نقطہ نظر

خود غرضی، نرگسیت اپنی ذات سے نفرت کا اظہار ہوتے ہیں: ایرک فرام

ایرک فرام

خود غرضی خود سے محبت کرنے کا نام نہیں۔ دراصل خود غرضی اور خود سے محبت ایک دوسرے کا متضاد ہیں۔ خود غرضی لالچ کی ایک قسم ہے۔ ہر قسم کے لالچ کی طرح، خود غرضی کا پیٹ بھی نہیں بھرتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خود غرضی کے نتیجے میں کبھی بھی اطمینان نہیں ملتا۔ لالچ وہ کھائی ہے، جس کا کوئی پیندا نہیں اور جو اس میں گرتا ہے وہ ضرورت پورا کرنے میں مسلسل سرگرداں رہتا ہے، مگر اسے اطمینان نہیں ملتا۔ غور سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ خود غرض انسان ہر وقت اپنے ہی بارے میں فکر مند رہتا ہے، کبھی مطمئن نہیں ہوتا، اسے مسلسل یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اسے حاصل ہونے والا مال ناکافی ہے، اسے کسی نہ کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی رہتی ہے، اسے کوئی نہ کوئی احساس محرومی لاحق رہتا ہے۔ اگر کسی کے پاس اس سے زیادہ ہو تو وہ حسد کی شدید آگ میں جلنے لگتا ہے۔ اگر ہم مزید غور سے دیکھیں، بالخصوص لاشعوری حرکیات کا مشاہدہ کریں، تو ہمیں پتہ چلے گا کہ خود غرض خود سے محبت نہیں کرتا۔ الٹ اسے اپنی ذات شدید ناپسند ہے۔

اس بظاہر تضاد پر مبنی پہیلی کا جواب ڈھونڈنا مشکل نہیں۔ خود غرضی کی جڑ درحقیقت اپنی ذات سے ناپسندیدگی ہے۔ ایک شخص جو خود کو پسند نہیں کرتا، جو خود کو ہی قبول نہیں کرتا، وہ مسلسل اپنی ہی ذات کے ساتھ تناؤ کا شکار رہے۔ اس کے اندر وہ اندرونی تحفظ موجود نہیں جو خود سے حقیقی پیار اور اپنی ذات سے ہم آہنگی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ خود غرض شخص کو اپنی فکر لگی ہوگی، وہ ہر چیز ہتھیانا چاہتا ہے، کیونکہ بنیادی طور پر وہ عدم تحفظ کا بھی شکار ہے اور عدم اطمینان کا بھی۔ نام نہاد نرگسیت کا شکار شخص بارے بھی یہی کہا جا سکتا ہے جو چیزیں ہتھیانے کے مسلسل چکر میں تو نہیں پڑا مگر اسے ہر وقت اپنی تعریف سننا ہے۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ یہ ہر دو طرح کے لوگ خود سے محبت میں مبتلا ہیں، حقیقت میں وہ خود سے پیار نہیں کرتے۔ ان کی نرگسیت۔۔خود غرضی کی طرح۔۔خود سے عدم محبت کا زائد مداوا ہوتا ہے۔ فرائیڈ نے نشاندہی کی ہے کہ نرگسیت زدہ شخص دوسروں سے محبت واپس لے کر محبت کا رخ اپنی ذات کی طرف موڑ دیتا ہے۔ فرائیڈ کے بیان کا پہلا حصہ درست مگر دوسرا غلط ہے۔ اسے خود سے پیار ہے نہ دوسروں سے۔

(ترجمہ: فاروق سلہریا۔ ایرک فراہم کی کتاب ”دی فیئر آف فریڈم“ سے اقتباس)

Roznama Jeddojehad
+ posts