پاکستان

پاکستانی آرمی چیف عاصم منیر کا آئی ایس آئی کی بجائے ایم آئی پر بڑھتا انحصار

عائشہ صدیقہ

پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے حال ہی میں لیفٹینٹ جنرل عاصم ملک کو ملک کی اعلیٰ ترین خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو آہستہ سے باہر کر دیا گیا، کیونکہ باس کے پاس انہیں مزید رکھنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ 2024 کے انتخابات کو منظم کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کرنے اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دبانے سے لے کر ابتدائی طور پر عدلیہ کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے آئینی ترمیم کو ’مس ہینڈل‘کرنے تک ندیم انجم،عاصم منیر کے لیے قابل اطمینان کارکردگی نہیں دکھا سکے۔

عاصم منیر معیشت کو فعال کرنے اور اعلیٰ عدلیہ کو لگام دینے میں مصروف ہیں۔ تاہم ضروری نہیں کہ وہ نئے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کو یہ زیادہ اہم کام سونپ دیں۔ فوج کے ذرائع کا خیال ہے کہ عاصم منیر آئی ایس آئی سے بہتر کنٹرول والی ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) پر انحصار بڑھا رہے ہیں۔ سطحی طور پر یہ اہمیت میں تبدیلی معنی خیز ہے کیونکہ عاصم ملک کی مدت کار مختصر ہوسکتی ہے۔ صحافی وجاہت سعید خان کے مطابق عاصم ملک نومبر 2025 میں آرمی چیف سے پہلے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ تاہم کچھ دوسرے صحافیوں کا ماننا ہے کہ ان کی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں توسیع مل سکتی ہے۔ وہ آرمی چیف کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں کیونکہ وہ اس عہدے کے لیے کبھی بھی دوڑ میں شامل نہیں ہوں گے۔ عاصم ملک نے کسی کور کو کمانڈ نہیں کیا، اس لیے وہ ان افسران کی فہرست کے لیے اہل نہیں ہیں جن پر اگلے سال غور کیا جائے گا۔

جیسا کہ میں نے فوج کے اندر ذرائع سے بات کی تصدیق کی، بظاہر عاصم ملک نے 9 مئی کے بعد کور کمانڈر لاہور کا عہدہ لینے سے انکار کر دیا تھاکیونکہ وہ کور کمانڈر راولپنڈی کی نوکری چاہتے تھے،جہاں ان کے والد لیفٹیننٹ جنرل جی ایم ملک خدمات انجام دیتے تھے۔ اس کی بجائے وہ جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) میں ایڈجوٹینٹ جنرل (AG) کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ اس دوران وہ سروس میں صفائیاں انجام دینے اور عاصم منیر کو فوج میں افسروں کی حمایت دلانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔

عاصم ملک کہاں مفید ہونگے؟

آئی ایس آئی کے سربراہ کی بنیادی توجہ جاسوسی ایجنسی کو نظم و ضبط پر مرکوز کرنا ہوگی، جو عمران خان، افغانستان اورتحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے اہم مسائل پر منقسم اور مشکلات میں گھری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک ’بلیو بلڈڈ‘ آرمی آفیسر ہیں (تھرڈ جنریشن آرمی آفیسر اور تھری اسٹار جنرل کا بیٹا) جس کاضروری نہیں کہ کوئی فائدہ ہو۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بعد فوج کا کلچر بتدریج تبدیل ہوا، انہوں نے نان کمیشنڈ اور جونیئر کمیشنڈ افسران کے بیٹوں کو لایا اور انہیں ترجیح دی۔ جی ایچ کیو میں اور بھی لوگ ہوں گے جو عاصم ملک کی نسلی حیثیت سے متاثر نہیں ہوں گے۔

بہر حال عاصم ملک کے سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہونے کا امکان ہے، کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو انہوں نے گھر پر سیکھی ہے۔ جی ایم ملک اس وقت کور کمانڈر راولپنڈی تھے جب اس وقت کے آرمی چیف وحید کاکڑ نے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یہ 1990 کی دہائی تھی، آرمی چیف، صدر اور وزیراعظم کے ٹرائیکا کی حکمرانی مشہور تھی۔بڑے ملک پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے رہنما کو بوٹ دینے کے ذمہ دار تھے۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، آئی ایس آئی کے نئے سربراہ 9 مئی کے بعد عاصم منیر کے ساتھ کھڑے تھے نہ کہ فوج میں عمران خان کے حامی دھڑے کے ساتھ۔ یہ وہ سبق ہو سکتا ہے جو انہوں نے اپنے والد سے سیکھا تھا، یعنی باس کے ساتھ کھڑا ہونا اور سروس کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا۔ عاصم ملک کے والد نے اس نظام کو اپنے بیٹے کے فائدے کے لیے استعمال کیا۔

پاکستان ملٹری اکیڈمی(پی ایم اے) میں دوران تربیت عاصم ملک سے شناسائی رکھنے والے جن لوگوں سے بات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ کس طرح تربیتی انسٹرکٹرز اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ اکیڈمی کے کیڈٹ نوجوان عاصم ملک ہر شعبہ میں کامیاب رہیں، کیونکہ اس وقت ان کے والد کمانڈنٹ تھے۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ انہیں ’اعزازی تلوار‘ بھی ملی، جس نے انہیں فوجی کیریئر میں ’ہیڈ سٹارٹ‘ مہیا کیا۔ ان کے والد کے تعاون نے یقینی طور پر ان کی ادارہ جاتی سڑھیوں پر مسلسل اوپر چڑھنے اور رائل کالج آف ڈیفنس اسٹڈیز برطانیہ اور فورٹ لیون ورتھ امریکہ میں تربیت کے لیے جانے میں مدد کی۔ بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے پاک امریکہ تعلقات پر ایک مقالہ لکھتے ہوئے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔

عاصم ملک کے مغربی فوجیوں کے ساتھ روابط اور امریکہ پر توجہ کی وجہ سے ضروری نہیں کہ وہ سماجی طور پر غیر معمولی ترقی پسند ہوں،یا واشنگٹن کی فوج کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے ایک اہم شخصیت بن سکیں۔ مغرب میں گزرے برسوں میں شاید وہ اپنے والد سے تربیت حاصل کرتے رہے،جو ایک ملا تھے، جن کی داڑھی ان کے چہرے کی بجائے ان کے پیٹ کے اندر تھی۔ بوڑھے ملک نے کیڈٹس اور چھوٹے افسروں کو نماز پڑھنے پر مجبور کرتے اور اگر کسی کی کوئی نماز رہ جاتی تو اس کے نمبر کاٹے جاتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے سسر لیفٹیننٹ جنرل اعجاز امجد کو بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنا احمدیہ عقیدہ ترک کر دیں اور عقیدہ تبدیل کرنے کی صورت اپنی اہلیہ کے ساتھ دوبارہ نکاح کر لیں۔ نوازشریف کے میرے ساتھ گفتگو کے دوران کیے گئے اعتراف کے مطابق بعد میں لیفٹیننٹ جنرل اعجاز امجد نے ہی ان سے درخواست کی کہ وہ انکے داماد قمر جاوید کو آرمی چیف کے عہدے کے لیے منتخب کریں۔

اس کا مطلب یقینی طور پر یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے نئے سربراہ آرمی چیف کی سماجی، ثقافتی، سیاسی اور تنظیمی قدامت پسندی کے ساتھ اچھی طرح آگے چل سکیں گے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ پاک بھارت تعلقات پر بھی قدامت پسندی کے راستے پر ہی قائم رہیں گے۔ یہ پالیسی اس سے مختلف ہے جو جنرل باجوہ متعارف کروانا چاہتے تھے۔ درحقیقت امریکی فوج کے ساتھ ان کے روابط امریکیوں کو جہادی انفراسٹرکچر کی توسیع کے بارے میں کم بات کرنے پر تیار کرنے میں کارآمد ہو سکتے ہیں، خاص طور پر جیش محمد جیسی تنظیموں نے گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کے کچھ حصوں میں بھارت کے لیے ایسی صورتحال پیدا کر رکھی ہے، جسے فی الحال واشنگٹن نظر انداز کر رہا ہے۔

عدلیہ کو لگام ڈالنے کا مقصد

جنرل عاصم منیر یقینانہیں چاہیں گے کہ ان کا ونگ مین آئی ایس آئی کا سربراہ کوئی اور فیض حمید یا احمد شجاع پاشا ہو۔ وہ چاہیں گے کہ عاصم ملک ان کی باتوں کو غور سے سمجھیں، کیونکہ ان کا مقصد سیاسی ڈھانچے اور بین الادارہ جاتی توازن کو تبدیل کر کے فوج کے لیے زیادہ سازگار کرنا ہے۔ آرمی چیف موجودہ سیاسی نظام کو استعمال کرتے ہوئے عدلیہ کی طاقت کو کم کرنے پر بضد ہیں، وہ اسے اس مقام سے پہلی صورتحال پر لانے کے لیے مدد چاہتے ہیں، جہاں ججوں نے جنرل کیانی کے دور میں اپنی اہمیت اور طاقت کا احساس حاصل کیا تھا۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اس اثر و رسوخ کی وجہ سے مقبول اور طاقتور بن گئے جو انہوں نے فوج کے ان حصوں کے ساتھی ہونے کے ناطے حاصل کیا، جنہوں نے انہیں جنرل پرویز مشرف کو باہر دھکیلنے کے لیے استعمال کیا۔ حالیہ مہینوں میں سپریم کورٹ جی ایچ کیو کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوئی ہے، کیونکہ ججوں کا ایک گروپ آرمی چیف کے سیاسی منصوبوں سے اختلاف کا شکار نظر آتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اس کی مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ موجودہ سیاسی نظام اور فوجی قیادت دونوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ دونوں کھلاڑی اب ایک آئینی ترمیم متعارف کروا کر سپریم کورٹ کے اختیارات چھیننا چاہتے ہیں جس کا مقصد اعلیٰ ترین عدالت کو ماتحت ادارہ جاتی پوزیشن میں تبدیل کرنا ہے۔

فوج ایک آئینی عدالت بنانے اور موجودہ سپریم کورٹ کے کردار کو اپیلٹ کورٹ تک محدود کرنے کے لیے حکومت کی مدد کرنے میں کافی حد تک اٹل ہے۔ اس منصوبے کی حمایت کے لیے جو دلیل دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے سپریم کورٹ کے لیے آئینی مقدمات میں الجھاؤکے بغیر اپنے معمول کے کام کے بوجھ کو سنبھالنے کے لیے جگہ اور وقت دستیاب ہوگا۔ کئی ممالک جیسے آسٹریا، اٹلی، ہنگری، اور چند دیگر میں آئینی عدالت ہے۔

تاہم یہ مختلف کیسز ظاہر کرتے ہیں کہ ججوں کے انتخاب، ان کی مدت ملازمت اور ججوں کی تقرری کے اختیار کا ایسی عدالتوں کی آزادی پر اور نتیجتاً فیصلوں کے معیارپر اثر پڑتا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں ایک آمرانہ ملٹری سول پارٹنرشپ کے بطن سے پیدا ہونے والی آئینی عدالت سے زیادہ امید نہیں ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کو تقرری کا اختیار دیا جائے اور ضروری نہیں کہ سنیارٹی کے اصول کو استعمال کیا جائے۔ وزیراعظم کو کسی بھی صوبائی ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں کسی جج کی تقرری اور منتقلی کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔ بہر حال فائز عیسیٰ، جنہیں نئی آئینی عدالت کی سربراہی کے لیے پسندیدہ سمجھا جا رہا ہے، ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ ’کمپرومائزڈ‘جج کے طور پر ابھرے ہیں۔ فائز عیسیٰ عمران خان کے لیے اپنی ناپسندیدگی کی وجہ سے نہ صرف پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیے جائیں گے،بلکہ شاید عمران خان اور ان کی پارٹی دونوں پر پابندی لگائیں گے۔

اس سے معاشرے میں مزید مایوسی پھیلے گی، یہی وجہ ہے کہ عاصم منیر چاہتے ہیں کہ ایک قابل اور تعمیل کرنے والا آئی ایس آئی چیف ان کے ساتھ ہو۔

Ayesha Siddiqa
+ posts
عائشہ صدیقہ ایک آزاد اسکالر، مصنفہ اور کالم نگار ہیں جو جنوبی ایشیا اور اسلام کے عسکری امور اور سیاست میں مہارت رکھتی ہیں۔