مظفرآباد(حارث قدیر) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت کاحوصلہ عوامی رد عمل کے سامنے ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔ ایک سال میں دوسری بار عوامی احتجاج اپنے مطالبات منظور کروانے اور حکومت کو گھٹنوں پر لانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس کے نام سے جاری متنازعہ صدارتی آرڈیننس منسوخ کر دیا گیا ہے اور تمام قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
صدارتی آرڈیننس منسوخ کرنے اور گرفتاررہنماؤں کو رہا کرنے کے مطالبوں پر شروع ہونے والا احتجاج چند دیگر مطالبات منظور کروانے میں بھی کامیاب ہو گیا ہے۔
5دسمبر سے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا آغاز کیا۔ اس دوران حکومت کے ساتھ کمیٹی کے سربراہان کے مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا، تاہم حکومت صدارتی آرڈیننس واپس لینے پر رضامند نہیں ہو رہی تھی۔حکومت نے لاک ڈاؤن کا سلسلہ طویل ہونے کی صورت کمیٹی کے حوصلے توڑنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
تاہم کمیٹی کی قیادت نے 7دسمبر کو انٹری پوائنٹس بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ ایک بار پھر مذاکرات ہوئے جن کی ناکامی کے بعد ہفتہ کی شام دارالحکومت مظفرآباد کے دونوں داخلی راستوں کو ہزاروں مظاہرین نے بند کر کے دھرنے دے دیے۔ اس کے علاوہ پونچھ کے داخلی راستوں آزاد پتن اور ٹائیں ڈھلکوٹ کو بھی بند کر دیا گیا۔ میرپور ڈویژن میں ہولاڑ اور دھان گلی کے داخلے راستوں پر بھی ہزاروں مظاہرین نے ڈھیرے جما لیے تھے۔
داخلی راستے بند ہونے کی وجہ سے ریاست میں تمام کاروبار زندگی مکمل طور پر معطل ہو گیا تھا، جبکہ شٹر ڈاؤن کا سلسلہ بھی ساتھ ہی جاری رکھا گیا تھا۔
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کے آخری پہر بالآخر حکومت نے گھٹنے ٹیکنے کا اعلان کر دیا۔
متنازعہ صدارتی آرڈیننس سے صدارتی نوٹیفکیشن کے ذریعے حکومت نے دستبرداری اختیار کر لی۔ ساتھ ہی اتوار کی صبح کوٹلی اور راولاکوٹ میں موجود قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔ مظفرآباد میں ہفتے کی شام کو ہی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔
حکومتی وزراء کی ناکامی کے بعد بیوروکریٹوں کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں حکومت نے مظاہرین کی قیادت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ صدارتی آرڈیننس کی منسوخی، بجلی کے ٹیرف اور بلوں کی اقساط سمیت ایک سرکاری معلم کی نوکری پر بحالی کے نوٹیفکیشن بھی جاری کیے گئے۔
معاہدہ درج ذیل ہے:
1۔ 50ایف آئی آرز کے علاوہ باقی ایف آئی آرز تحت ضابطہ 90دن کے اندر ڈسپوزل کی جائیں گی۔
2۔ برطرف ملازم صہیب عارف کی بحالی اندر سات یوم ہوگی۔
3۔ اظہر شہید کے بھائی کی مستقل ملازمت اندر7ایام کی جائے گی۔
4۔ 4زخمیوں کو فی کس 10لاکھ روپے معاوضہ کی ادائیگی اندر 7یوم کی جائے گی۔
5۔ منگلا اپ ریزنگ کے دوران جو مکانات ڈیم کی حدود کے اندر آگئے ہیں، ان کے میٹر کنکشن ختم کر کے اندر ایک ماہ بلوں کو ختم کیا جائے گا۔
6۔ آزاد پتن ڈیم کی وجہ سے متاثرہ آزاد پتن تا سون سڑک کی بذریعہ حکومت پنجاب بحالیا ور آزاد پتن تا سون (حدود ضلع سدھنوتی) سڑک کی فزیبلٹی آئندہ مالی سال کے بجٹ میں شامل کی جائے گی۔
7۔ بجلی کے میٹرز کی آئندہ مالی سال میں بذریعہ ای ٹینڈرنگ خریداری کی جائے گی۔
8۔ آٹا کی کوالٹی کو بہتر کیا جائے گا اور آبادی کے تناسب سے ایلوکیشن پوری کی جائے گی۔
9۔ بلدیاتی نمائندگان کو اختیارات اور فنڈز جاری کیے جائیں گے۔
10۔ طلبہ یونین کے انتخابات کے حوالے سے ضابطہ اخلاق طے کرنے کے لیے کمیٹی بنائی جائے گی۔
11۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے جو چارٹر آف ڈیمانڈ دیا گیا ہے، اس پر 6ماہ میں بذریعہ گفت و شنید عملدرآمد ہوگا اور اس چارٹر آف ڈیمانڈ میں مزید کوئی رد عمل نہیں ہوگا۔
12۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی 23جنوری 2025کی لانگ مارچ کی کال واپس لینے کا اعلان کرتی ہے۔
سرکاری معلم صہیب عارف کی نوکری پر بحالی کا اکتوبر میں جاری کردہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔ ساتھ ہی بجلی کے بقایا بلوں کی اقساط24کی بجائے 36کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔
5کے وی سے زائد بجلی کے استعمال کے لیے نئے ٹیرف کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا۔ ٹیرف کے مطابق مقامی سکولوں میں 1تا 1000یونٹ15روپے، 1000سے زائد 25روپے فی یونٹ بل جاری ہونگے۔لوکل ہوٹل 1تا1500یونٹ25روپے اور اس سے زائد بجلی کے استعمال پر فی یونٹ35روپے بل جاری ہوگا۔ شادی ہال کو ایک تا2ہزار یونٹ25روپے فی یونٹ، پٹرول پمپس کو 1تا 1500یونٹ25روپے فی یونٹ بل جاری کیا جائے گا۔ٹاور، بنک، فرنچائز اسکول اور کریش مشین سے متعلق کاروبار اس نئے ٹیرف سے سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔
اس احتجاج کے لیے متعین مطالبات سے اضافی مطالبات منوانے کی قیمت کے طور پر کمیٹی کی قیادت نے 23جنوری کے لانگ مارچ کی کال بھی واپس لے لی اور ساتھ ہی معاہدہ میں حکومت کو یہ یقین دہانی بھی کروا دی کہ 6ماہ تک معاملات کومذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کر لیا گیا کہ چارٹر آف ڈیمانڈ میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں 6ماہ تک حکومت کے خلاف کمیٹی کوئی احتجاج اور سیاسی سرگرمی نہیں کر سکے گی اور اس عرصے میں اگر حکومت کی طرف سے صدارتی آرڈیننس کی طرز پر کوئی نیا قانون نافذ کیا جاتا ہے، یا کوئی ایسی حکمت عملی بنائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے مستقبل میں کمیٹیوں کے ذریعے لوگوں کو منظم کر کے احتجاج کرنے کا راستہ روکا جا سکے تو کمیٹی اس حوالے سے مطالبہ کرنے کی اخلاقی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔