فاروق سلہریا
لگ بھگ چالیس سال سے پاکستان میں بایاں بازو کوئی متبادل پیش نہیں کر سکا۔ یہ درست ہے کہ بایاں بازو اس قدر مارجنل(marginal) نہیں جتنا نوے کی دہائی میں تھا۔ سویت روس کے انہدام کے بعد پاکستان میں بایاں بازو بکھر کر رہ گیا۔ افغان حالات کا بھی گہرا اثر ہوا۔
دریں اثنا،گذشتہ دس پندرہ سال میں بائیں بازو نے کسی حد تک اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔ نہ صرف ملک بھرکی یونیورسٹیوں میں طلبہ سیاست میں بائیں بازو کے گروہ متحرک ہیں، بعض کارکن ملک بھر میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک میں کوئی بڑا ابھار دیکھنے میں نہیں آیا لیکن کئی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں بائیں بازو کی قیادت میں لڑی گئی ہیں۔علی وزیر کی شکل میں بایاں بازو وفاقی پارلیمنٹ تک بھی پہنچا۔ بائیں بازو کے نظریات میں پہلے کی نسبت نوجوان طبقے کی دلچسپی بڑھی ہے۔ دانشور طبقے میں بھی ایسے افراد نظر آتے ہیں جو مارکس وادی نظریات سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔
ان تمام حوصلہ افزا تبدیلیوں کے باوجود یہ بات بہر حال طے ہے کہ اندریں حالات بایاں بازو قومی سطح کا متبادل تو کیا،علاقائی سطح پر بھی کوئی قابل قدر متبادل فراہم نہیں کر سکا۔
بائیں بازو کی اس صورت حال پر بائیں بازو کے مخالف دو طرح کے تبصرے کرتے ہیں۔ ایک حلقہ یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی سوشلسٹ نظریات کو مقبولیت نہیں مل سکتی۔ دوسرا حلقہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ پاکستان میں سوشلسٹ ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔
یہ دونوں تجزئے سراسر حقائق کے منافی ہیں۔
سوشلزم پاکستان کا سب سے مقبول نظریہ رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب 1970 میں ملک میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے تو ملک کی تین سب سے بڑی سیاسی جماعتیں سوشلسٹ کہلاتی تھیں۔عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں ایک کے علاوہ تمام نشستیں جیت لیں۔ عوامی لیگ کے منشور میں سوشلزم کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ بات کم ہی بتائی جاتی ہے کہ جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو اس نئی ریاست کا آئین چار ستونوں پر ستوار کیا گیا: جمہوریت، قوم پرستی، سیکولرزم اور سوشلزم۔
1970 کے انتخابات میں دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی تھی جس نے پنجاب اور سندھ میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ پیپلز پارٹی نے بھی اپنے منشور میں ’سوشلزم ہماری معیشیت ہے‘ کا اعلان کر رکھا تھا۔
سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ)،ولی گروپ، نے اکثریت حاصل کی۔ گو اپنے منشور میں اس جماعت نے سوشلزم کا وعدہ نہیں کیا تھا لیکن یہ بھی حقیقیت ہے کہ نیپ عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی سے زیادہ لیفٹ ونگ تھی۔ پابندی کا شکار کیمونسٹ گروہ نیپ ولی کا حصہ تھے یا نیپ بھاشانی میں متحرک تھے۔
ایک اور بات جو چھپائی جاتی ہے وہ ہے مارچ 1959 کے انتخابات جو منعقد ہی نہیں ہو سکے۔ دراصل ان انتخابات میں نیپ کی جیت واضح تھی۔ نیپ کے منشور میں سیکولرزم، سامراج دشمنی اور قومی مسئلے کے حل کے علاوہ آزادانہ خارجہ پالیسی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کی حامل نیپ کا راستہ روکنے کے لئے جنرل ایوب نے ملک میں آمریت مسلط کی۔ نصابی کتابوں میں مسلسل یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ سیاستدان ناکام ہو گئے تھے اس لئے فوج کو مارشل لا لگانا پڑا،یہ نہیں پڑھایا جاتا کہ الیکشن ہونے والے تھے جس میں بایاں بازو جیتنے والا تھا۔ فوج اور امریکہ،دونوں کو ایسے انتخابات قابل قبول نہ تھے۔ اس سے قبل،جب مشرقی پاکستان کی اسمبلی کا الیکشن ہو اتھا تو دو درجن کیمونسٹ الیکشن جیت گئے تھے۔
گویا پاکستان کے ابتدائی تیس سال تک، سوشلزم کامیاب ترین انتخابی نعرہ رہا۔
اسی طرح، بایاں بازو طلبہ یونین کے انتخابات بھی بھاری اکثریت سے جیتتا رہا۔ 1984 میں جب جنرل ضیا الحق نے طلبہ یونین پر پابندی لگائی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ کراچی سے لے کر پشاور تک،کوئٹہ سے لے کر راولپنڈی تک، اکثر کالجز اور جامعات میں مارکس وادی طلبہ تنظیمیں اور ان کے حامی حسب معمول انتخابات جیت گئے تھے۔
یہی حال ٹریڈ یونین کے ریفرنڈمز کا تھا۔ ملک بھر میں جہاں بھی ریفرنڈم ہوتے، اکثر اوقات بائیں بازو کی قیادت میں منظم تنظیمیں ریفرنڈم جیت جاتیں۔ ریلوے جیسے محکمے سے لے کر (جہاں لاکھوں مزدور ووٹ ڈالتے) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایش جیسی پروفیشنل تنظیموں تک، بائیں بازو کے کارکن کامیاب ہوتے۔ مزدور رہنما مرزا ابراہیم سے لے کر وکلا برادری کے رہنما عابد حسن منٹو کا نام پورے ملک میں گونجتا۔کسان تنظیموں کی قیادت بھی بائیں بازو کے ہاتھ میں تھی۔ کسان تحریک کا پاکستانی تاریخ میں سب سے بڑا اظہار ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کسان کانفرنس تھی۔1970 میں ہونے والی اس کسان کانفرنس میں ایک ملین کسان شامل ہوئے۔پاکستان میں ابھی ملین مارچ کا لفظ بھی رائج نہیں ہوا تھا۔
ملک کے سب سے بڑے اخبارات پاکستان ٹائمز، امروز، اور لیل ونہار بائیں بازو کے پبلشنگ ہاوس ’پروگریسو پیپرز لمیٹڈ‘ کے زیر اہتمام،فیض احمد فیض کی ادارت میں شائع ہوتے۔
فیض احمد فیض سے لے کر حبیب جالب تک، ملک کے معروف ترین شاعر اور دانشور مارکس وادی تھے۔ صحافی اور ادیب ہونے کا عام طور پرمطلب تھا کہ آپ سوشلسٹ بھی ہیں۔گویا دانشور طبقے میں سوشلسٹ نظریات مکمل غلبہ رکھتے تھے۔
یہ حقائق نہ کبھی مطالعہ پاکستان میں پڑھائے جائیں گے نہ کبھی سرمایہ دار میڈیا ان کا ذکر کرے گا۔ یہ حقائق اس جھوٹی تاریخ کی نفی کرتے ہیں جو نصابی کتابوں، میڈیا، اکیڈیمیا،مولوی کا مدرسہ۔۔۔کوئی بھی نہیں بتائے گا۔
یہ وہ تاریخ ہے جس کا علم ضروری ہے تا کہ ملک میں ایک مرتبہ پھر سوشلزم کی جدوجہد کو تیز کیا جا سکے کیونکہ اس تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک کے لوگوں کی عادات، روایات،عقائد، ڈی این اے وغیرہ میں کچھ بھی ایسا نہیں جو انہیں سوشلزم کی جدوجہد سے روکے جیسا کہ لبرل اور جماعت اسلامی والے بتاتے رہتے ہیں۔
سوشلزم پاکستان کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ سوشلزم ہی اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ اور کسی ملک کا تو معلوم نہیں لیکن پاکستان کی حد تک یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے: سوشلزم یا بربریت!
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔