ہوتا ہے تو کیا نچلی سطح سے فوجی بغاوت کا کوئی امکان ہے؟

اورازآئیدن:کچھ بھی یقینی نہیں ہے لیکن فوج نے بھی خود کو اردگان کے ماتحت کر دیا ہے۔ 2016 میں بغاوت کی کوشش ایک اور اسلام پسند گروپ نے کی تھی، جو اردگان کے سابق اتحادی تھے۔ اس گروپ نے ریاست کے اندر کچھ عہدوں پر اپنے لوگوں کو داخل کرنے کا کام کیا تھا۔ یہ اردگان کی طرف سے گھڑی گئی کوئی کہانی نہیں بھی، بلکہ یہ ایک حقیقی بغاوت تھی۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ اردگان نے اپنے حق میں اسے استعمال کرنے کیلئے اس بغاوت کو مداخلت کئے بغیر تھوڑا پھیلنے کا موقع دیا ہو۔

کیا ہم آپ کی ٹرکش ورکرز پارٹی (ٹی آئی پی) کے بارے میں تھوڑی بات کر سکتے ہیں، کیونکہ 2023 کے الیکشن میں اردگان کی کامیابی کے ساتھ بھی آپ 1.7% ووٹ حاصل کرنے اور 4 ایم پیز کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ اگر آپ ان نتائج کو یورپ میں دیگر ریڈیکل بائیں بازو کی جماعتوں کی کارکردگی کے تناظر میں دیکھیں تو یہ اس پارٹی کیلئے اتنا برا نہیں ہے، جو خود کو مارکسسٹ کہتی ہے۔ مثال کے طور پر اب اطالوی پارلیمان میں بائیں بازو کا کوئی رکن موجود نہیں ہے۔

اورازآئیدن:ہمارے اراکین پارلیمنٹ میں سے ایک رکن ’کین اٹالے‘ اب بھی جیل میں ہیں۔ پچھلی پارلیمنٹ میں بھی ہمارے پاس 4 ایم پی تھے اور ہم نے کرد پارٹیوں کے ساتھ اتحاد میں کام کیا تھا،جن کی انتخابی اور سماجی بنیاد کافی زیادہ ہے۔ مرکز ی اپوزیشن کے آفیشل بائیں بازو کے برعکس ٹی آئی پی کا انداز بہت ہی لڑاکا ہے اور اس نے ان لوگوں کی حمایت حاصل کی ہے جو اردگان کی AKP پارٹی کے خلاف لڑنا چاہتے تھے۔ پارٹی نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے، جب میں نے دو سال پہلے شمولیت اختیار کی تو اس کے ممبران کی تعداد 6000 تھی، آج اس کے ممبران کی تعداد 43000 ہے، جنوری 2023 میں ہماری تعداد 10000 تھی، اس لیے ہم نے چند مہینوں میں اپنی ممبرشپ کو چار گنا کر دیا۔اس کے تین مرحلے تھے۔

سب سے پہلے ہمارے ایک ایم پی نے یو ٹیوب ویڈیو بنایا،جہاں ان سے مخالف سامعین نے مارکسزم کے بارے میں دائیں بازو، بائیں بازو اور کردوں کے بارے میں مختلف سوالات کیے اور انہوں نے بہت مؤثر طریقے سے جواب دیا، جس سے ہمیں ہزاروں نئے اراکین جیتنے میں مدد ملی۔ ہم نے شامل ہونے والوں کی درخواستوں کی بہتات کو مشکل سے ہینڈل کیا۔

دوسرا جب زلزلہ آیا اور ہمارے ساتھیوں نے بہت تیزی سے ردعمل دیا، پوری تنظیم نے اس علاقے میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے شہریوں کو متحرک کرنے کے کام کی طرف رجوع کیا۔ ٹی آئی پی زلزلے کی تباہی کے دوران ایک انتہائی موثر باہمی امداد اور یکجہتی نظم کو متحرک کرنے میں کامیاب رہی۔ سینکڑوں ٹرکوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ ہم پر بھروسہ کر سکتے ہیں کیونکہ ہم نے علاقے میں ضروری سامان کا انتظام کرنے میں مدد کی۔ ہم کرپٹ نہیں پائے گئے۔ یہاں تک کہ کچھ بورژوا تنظیموں نے بھی ہمارے ذریعے سامان بھیجا۔

تیسرا ہماری انتخابی مہم کے ارد گرد تحرک نے اور بھی زیادہ لوگوں کو اپنے ارد گرد کھینچ لیا۔ تاہم اردگان کی جیت سے پوری اپوزیشن کی حوصلہ شکنی ہوئی اور اس نے ہمیں بھی متاثر کیا۔ ہمارے پاس اب بھی شاید 40,000 ہوں، لیکن حقیقت میں اس وقت ہمارے پاس 10 ہزار یا اس سے زیادہ کارکن ہیں۔ لوگوں نے ضروری نہیں کہ پارٹی چھوڑی ہو لیکن وہ غیر فعال ہو چکے ہیں اور انہیں دوبارہ متحرک کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ووٹ میں جو چیز دلچسپ تھی وہ یہ تھی کہ ہم نے آبادی کے شہری، سیکولر، تعلیم یافتہ حصوں میں سے نہ صرف ووٹ حاصل کیے ہیں بلکہ ہم نے وہاں بھی ووٹ حاصل کرنا شروع کر دیے ہیں جہاں اے کے پی مضبوط ہے۔ ہم چند فیصد کی بات کر رہے ہیں لیکن یہ ہمارے لیے نئی چیز ہے۔ ہم مذہبی یا ثقافتی بنیادوں پر تقسیم کی لکیر بنانے کی بجائے محنت کش طبقے کے مفادات پر مرکوز لکیر سے کاٹنا شروع کر رہے ہیں۔ صدارتی انتخابات اسی وقت ہوئے تھے جب پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے اور ہم نے دیکھا کہ لوگ اپنے ووٹوں کو پارلیمانی انتخابات میں ہمارے اور صدر کے لیے اردگان کے درمیان تقسیم کررہے ہیں۔ لہٰذا یہ لوگ اب بھی اردگان کو گریٹ فادر،یا ’رئیس‘(کمانڈر) کے طور پر دیکھتے تھے، لیکن یہ بھی نظر آیا کہ ہم ان کے مفادات کے دفاع میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ نیا ہے۔ بائیں طرف ہمیں سیکولر، قوم پرست اور مذہبی شناختوں کے درمیان پولرائزیشن کی سختی پر قابو پانا ہے۔ ترکی میں موجودہ سیاسی پولرائزیشن طبقاتی نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، یہ ایک پولرائزیشن ہے جو بنیادی طور پر ثقافتی بنیادوں پر تیار ہوئی ہے۔ ٹی آئی پی کا مقصد اس پولرائزیشن کو ایک نئے اور بنیادی طور پر طبقاتی سیاسی پولرائزیشن کے ساتھ تبدیل کرنا ہے۔

کیا ٹی آئی پی اپنے آپ کو بائیں بازو کی عوامی دھارے کی طرح دیکھتی ہے، جیسے پوڈیموس یا سائریزا جیسی بڑے پیمانے پر بائیں بازو کی جماعتوں کی تشکیل ہوئی؟

اورازآئیدن:بالکل اس طرح سے نہیں، کیونکہ ٹی آئی پی ترک کمیونسٹ پارٹی کے اندر سے سپلٹ کے نتیجے میں قائم ہوئی، جو ایک اسٹالنسٹ اور قوم پرست پارٹی تھی۔ یہ سپلٹ کردوں کے سوال کے بارے میں رویہ کی وجہ سے ہوئی۔ الگ ہونے والے لوگ حقوق نسواں اور ایل جی بی ٹی پلس کے مسائل پر بھی زیادہ اوپن ہیں۔ اس (الگ ہونے والے گروپ) کا رہنما نظریہ مارکسی ہے۔ اس کی اشاعت کو’کمیونسٹ‘کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ 2013 میں گیزی پارک کے گرد بغاوت میں ملوث تھا،جب لوگوں نے ریاستی جبر کے باوجود سپیکولیٹرز کو اس پبلک گرین سپیس پر قبضہ کرنے سے روک دیا۔ نئی پارٹی اس مہم میں شامل لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کے متنوع حلقوں میں سے تعمیر ہوئی۔

آج نوجوانوں کو منظم کرنا مشکل ہے، ثانوی اسکولوں میں بہت جبرہے اور یونیورسٹی کے طلبہ یونین کو منظم نہیں کر سکتے، وہ گھر میں رہتے ہیں کیونکہ کرائے بہت زیادہ ہیں اور عام طور پر انہیں اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے کام کرنا پڑتا ہے۔ طالب علمی کی زندگی جسے ہم جانتے تھے، اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ لہٰذا یہ 30 کی دہائی کے لوگ ہیں، جو ہماری طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔

کیا آپ کو پارٹی میں انگلیزیاس(پوڈیموس) جیسا کوئی مسئلہ درپیش ہے، جہاں ایک بڑا میڈیا پروفائل والا مرکزی رہنما پارٹی کی اندرونی جمہوریت پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے اور اسے نظرانداز کر سکتا ہے؟

اورازآئیدن:یہ بالکل ویسا نہیں ہے۔ ہمارے ارکان پارلیمنٹ میں اپنی ریڈیکل مداخلتوں کی وجہ سے بہت مشہور ہیں، اور بلاشبہ ٹی آئی پی کے رہنما (صدر) ’ایرکان باس‘ایک اہم سیاسی شخصیت ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ لیڈر کا غلبہ ہے، یہ زیادہ اجتماعی سیاسی قیادت ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پوڈیموس کے برعکس ٹی آئی پی ایک انقلابی روایت یعنی بالشویک روایت سے آتی ہے۔ چنانچہ پارٹی کا ڈھانچہ کمیٹیوں (مرکزی، علاقائی، مقامی وغیرہ) پر مبنی ہے۔ ویسے داخلی جمہوریت حتیٰ کہ لینن اسٹ ٹراٹسکی اسٹ روایت میں بھی کامل نہیں تھی۔ داخلی جمہوریت ایک ایسا طریقہ کار ہے جسے آپ کو یقینا اندرونی بحث لیکن ٹھوس تجربات کے ساتھ فتح کرنا ہوتاہے۔

میرے خیال میں اس پارٹی کو بنانا ضروری ہے کیونکہ یہ اس وقت ترکی میں سوشلسٹ متبادل کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ پارٹی کے اندر کے لوگ جانتے ہیں کہ میں ایک مختلف سیاسی روایت سے ان کے پاس آیا ہوں لیکن میں کچھ قائدانہ کردار ادا کرنے میں کامیاب رہا ہوں، مثال کے طور پر میں استنبول کے ایک اہم علاقے میں پارٹی کا سیکرٹری ہوں اور مرکزی کمیٹی میں بہت سے خیالات ہیں۔

ٹی آئی پی کی طرف سے اپنایا جانے والا ایک مثبت نقطہ نظر نہ صرف نئے اراکین کو جیتنے کی کوشش کرنا اور سیکولر، غیر مذہبی شعبوں، تعلیم یافتہ نوجوانوں اور دانشوروں کی حمایت حاصل کرنا ہے،بلکہ اس کے ذریعے محنت کش طبقے کے مطالبات پر کام کرتے ہوئے زیادہ مذہبی رجحان رکھنے والے محنت کش طبقے اور غریب طبقے کی بنیاد تک پہنچنا ہے۔

محنت کش طبقے کے مختلف شعبوں کے درمیان یہ تقسیم یورپی ملکوں میں بھی موجود ہے، جیسے گریجویٹ اور نان گریجویٹس کے درمیان تقسیم، بڑے شہروں اور چھوٹے شہروں یا زیادہ دیہی علاقوں کے درمیان کی تقسیم ہے۔ برطانیہ میں ہم نے اسے بریگزٹ کے ساتھ دیکھا، فرانس میں پیلی جیکٹوں کی تحریک کے ساتھ دیکھا گیا۔ تو آپ اس تقسیم پر کیسے قابو پاتے ہیں یہ حکمت عملی کے لحاظ سے بہت اہم ہے؟

اورازآئیدن:جی ہاں میں اتفاق کرتا ہوں۔یہاں تک کہ استنبول میں بھی کچھ مضافاتی علاقوں کے درمیان بڑے فرق ہیں جو بہت محنت کش طبقے کے ہیں، لیکن زیادہ قدامت پسند اور مذہبی ہیں اور مرکزی علاقوں میں جہاں نوجوانوں، دانشوروں اور ترقی پسندوں کی بڑی تعداد ہے۔

فلسطین کے ساتھ یکجہتی کی کیا صورتحال ہے؟ ہم نے تقسیم اسکوائر میں شاندار ملٹی میڈیا نمائش دیکھی جس میں فلسطینی بچوں کے ڈیجیٹلائزڈ فن پارے ہیں،جن کی مالی اعانت حکومت کرتی ہے۔

اورازآئیدن:یہاں جب ہم نے اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کے حق کی حمایت کی تو ہماری برانچ میں پارٹی سے 80 یا اس سے زیادہ استعفے تھے۔ اے کے پی کی اسلام پسندی کے خلاف لڑنے والے کارکن حماس کو بھی اسی طرح کے مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم نے یقینا حماس کی سیاسی لائن سے شناخت نہیں کی لیکن یہ ہمارے لیے متنازعہ تھی۔ یہاں یقینا یہ پہلا موقع ہے کہ اردگان حکومت نے بڑے پیمانے پر مظاہروں کی حمایت کی ہے۔ ہم اپنے یکجہتی کے مظاہروں یا دستوں کو منظم کرنے کے لیے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

اگرچہ اردگان کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی استعماری جارحیت پوری رفتار سے جاری ہے، دوسری طرف ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات بدستور فروغ پا رہے ہیں۔ کچھ زبانی بیانات کے علاوہ ترک حکومت نے فلسطینی عوام کے ساتھ کوئی ٹھوس یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ صورتحال اردگان کی بنیادوں میں اعتراضات کا باعث بنتی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ سوشلسٹوں کو ان اعتراضات کو سننا چاہیے اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی تحریک کی قیادت سنبھالنی چاہیے۔

یہاں بائیں بازو کے لوگ ووٹ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہزاروں لوگوں کو سڑکوں پر اکٹھا کرنا مشکل ہے،کیونکہ سالوں کے جبر نے اسے مشکل بنا دیا ہے۔ صرف ایک مثال یہ ہے کہ ہمارے 80 کارکن (میں بھی ان میں شامل ہوں) گزشتہ ہفتے مقدمے میں تھے کیونکہ انہوں نے زلزلہ زدہ علاقے میں خیموں کی تقسیم سے منسلک بدعنوانی پر احتجاج کیا تھا۔ ہلال احمر غیر سرکاری تنظیموں کو خیمے فروخت کر رہی تھی۔ پولیس نے ہمارے احتجاج پر حملہ کیا تھا،جو کہ ان دنوں معمول ہے۔

کیا آپ ہمیں ایم پی کین اٹالے کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں،جو ابھی تک جیل سے رہا نہیں ہوئے؟

اورازآئیدن:میں کین کو کئی سالوں سے جانتا ہوں۔ وہ ایک وکیل ہیں اور گیزی پارک مہم کے ترجمانوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے لیبر قوانین اور حفاظتی امور پر بھی لوگوں کا دفاع کیا۔ گیزی پارک مہم میں ان کے کردار کے لیے انہیں 18 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ہم نے انہیں آزاد حیثیت سے ٹی آئی پی کی انتخابی سلیٹ پر رکھا۔ ان کے منتخب ہونے کے بعد ریاست نے ان کے پارلیمانی استثنیٰ کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کی ہے۔

مختلف سطحوں پر مختلف عدالتوں نے مختلف فیصلے سنائے ہیں۔ آئینی عدالت نے کہا کہ انہیں رہا کیا جانا چاہیے لیکن نچلی عدالت نے اس کے برعکس کہا۔ لیکن وہ جیل میں ہی ہیں۔ ہم اسے آئینی بغاوت کہہ رہے ہیں کیونکہ نچلی عدالت کا فیصلہ اعلیٰ عدالت سے متصادم ہے۔ لہٰذا اب ہم آئین کی قانونی حیثیت کے گرد ریاستی بحران کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts