خبریں/تبصرے

پاکستان: بجلی کا ٹیرف امریکہ جتنا، کھپت کانگو کے برابر ہوگئی

لاہور(جدوجہد رپورٹ) پاکستان صحارا افریقہ کے بعد دنیا میں سب سے کم فی کس بجلی استعمال کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے، جبکہ بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے پاکستان امریکہ، یو اے ای اور سنگاپور جیسے ملکوں کے ساتھ کھڑا ہے۔

پاکستان میں رواں سال بجلی کا ٹیرف گزشتہ سال کے مقابلے میں 60فیصد زیادہ رہے گا۔ تاہم پاکستان میں بجلی کے کنکشن کی اوسط کھپت 20سال کی کم ترین سطح پر ہے۔ جو درحقیقت پاکستان میں معاشی جمود کی غمازی کر رہا ہے۔ بجلی کے فی کس استعمال کے حوالے سے پاکستان انگولہ، کانگو، یمن، سوڈان، موزمبیق یسے ملکوں کے برابر ہے۔ 300یونٹ سے زائد استعمال پر بجلی کا موجودہ ٹیرف امریکہ کے برابر اور متحدہ عرب امارات سے زیادہ ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں میں بجلی کے استعمال میں اضافہ نہ ہونے پاکستان کی معاشی بدحالی کا واضح ثبوت ہے۔ تاہم دوسری طرف ان دو دہائیوں میں بجلی کی پیداواری صلاحیت میں بیش بہا اضافہ کیا گیا ہے۔

’بزنس ریکارڈر‘ کے مطابق اگلی بیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ میں بجلی کی قوت خرید نہیں بلکہ بجلی کی خریداری کی قیمت اہم جز ہوگا، جو مزید اذیت کا باعث ہے۔ بیس ٹیرف کیلئے زمینی حقیقت کا احترام ضروری ہے، لیکن موجودہ ٹیرف زمینی حقیقت کے مطابق نہیں ہے، جس میں ماہانہ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے بار بار تبدیلی کی جاتی ہے۔

تاہم ٹیرف بڑھانے سے توانائی کے بحران سے نکلنے کی کوششیں ماضی کے تمام تجربات کے مطابق باورآورثابت نہیں ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کیلئے بجلی کی کھپت بڑھانے کے طریقے تلاش کرنا اہم ہے، دوسرے لفظوں میں معاشی اور پیداواری سرگرمیوں میں اضافے کے راستے تلاش کرنا اور سرمایہ کاری کیلئے موافق حالات پیدا کرنا اہم ہے۔

دوسری طرف بجلی پیدا کرنے والے نجی پاور پلانٹس کو قومی تحویل میں لے کر اس اضافی پیداواری صلاحیت کو نہ صرف محفوظ کیا جا سکتا ہے، بلکہ اس صلاحیت کی ادائیگیوں کے نام پر شہریوں کے جیبوں پر ڈاکے مارنے کا سلسلہ بھی روکا جا سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر ہی معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی منصوبہ بندی بھی کی جا سکتی ہے۔ توانائی کی موجودہ قیمتوں کے ہوتے کسی طرح کی پیداواری سرگرمی ممکن نہیں ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق بجلی کے بلوں میں ٹیکس اور سرچارجز 20فیصد ہیں۔ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات سے جمع ہونے والے ٹیکس ہی ایف بی آر کیلئے لائف لائن ہیں۔

دوسری طرف اگر بجلی کی کھپت میں اضافہ کیا جاتا ہے تو ترسیلی نظام کا بحران ایک نیا چیلنج بن کر سامنے آئے گا۔ پہلے ہی جنوب سے شمال کی طرف سپلائی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے اور ملک گیر بلیک آؤٹ سے بچنے کیلئے زیادہ مہنگے پاور پلانٹس چلانے پڑتے ہیں۔

تاہم اگر پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی اس ترسیلی نظام میں ڈالی جائے تو تمام تر ترسیلی ڈھانچہ تباہ ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیمانڈاور صلاحیت ہونے کے باوجود ڈسٹری بیوشن کمپنیاں لوڈشیڈنگ کرتی رہی ہیں۔

ٹرانسمیشن کی رکاوٹیں جلد حل نہیں ہونے والی۔ یہ 2030 تک نہیں ہوگا جب شمال میں قابل اعتماد ذرائع سے ہائیڈل بجلی آنے لگے گی۔ جمود اور گراوٹ کا شکارکھپت، ناکارہ ترسیلی نظام، نااہل ڈسٹری بیوٹرز، بجلی کے ٹیکسوں پر حد سے زیادہ انحصار کرنے والا وفاق اورتنزلی کا شکار معیشت،یہ وہ تمام اجزاء ہیں جو پاکستان کو توانائی کے بحران کی گہرائی میں دھکیل رہے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts