حاتم خان
ہم انسان ہیں۔ انسان ایک سماجی جانور ہے وہ الگ تھلگ دوسرے انسانوں سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ انسان ایک دوسرے کے ساتھ سماجی تعلقات بنا کے رکھتا ہے اور اس سے جو رشتہ پیدا ہوتا ہے وہ سماجی رشتہ ہوتا ہے۔ انسان جب جنم لیتا ہے تو اس کی ماں اس بچے کی پرورش کرتی ہے، اس کا ہاتھ تھام کر اسے چلنا سکھاتی ہے اور اس کم عمر معصوم کے ساتھ کچھ نہ کچھ بولتی رہتی ہے تاکہ وہ بولنا سیکھ جائے۔ اسے چیزوں سے متعارف کراتی ہے، خوراک اور پانی حاصل کرنا سکھاتی ہے اور یہ عمل اس مدت تک چلتا ہے جب تک بچہ خود چلنا پھرنا اور بولنا نہ سیکھ جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کیسے ان تمام چیزوں سے جانکاری حاصل کرتا ہے جو اس کے اردگرد موجود ہوتی ہیں اور کائنات کے ان مظاہر سے کیسے واقف ہوتا ہے جو اس کے اردگرد وقوع پذیر ہو رہے ہوتے ہیں؟ یقیناً ان کے بارے وہ پوچھتا ہوگا، سوال کرتا ہوگا، تب جا کے اسے کچھ جانکاری اور علم حاصل ہوتا ہوگا۔ جیسے رات اور دن کیوں اور کیسے ہوتے ہیں؟ رات کو آسمان پہ ستارے چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ دن کو کیوں نہیں نظر آتے؟ روشنی کیا ہے اور یہ کیسے پیدا ہوتی ہے؟ ہم گھر میں کیوں رہتے ہیں؟ گھر کے کمرے میں لگے گھڑیال کے بارے پوچھتا ہے کہ وقت کا کیسے پتا لگتا ہے؟ دن میں کتنے گھنٹے ہیں؟
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ سوالوں کی نوعیت بھی بدلتی جاتی ہے۔ جب وہ سکول میں داخل ہوتا ہے تو اس علم سے روشناس ہوتا ہے، کتابوں میں چھپی تصاویر دیکھ کے خوش بھی ہوتا ہے اور حیران بھی، جن چیزوں کو جانتا ہے ان کی تصاویر پہ ہاتھ رکھ کر خودبخود نام لیتا ہے، جو نئی چیز اس کے سامنے آتی ہے اس کے بارے پوچھتا ہے، دریافت کرتا ہے، سوال کرتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ اسے کیا کہتے ہیں؟ اس کا نام کیا ہے؟ اس کے استاد اسے جواب دیتے ہیں تو وہ سمجھ جاتا ہے اور مختلف چیزوں کو جاننے بارے اس کی دلچسپی بڑھنے لگتی ہے۔ جب وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی اشیا اور اس کے اردگرد ہونے والے قدرتی مظاہر کے بارے ابتدائی علم حاصل کر لیتا ہے تو پھر وہ ان کی کھوج لگانا شروع کر دیتا ہے، جس سے نئے مظاہر اس کے سامنے آجاتے ہیں کہ موسم کیسے بدلتے ہیں؟ آندھی و طوفان کیوں آتے ہیں؟ چاند گرہن، سورج گرہن کیسے ہوتی ہے؟ زندگی اور موت کیا ہے؟ قدرت کے یہ مظاہر اس کے شعور پر ضربیں لگا رہے ہوتے ہیں اور اس کی عقل پہ دستک دے رہے ہوتے ہیں۔
لیکن اس تمام تر سوچ بچار کے باوجود وہ کونسی چیز ہے جو وقت کیساتھ اسے اس سوچ میں ڈالنے اور اس کی کھوج لگانے سے روک دیتی ہے۔ جس انسان نے خود کو سورج کی گرمی اور برستی بارش سے بچایا، ہر وقت قدرت کے ساتھ کمربستہ رہا، وہ اب کیوں تھک گیا ہے، کیوں رک سا گیا ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو اس کے اندر سے سیکھنے اور جاننے کااحساس ختم کر دیتی ہے۔ وہ چیز بھوک ہے اور اس بھوک کو جو چیز ختم کرتی ہے وہ ہے روٹی۔
کارل مارکس نے واضح کیا تھا جب تک انسان کے پاس سر چھپانے کو چھت اور کھانے کو روٹی نہیں تب تک فلسفہ اور سائنس پر بحث نہیں ہوسکتی۔ پھر یہی وہ چیز ہے جس نے اسے ستائے رکھا ہے، بھوک مٹانے کے لیے وہ جو جہد کرتا ہے جس کے لئے اتنی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ روٹی اسے اتنی مشکل سے کیوں ملتی ہے، وہ ان کی وجوہات تلاش کرتا ہے تو پھر اس کے سامنے ایک ’غیر منصفانہ تقسیم‘ جیسی اصطلاح آتی ہے۔ وہ تقسیم کیسے ہوتی ہے، کسی کے پاس دولت و اناج کے انبار لگے ہوئے ہیں تو کسی کے پاس ایک پیسہ و ایک دانا اناج تک نہیں۔ لیکن انسان ہے کہ پھر اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے جس سے اس کے سامنے نئے باب کھل جاتے ہیں: ظالم و مظلوم، غلام و آقا، امیر و غریب۔
انسان ایک لیکن اس کے طبقے الگ الگ اور ان کی خصوصیات بھی الگ۔ ایک خوشحال ہے تو ایک بدحال، ایک طاقتور ہے تو ایک کمزور اور ایک کے پاس تو سب کچھ ہے ایک کے پاس کچھ بھی نہیں، آخر کیوں؟ وقت اور حالات کے ساتھ اس نے ان کے بارے سوچنا شروع کر دیا کیونکہ وہ جاننا چاہتا ہے کہ ایک انسان بھوکوں مر رہا ہے تو ایک کو کسی چیز کی کمی نہیں۔ ان نا برابریوں کے تضادات سے وہ خود سے لڑ رہا ہے، اپنی زندگی سے لڑ رہا ہے لیکن ان سوالوں کے جواب حکمران طبقات کی طرف سے اسے غلط دیے جاتے ہیں۔اس سب بارے بالکل اسی جیسے مظلوم انسان کو اس کا مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ عدم مساوات آئی کہاں سے؟ وہ اسی عدم مساوات کی وجہ تلاش کرتا ہے تو اسے زندگی کے وسائل کے گرد ایک غیر منصفانہ تقسیم نظر آتی ہے۔ پھر یہ غیر منصفانہ تقسیم کہاں سے ہورہی ہے۔ کیا یہ تقسیم یہاں پہ موجود طبقاتی نظام سے وقوع پذیر ہوئی جہاں حکمران، امیر، سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقہ مسلسل استحصال، جبر و ظلم کرتا ہوا آ رہا ہے۔ جو محنت کی قوت خرید کر محنت کش کو صرف اتنا دیتا ہے کہ وہ صرف ایک دن کی ضرورت کی اشیا خرید سکے اور اگلے دن پھر سے خود کو اس ظالم کے سپرد کر دے۔ آخر کیوں؟ اور یہ ناانصافی، عدم مساوات، ظلم، جبر و استحصال اور یہ لوٹ کھسوٹ کب تک چلے گی۔ سرمایہ دار کروڑوں کی محنت پر پل رہا ہے لیکن وہی کروڑوں بھوکوں مر رہے ہیں۔ یہ ظلم سہتے ہوئے بے چارے انسان ہیں لیکن جو ظلم کر رہے ہیں، جو انسانیت کے خاتمے کے در پے ہیں جو صرف اور صرف منافع کی غرض سے انسانی زندگی کو داؤ پہ لگا رہے ہیں، اس خوبصورت دنیا کو نست و نابود کر کے وہ کوئی نئی دنیا نئے سیارے پہ بسانے کی سوچ رہے ہیں، تو پھر وہ درندہ صفت ہرگز انسان نہیں ہوسکتا۔ وہ کوئی وحشی درندہ ہی ہوسکتا ہے۔ اب ہمیں ان وحشی درندوں کے پھیلائے گئے ظلم و تشدد اور تباہی کا جواب چاہیے۔
لیکن یہ درندہ صفت، یہ وحشی اتنے کمزور کیوں ہیں؟ آخرکار یہ ہمارے سوالات پر اتنا بوکھلا کیوں جاتے ہیں؟ انسان ظلم بھی سہے اور انسان کو ہی اسی کا جواب نہیں دیا جاتا۔ یہاں اس ظالمانہ سماج میں کیوں بھی کہنا جرم ہے، کیسے بھی کہنا جرم ہے۔ کیونکہ یہاں اس سماج کی ہر ایک چیز ان ظالموں، لٹیروں، چوروں، خانوں، سرداروں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے۔ ریاست، سیاست، قانون و قانونی ادارے اور میڈیا سب انہی کے کنٹرول میں ہیں۔ لیکن تاریخ ہمیشہ گواہ رہی ہے کہ ظالموں نے جب بھی ظلم کی انتہا کی تو مظلوموں نے بغاوت کا علم بلند کیا اور ان ظالموں کے اقتدار کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کے تختوں کو گرایا، ان کے تاجوں کو اچھالا، ان سے اپنے ہر ایک ظلم کا حساب لیا۔ اپنے اوپر ہونے والے ہر ایک جبر کا جواب لیا اور اب ہمیں بھی ان ظالموں سے اپنے ہر سوال کا جواب چاہیے کہ کیوں آج سوال کرنا جرم بنا دیا گیا ہے لیکن اب ہمیں ان ”جرائم“ کی اجازت چاہیے اور اب ہمیں جواب چاہیے؟
احمد ندیم قاسمی نے کیا خوب کہاہے:
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا، اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے کیسے بھی کہنا جرم ہے،
سانس لینے کی آزادی تو میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لیے انساں کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ جرم ہے
اے خداوندانِ عقائد
اے ہنر مند آئین و سیاست
زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیے
مجھے ان سارے جرائم کی اجازت چاہیے!