خبریں/تبصرے

پنجاب کانسٹیبلری طلب کرنے کا فیصلہ واپس، انتقامی کارروائیاں بند کی جائیں: این ایس ایف/پی آر ایف

راولاکوٹ (نامہ نگار) پیپلز ریولوشنری فرنٹ (پی آر ایف) اور جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (جے کے این ایس ایف) نے مشترکہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب کانسٹیبلری (پی سی) طلب کئے جانے کا فیصلہ فوری طور پر واپس لیا جائے، سرکاری ملازمین کے خلاف انتقامی کاررائیاں بند کی جائے اور آزادی اظہارپر پابندیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔

صارفین نے گزشتہ دو سال کے عرصہ سے بجلی بلوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، بائیکاٹ کئے گئے تمام بجلی بل معاف کئے جائیں اور شہریوں کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ 2 روپے 59 پیسے میں خریدی جانے والی بجلی سروس چارجز شامل کر کے شہریوں کو سستے داموں فراہم کی جائے اور تمام ٹیکسوں کا بجلی بلوں سے خاتمہ کیا جائے۔

اس خطہ میں تعمیر ہونے والی بجلی منصوبہ جات کی ملکیت اس خطے کے عوام کو فراہم کی جائے۔ پر امن احتجاج کے حق کو تسلیم کیا جائے اور خوف و ہراس پھیلانے، سیاسی کارکنوں کی پروفائلنگ اور تشدد کی کسی بھی کوشش کو فوری طور پر ترک کیا جائے۔ سیاحتی اور جنگلات کی اراضی اور انفراسٹرکچر عسکری کمپنی ’گرین ٹورازم‘ کے حوالے کئے جانے کا فیصلہ فوری طور پر واپس لیا جائے۔ سیاحتی مقامات پر رہنے والے شہریوں کے اشتراک سے سیاحتی انفراسٹرکچر کو بہتر کیا جائے اور خود کفیل سیاحتی صنعت کے فروغ کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔

یہ مطالبات پی آر ایف اور این ایس ایف کے مشترکہ اجلاس منعقدہ مرکزی سیکرٹریٹ راولاکوٹ میں کئے گئے۔ اس اجلاس کی صدارت پی آر ایف کے مرکزی آرگنائزر راشد شیخ نے کی۔ اجلاس سے راشد شیخ کے علاوہ مرکزی سیکرٹری جنرل پی آر ایف ابرار لطیف، چیئرمین جے کے این ایس ایف ضلع پونچھ مجیب خان، رہنما پی آر ایف حلیم ساجد، فاروق خان، بشارت علی خان، تنویر انور، داؤد حسرت، عاصم اختر، شہزاد اسماعیل، صابیہ اختر، این ایس ایف کے عہدیداران بدر رفیق، انعم اختر، سیف اللہ، نعیم خان، علیزہ اسلم، مریم شعیب اور دیگر نے خطاب کیا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اگر پی سی کو یہاں بلانے کا فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو سخت مزاحمت کی جائے گی اور کسی صورت پی سی کو اس خطے میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ماضی میں پی سی کی احتجاج کو کچلنے کیلئے آمد کی تلخ یادیں آج بھی برقرار ہیں۔ یہ ماضی کی طرح کا سامراجی حملہ ہے، جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ملازمین کو حقوق کی بات کرنے پر ملازمتوں سے برطرف کرنے کا غیر آئینی اور غیر جمہوری فیصلہ اور برطرفیوں کا سلسلہ فوری ختم کیا جائے۔ بنیادی انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھانا ہر شہری کا بنیادی آئینی اور جمہوری حق ہے، خوراک، بجلی اور بہترسہولیات مانگنے کے جرم میں ملازمتوں سے برطرفی آمرانہ اقدام ہے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ دو سال سے زائد عرصہ سے اس خطے کے شہری احتجاجاً بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ حکومت مطالبات منظور کرنے کی بجائے جبر کے ذریعے احتجاج کچلنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ جعلی اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ فوری طور پر سابقہ بجلی کے تمام بل معاف کئے جائیں اور 2 روپے 59 پیسے میں خریدی جانے والی بجلی سروس چارجز شامل کر کے صارفین کو سستے داموں فراہم کی جائے اور تمام طرح کے ظالمانہ ٹیکسوں کا فوری خاتمہ کیا جائے۔

وزیر اعظم خود کہتے ہیں کہ بجلی 2 روپے 59 پیسے میں خریدی جا رہی ہے، پھر 40 سے 50 روپے فی یونٹ تک بشمول ٹیکسز شہریوں کو بیچنے کا کیا جواز ہے۔ یہ ظلم اور جبر ختم کیا جانا چاہیے۔ اس خطے میں تعمیر ہونے والے توانائی کے منصوبے اس خطے کے وسائل پر تعمیر کئے گئے ہیں اس لئے یہ اس خطے کے لوگوں کا حق ہے کہ ان کی ملکیت اس خطے کے لوگوں کے پاس ہو۔ اس لئے تمام منصوبہ جات کی ملکیت جموں کشمیر کے شہریوں کو فراہم کی جائے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ جنگلات اور سیاحت کی اراضی اور انفراسٹرکچر ایک عسکری کمپنی کو فراہم کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ جی او سی مری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لوگ اجلاسوں میں بیٹھ کر من پسند قانون سازی اور معاہدے بنوا رہے ہیں اور اس خطے کی سیاحتی اراضی اور انفراسٹرکچر پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، جسے کسی صورت تسلیمی نہیں کیا جائے گا۔ سیاحتی مقامات ان علاقوں میں رہنے والے شہریوں کی مشترکہ ملکیت ہیں۔ اس خطے کے لوگوں کو آسان قرضے فراہم کرتے ہوئے سیاحتی انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے منصوبے ڈیزائن کئے جائیں، تاکہ خود کفیل سیاحتی صنعت کو پروان چڑھایا جا سکے۔ اگر سیاحتی اراضی فوجی کمپنی کے حوالے کی گئی تو سخت احتجاج کیا جائے گا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts