تاریخ

دینا ناتھ کا کنواں

طلحہ شفیق

یہ کنواں چوک مسجد وزیر خان میں واقع ہے۔

اس کنویں کے معمار راجہ دینا ناتھ تھے۔ دیوان دینا ناتھ لاہور سے جڑے ان معروف کرداروں میں سے ایک ہے جو سکھ راج میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ دینا ناتھ کشمیری پنڈت بخت مل کے بیٹا تھے۔ اوائل میں دہلی میں مقیم رہے۔ بعدازاں 1810ء میں دیوان گنگارام کی سفارش پر شعبہ فوج میں بطور ‘مستعد’ (لکھاری) پہلی تقرری ہوئی۔1822ء میں دیوان گنگارام کی وفات پر دینا ناتھ کو مہر خاص سپرد کی گئی۔1834ء میں سول اور شعبہ مالیات کے بھی منتظم مقرر ہوئے۔1838ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی جانب سے خطابِ دیوانی ملا۔ دینا ناتھ کافی دور اندیش واقع ہوئے تھے۔ تخت نشینی کی جنگ میں انہوں نے بجائے کسی ایک کاساتھ دینے کے سب سے تعلقات بنائے رکھے۔ مہاراجہ کھڑک سنگھ سے مہاراجہ دلیپ سنگھ کی معزولی تک تمام ادوار میں کئی ایک انقلاب رونما ہوئے مگر یہ اپنے منصب پر قائم رہے۔ انگریزوں کی جانب سے مہاراجہ دلیپ سنگھ کی کونسل آف ریجنسی کا رکن بھی نامزد کیا گیا۔ نیز نومبر1847ء میں دیوان دینا ناتھ کو راجہ کلانور کا منصب بھی عنایت ہوا۔

سر لیپل گریفن نے دینا ناتھ کا مفصل تذکرہ اپنی کتاب ‘‘رئیسان پنجاب’’میں کیا ہے جس اس کی شخصیت کے متعلق کافی کچھ جاننے کو ملتا ہے۔ سر گریفن لکھتے ہیں‘‘سلطنت سکھاں کے پچھلے زمانہ میں جن لوگوں کو اقتدار حاصل ہوا اُن میں سب سے زیادہ مشہور آدمی راجہ دینا ناتھ تھا۔ ان کی نسبت لقب ‘ٹیلی رینڈ’ پنجاب کا خوب موزوں کیا گیا ہے۔۔۔ان کی زیرکی اور دور اندیشی ایسی تھی کہ جب اور لوگوں کی نظروں میں مطلع امور مملکت صاف نظر آتا تھا ان کو طوفان آنے کی علامات معلوم ہوجاتی تھیں۔ اس کو اپنے ملک سے محبت تھی مگر محبت نفس،محبت ملک کے تابع تھی۔ ان کو انگریزوں سے سخت قلبی نفرت اور عداوت تھی۔ اپنے ڈھنگ پر دینا ناتھ کو وفاداری بھی آتی تھی۔ راجہ دینا ناتھ پکا دنیا کا آدمی تھا اور مزاج کا شائستہ اور تہذیب اس کی اچھی تھی۔ انگریزوں کے ساتھ گفتگو میں دلیری سے اور ظاہری صفائی سے تقریر کرتے۔ راجہ دینا ناتھ کا خاندان ابتدا ء میں کشمیر سے آیا،شاہ جہان کی سلطنت کے زمانے میں بعض اشخاص اس خاندان کے دربار میں ملازم تھے۔ دینا ناتھ کو ،جس کا باپ دہلی میں ایک چھوٹے عہدہ پر ملازم تھا،1815ء میں دیوان گنگارام نے لاہور طلب کیا،یہ مہاراجہ کی حکومت میں سر دفتر تھا۔ دینا ناتھ کو بھی یہیں ملازم کیا گیا اور اس نے اپنے فہم اور کار گزار کے سبب فروغ پایا۔ اول رنجیت سنگھ کو اس کی طرف 1818ء بعد تسخیر ملتان کے توجہ ہوئی۔ رنجیت سنگھ کو دینا ناتھ کی عقل پر نہایت اعتبار تھا اور مہاراجہ کی حیات کے پچھلے دنوں میں اس کو بہت اقتدار حاصل تھا۔ ہر معاملہِ عظیم میں اس سے مشورہ کیا جاتا اور اضلاع امرتسر،دنیانگر و قصور میں اس کو1900 روپیہ کی جاگیریں ملیں۔’’

دیوان دینا ناتھ کا فروری1857ء میں لاہور میں جنگ سے ذرا پہلے انتقال ہوا۔ آپ کی آخری رسومات بیرون موری دروازہ ادا کی گئیں۔ دینا ناتھ کی سکھ راج کے لیے خدمات پر عبدالمجید شیخ صاحب نے بھی ایک مضمون لکھا ہے۔ شیخ صاحب کے بقول لاہور میں کنجوس شخص کو لوگ ‘‘دینا ناتھ برہمن’’کہتے تھے۔ شیخ صاحب نے دینا ناتھ سے منسوب ایک مقولہ بھی درج کیا ہے جو کہ کچھ یوں ہے ‘‘طمع مدام بڑھتی رہتی ہے حتیٰ کہ طاقتور ترین شخص کو زوال آجاتا ہے۔ اس لیے لالچ کو لگام دو اور سادگی کی شانتی کے مزے اڑاؤ۔’’ جبکہ مفتی غلام سرور‘تاریخ محزن پنجاب’میں راجہ دینا ناتھ کے متعلق کہتے ہیں ‘‘ان کی سخاوت و مروت و قدربانی کا شہرہ تمام زمانہ میں ہے۔’’

دینا ناتھ کا کنواں کافی مشہور تھا۔ تانیا قریشی نے اپنے ایک مضمون میں اس کنویں سے متعلق ایک دلچسپ قصہ لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ‘‘ دینا ناتھ،پیر سید صوف کے کنویں کے پاس ایک کنواں بنوانا چاہتا تھا۔ چونکہ دینا ناتھ یہ کنواں سید صوف کے کنویں کے مقابلے میں بنوا رہا تھا تو اس پر مقامی مسلم آبادی نے کافی احتجاج کیا۔ مگر دینا ناتھ نے مسلمانوں کے اعتراضات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام جاری رکھا۔ البتہ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ مزدوروں نے کنویں کے لیے کھدائی تو بہت کی مگر پھر بھی پانی نہ نکلا اور آخرکار انہوں نے ہار مان لی اور یہ کنواں ہمیشہ خشک ہی رہا۔’’ اس کنویں کا ذکر دیگر کئی مورخین نے بھی کیا ہے، مگر ایسی کوئی روایت ان کتب میں کہیں پڑھنے کو ملتی۔ نیز سید صوف کے تذکرہ نگاروں نے بھی یہ روایت درج نہیں کی۔ پھر ایسی شہادتیں موجود ہیں کہ یہ کنواں فعال رہا ہے۔ مثلاً سید لطیف نے درج کیا ہے کہ‘‘(چاہ دینا ناتھ) پینے کے پانی کا کنواں ہے جسے لوگوں کی کثیر تعداد استعمال کرتی ہے۔’’ حتیٰ کہ یہ کنواں عرصہ دراز تک استعمال ہوتا رہا ہے ،جیسے کہ مدثر بشیر صاحب نے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ‘‘یہ کنواں1980ء کی دہائی تک پانی کی ترسیل کے لئے استعمال ہوتا رہا ۔اس کے بعد یہ برسہا برس چوکیدار کی رہائش گاہ بنا رہا۔’’ ایسے میں تانیا قریشی کی بیان کردہ روایت حیران کن ہے۔ البتہ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اس کنویں کی تعمیر کو نامناسب کہا کرتے تھے، کیونکہ ان کے بقول اس سے مسجد وزیر خان تک پہنچنے میں مشکل ہوتی ہے اور پھر یوں چوک میں اس کی موجودگی غیر موزوں ہے۔

اس کنویں کے حوالے سے قدیم ترین بیان مولوی نور احمد چشتی کا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ‘‘مقبرہ (سید صوف)کے شمال کی طرف ایک چاہ راجہ دینا ناتھ صاحب ہے۔ اس پر بھی گنبد پہاڑی دار ظاہراً ہم شکل مقبرہ ہے۔ گنبد اس چاہ کا سفید ہشت پہلو ہے۔ چاروں طرف چار در محرابی ہیں۔ گوشہ ککنی میں باہر ایک چوبچہ (ہے)۔ تین زینہ چڑھ کے زیر کند چاہ چرخی دار ہے۔ وہاں سے صرف ہندو لوگ پانی بھرتے ہیں۔’’ سید لطیف نے کنویں کی جنوبی دیورا پر نصب ایک تختی کا بھی تذکرہ کیا ہے جس پر مندرجہ درج ذیل عبارت درج تھی: ‘‘(ترجمہ)راجہ دینا ناتھ،راجہ کلانور نے صاحب بہادر میجر میکریگر صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع لاہور کے مشورہ سے یہ کنواں 1908 سمت بمطابق1851ء تعمیر کرایا۔’’ لاہور گزٹئیر1883ء میں اس کنویں کی1880ء کی ایک تصویر شائع کی گئی تھی۔ اس تصویر میں کنویں کے ارد گرد کوئی تعمیرات نظر نہیں آتیں۔ مگر آہستہ آہستہ اس کے گرد کافی کچھ تعمیر ہو گیا۔ تقسیم ہند کے بعد یہ کنواں کچھ عرصہ تک ویران رہا پھر کہا جاتا ہے کہ یہاں دکانیں بنا دی گئی تھیں۔

دینا ناتھ کی لاہور میں اور بھی کئی عمارتیں تھیں۔ کہنیالال نے دینا ناتھ کی دو حویلیوں کے علاوہ ان کے بنوائے ہوئے شوالے کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ جن میں سے ایک شوالہ کوتوالی کے پاس بنوایا گیا تھا ،جبکہ دوسرا مسجد وزیر خان کے قریب کہیں واقع تھا۔ نیز نقوش ‘لاہور نمبر’ میں دینا ناتھ کے ایک وسیع باغ کا بھی ذکر ہے۔ لیکن اب یا تو صرف ان کا بنوایا یہ کنواں موجود ہے یا فقط ان کی ایک حویلی کے کچھ آثار باقی ہیں۔ اس کنویں میں بھی کافی عرصہ دکان رہنے کی وجہ سے اس کی عمارت کو کافی نقصان پہنچا۔ کنویں کی بحالی کا کام کچھ سال قبل ہی مکمل ہوا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ یہاں اس حوالے سے متعلق ایک معلوماتی تختی لگانے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ اس کنویں کی تزئین و آرائش دراصل آغا خان ٹرسٹ فار کلچر پاکستان اور یو ایس مشن پاکستان کے اس پراجیکٹ کا حصہ تھی جس کے تحت دہلی دروازے کو بحال کرنے منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس منصوبے کے دوران یہاں موجود کئی ایک تجاوزات کو ختم کیا گیا تھا، مگر آہستہ آہستہ دوبارہ یہاں تجاوزات شروع ہوگئی ہیں۔ والڈ سٹی اتھارٹی سے التماس ہے کہ محنت سے بحال کیے گے اس اثاثہ کو آگے بھی سنبھال رکھنے کا بندوست کریں۔ یعنی اس کو دوبارہ برباد ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ ساتھ ہی اہلیان لاہور و لاہور کی سیر کو آنے والے سیاح حضرات سے گزارش ہے کہ وہ بحال کی گئی ان عمارات پر ضرور جائیں۔ یقینا ان جگہوں کا حسن انہیں متاثر کرے گا اور یوں یہ جگہیں بھی آباد رہیں گئیں۔

طلحہ شفیق اس وقت جی سی یونیورسٹی لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ گلبول اسٹڈیز میں ایم فل اسکالر ہیں۔ آپ گزشتہ کئی برس سے لاہور کے مختلف تاریخی، ثقافتی و سماجی پہلوؤں پر فیچر آرٹیکلز لکھ رہے ہیں۔ آپ کے تحقیق کے موضوعات میں لاہور بطور خاص، مغل تاریخ و نوآبادیاتی دور شامل ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts