نقطہ نظر

سندھ نامہ (آخری حصہ): سندھ نے عمران خان کو ووٹ کیوں نہیں دیا؟

فاروق سلہریا

سندھ کے تین مختلف حصوں (حیدر آباد، تھر پارکر، سکھر) میں لگ بھگ ایک ہفتہ گزارنے کے باوجود بارہا سیاست پر گفتگو ہوئی۔ کسی نے ایک بار بھی عمران خان یا نواز شریف کا نام نہیں لیا۔ پیپلز پارٹی کا ذکر آتا رہا لیکن بعض دوست اگر پیپلز پارٹی کے زبردست حامی تھے تو دیگر تنقیدی رویہ رکھتے تھے۔ گو اکثریت نے بہرحال ووٹ پیپلز پارٹی کو ہی دیا۔

ان سارے شہروں اور علاقوں میں گھومتے ہوئے یا چھوٹے چھوٹے قصبوں سے گزرتے ہوئے جا بجا اگر کسی سیاسی جماعت کا پراپیگنڈہ نظر آیا تو وہ پیپلز پارٹی تھی۔ اس کی ایک وجہ شائد یہ تھی کہ انتخابی مہم کے دوران لگائے گئے پوسٹر اور بینر ابھی اترے نہیں۔ نوے کی دہائی میں قوم پرست جماعتوں کے پرچم اور وال چاکنگ زیادہ نمایاں ہوتی تھی۔ قوم پرست اب کی بار لگ بھگ غائب تھے۔ شائد ہی کہیں کسی قوم پرست جماعت کا جھنڈا یا وال چاکنگ دکھائی دی۔

کسی بھی مزید بحث سے قبل، ایک بات کافی واضح تھی کہ ہندو برادری میں پیپلز پارٹی کی حمایت کافی واضح ہے۔ سکھر کے کالکا دیوی مندر میں مندر کے نگران سے بات چیت ہو رہی تھی۔ گو بات مندر اور ہندو کمیونٹی بارے ہو رہی تھی مگر بیچ میں انہوں نے اقرار کیا کہ پیپلز پارٹی اقلیتوں کا خیال رکھتی ہے۔ میں نے دل ہی دل میں احمدیوں بارے سوچا۔ بہرحال اپنے میزبان کی بات نہیں کاٹی۔

اقلیتوں کے علاوہ، پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے گذشتہ ادوار حکومت میں کلچر کے نام پر کافی اقدامات کئے ہیں۔ سندھ میں حکومتی اقدامات کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سندھ میں سندھی ثقافت بارے شعور موجود ہے۔ آٹھویں تک تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ سندھی ثقافت بارے یہ شعور اس عمومی سیاسی شعور کا ہی غماز ہے جس میں مزاحمت ایک نمایاں عنصر ہے۔ سندھ میں کسانوں اور ہاریوں کی زبردست مزاحمتی روایات بھی ہیں۔ برطانوی کلونیل ازم کے خلاف مزاحمت سندھی شعور کا حصہ ہے۔ پاکستان کی فوجی آمریتوں اور مرکز (پنجاب)کے غلبے کے خلاف بھی مزاحمت کی روایت موجود رہی ہے۔

سندھ میں قومی سوال بہت پیچیدہ رہا ہے جبکہ یہاں قوم پرست سیاست کے گہرے اثرات مختلف شکلوں (احتجاج، مزاحمت، ادب، ثقافت، انتخابی سیاست) کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہین میں رہنی چاہئے کہ قوم پرستوں نے بلاشبہ سندھی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر گذشتہ عرصے میں قوم پرستوں کے بعض حلقوں نے افغان مہاجرین کے سوال پر بہت رجعتی راویہ اختیار کیا ہے۔

ننگرپارکر سے واپس روانہ ہوتے ہوئے ایسے کئی سوالات اور مباحث میرے ذہن میں گھوم رہے تھے۔ ایک گفتگو کے دوران میں نے یہ سوال خلیل کمہار سے بھی کیا: ”سندھ نے عمران خان کو ووٹ کیوں نہیں دیا؟‘

اپنے روایتی دھیمے لہجے میں انہوں نے الٹا میرے سے سوال پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے سندھ میں عمومی سیاسی شعور بارے جو باتیں اوپر درج کی ہیں، وہی کہہ دیں۔

انہوں نے اختلاف نہیں کیا البتہ ان کا کہنا تھا: ’عمران خان سندھ کی بات ہی نہیں کرتا، سندھ اسے ووٹ کیوں دے؟ وہ کراچی میں کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ تم کراچی والوں پر سندھ سے لوگ آ کر حکومت کرتے ہیں‘۔

عمران خان نے تو شائد یہ بات کراچی سے ووٹ لینے کی خاطر بد نیتی سے کی ہو لیکن عام مڈل کلاس الباکستانی افراد بھی یہ بھول جاتے ہیں کہ کراچی سندھ کا دارلحکومت ہے۔

اتفاق سے چاند رات تھی جب حیدر آباد واپسی ہوئی۔ یہاں سندھی زبان کی ترقی کے لئے کام کرنے والے ادارے، سندھ لنگویج اتھارٹی، کے سر براہ، پروفیسر اسحق سمیجو سے سے ملاقات ہوئی۔ یہ جان کر خوشی اور کسی حد تک حیرت ہوئی کہ سندھی زبان کے فروغ کے لئے ایک طرف اگر صوبائی حکومت سرپرستی کر رہی ہے تو دوسری جانب ایسے بے شمار مخلص محقق بھی موجود ہیں جو سندھی زبان کی ترویج کے لئے کوشاں ہیں۔ یقینا مزید بہت سا کام کرنا ممکن ہو گا۔ کئی مسائل بھی ہوں گے لیکن زبان کے فروغ کے لئے اس طرح کا کام کسی دوسرے صوبے میں شائد نہیں ہو رہا۔

حیدر آباد سے ریل گاڑی کے ذریعے سکھر پہنچے۔

سکھر میں دو دن سیاحت ہی جاری رہی۔ رہائش آئی بی اے یونیورسٹی کے فیکلٹی ہاسٹل میں تھی۔ میرے دوست طارق اقبال، جو محکمہ تعلیم پنجاب سے وابستہ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اتنا اچھا فیکلٹی ہاسٹل کہیں اور نہیں ملے گا۔ ان کی بات درست تھی۔ اس یونیورسٹی کا کیمپس بہت بڑا اور قابل دید ہے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ سکھر میں گذشتہ دو تین سال میں دو نئی یونیورسٹیاں بنی ہیں۔ ایک صرف خواتین کے لئے: نصرت بھٹو ویمن یونیورسٹی برائے خواتین۔ دوسری ارور یونیورسٹی، اروریونیورسٹی کا کیمپس دیکھنے کا موقع ملا۔ بلا شبہ بہت بڑا اور خوب صورت کیمپس ہے۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ایک چھوٹے شہر میں کم از کم تین یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ مرکزی سڑکوں کی حالت اچھی تھی۔ جا بجا برینڈڈ آؤٹ لیٹ بھی دکھائی دے رہے تھے۔

سکھر میں کتنے ہی قابل دید سیاحتی مقامات ہیں۔ برطانوی کلونیل عہد کے دوران بنائے گئے دو پل شہر بھرسے دکھائی دیتے ہیں۔ دریائے سندھ میں رنگ برنگی کشتیاں ایک قابل دید نظارہ ہیں۔ ایک انتہائی خوب صورت اور دیکھنے لائق جگہ سادھ بیلو مندر ہے۔ یہ مندر دریائے سندھ کے اندر ایک چھوٹے سے جزیرے پر واقع ہے۔ اسی طرح کالکا دیوی مندر ہے جو ایک پرانے غار میں ہے۔ ہم کالکا دیوی مندر کے اندر نہیں جا سکے کیونکہ ان دنوں مندر ایک مذہبی رسم کے تحت بند تھا۔ اسی طرح ارور نامی پہاڑی کی سیر بھی سکھر کی سیر کا لازمی حصہ ہے۔

واپسی سے قبل، شام کو رانی پور بھی گئے جہاں سچل سرمست کا مزار ہے۔ مزار لوگوں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ موسیقی اور رقص ہو رہا تھا۔ ایک جانب بک سٹال تھا۔ بک سٹال پر لگ بھگ ساری کتابیں ہی سندھی زبان میں تھیں۔ شاعر ہفت زبان کی درگاہ پر ہو چی منہہ بارے رسول بخش پلیجو کی کتاب بھی پڑی تھی۔ کتاب پر نظر پڑی تو ایک بار پھر ہلکی سی سمجھ آئی کہ سندھ عمران خان کو ووٹ کیوں نہیں دیتا۔

تھوڑی دیر کے لئے روہڑی کا چکر بھی کاٹا جہاں اہل تشیع نے دو زیارتیں بنائی ہیں جن کا طرز تعمیر کربلا کی زیارتوں سے ملتا جلتا ہے۔ وہاں پہنچ کر، لمحہ بھر کے لئے محسوس ہوتا ہے جیسے عراق پہنچ گئے ہوں۔ ایک اہم سیاحتی مقام، دریائے سندھ کے کنارے واقع ستی جو آستان (Seven Sisters Graveyard) ہے۔

رات دو بجے قراقرم ایکسپریس سے لاہور واپسی شروع ہوئی۔ دن بھر تھکان کا نتیجہ تھا کہ برتھ پر لیٹتے ہی سو گیا۔ آنکھ کھلی تو ساہیوال کے قریب پہنچ چکے تھے۔ قراقرم ایکسپریس ’گرین ایکسپریس‘ جیسی شاندار نہ تھی لیکن فرسٹ کلاس برا تجربہ نہیں۔ لاہور تک ٹرین شائد پانچ دفعہ مختلف اسٹیشنوں پر رکی۔

لاہور واپسی پر میں نے اپنے فیس بک پر سندھ کی تصاویر پوسٹ کرنا شروع کیں تو کئی پنجابی دوستوں نے، شائد از راہ مذاق، مشورہ دیا کہ ’کچے کے علاقے‘ کی طرف مت جانا۔

ریاستی (مین اسٹریم میڈیابھی اس کا ایک حصہ ہے) پراپیگنڈے کا نتیجہ ہے کہ پنجاب کے مرکز میں بیٹھ کر سندھ بارے علم ’کچے کے علاقے‘ تک محدود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنی جگہیں میں نے گھومیں، ان سب جگہوں کی سیر کرنے سے بھی مطالعہ پاکستان کی پٹی آنکھوں پر باندھے الباکستانیوں کو سندھ میں کچے کے علاقے کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ سندھ کو دیکھنے کے لئے احمد سلیم کی نظر چاہئے۔ منڈی بہاؤل دین میں پیدا ہونے والے اس ترقی پسند پنجابی نے، اپنی جوانی کے سالوں میں، سندھ میں ڈیرا لگا لیا۔ سندھی زبان سیکھی۔ شیخ ایاز کو ترجمہ کیا۔ سندھی ادب کے دیگر شہ پاروں کا ترجمہ کیا۔ سکھر، حیدر آباد، تھر پارکر، سب جگہ کسی نہ کسی کے منہ سے احمد سلیم کا ذکر سنا۔

اگر احمد سلیم کی آنکھوں سے سندھ کو دیکھو تو سندھ باغیوں کا صوفیانہ عشق ہے۔ ابن وہاب سے متاثر یہ ریاست باغیوں سے، انقلابی صوفیوں سے ڈرتی ہے۔ ریاست نہیں چاہتی کہ لاہور میں شیخ ایاز کو پڑھا جائے۔

(اختتام)

سکھر اور سچل سرمست درگاہ کی تصویری جھلکیاں

ارور یونیورسٹی


ارور پہاڑی


سادھ بیلو

ستی جو آستان (سیون سسٹرز گریو یارڈ)

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔