نقطہ نظر

’نسلی تعصب کو ختم کرنا ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں، اِسکے پیچھے 400 سال کی تاریخ ہے‘

قیصر عباس

گزشتہ ہفتے امریکہ کے شہر منیاپلس میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام امریکی کی بیدردی سے ہلاکت کے بعد پورا ملک احتجاجی ریلیوں کی گرفت میں ہے اور تازہ اطلاعات کے مطابق تقریباً 150 شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

واشنگٹن سمیت کئی شہروں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ منیسوٹا کی ریاست کے علاوہ جہاں یہ واقعہ ہوا، دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی، ڈیلس، نیویارک، لاس اینجلس، سان فرانسسکو، میامی، شکاگو، نیو ارلینز اور ملک کے تمام بڑے شہروں میں احتجاجی جلوس نکالے جارہے ہیں جو زیادہ تر پرامن رہے لیکن تشدد اور آتش زدگی کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔

پیرکے روز سارا دن وائٹ ہاؤ س کے باہر مظاہرین کی ایک بڑی تعداد جمع رہی جنہیں آنسو گیس کے ذریعے منتشر کرنے کوشش کی گئی۔ صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب اتوار کواُس چرچ کا دورہ بھی کیا جسے مظاہرین نے نذ ر آتش کیا تھا جہاں وہ صدر دروازے کے سامنے بائبل اٹھائے مظاہرین کی مذمت کرتے نظرآئے۔

تقریباً دو درجن ریاستوں میں نیشنل گارڈ کو طلب کرلیا گیا ہے جو پولیس کے ساتھ مل کر احتجاج کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ کنٹکی ریاست کے شہر لیوسول (Louisville) میں گارڈ اور پولیس کی فائرنگ سے ایک شخص کی ہلاکت ہوئی ہے اور اس کے علاوہ منیاپلس میں بھی ایک شخص کی ہلاکت کی خبر ہے۔

ادھرصدر ڈونلڈ ٹرمپ افریقی نژاد شہریوں سے انصاف ا ور امن و امان کی تلقین کے ذریعے لوگوں کے غصے کو کم کرنے بجائے دھمکی آمیز لہجہ اختیا ر کئے ہوئے ہیں اور ریاستی گورنروں کو مظاہرین کے خلاف سخت کاروائیوں کے مشورے دے رہے ہیں۔ پیر کے دن اپنے ایک تازہ خطاب میں انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر مظاہرے بند نہ ہوئے تو وہ فوج طلب کرکے امن بحال کریں گے۔ مبصروں کے خیال میں صدر کو لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کے بجائے آنے والے انتخابات کی زیادہ فکرہے۔

پاکستانی نژادآفتاب صدیقی ڈیلس میں انسانی حقوق کے پرانے کارکن ہیں جو ایک عرصے سے اقلیتوں سے انصاف کے لئے سرگرم ہیں اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں۔ وہ امریکی ریاست ٹیکساس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند اور سرگرم کارکن کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ وہ ڈیلس پیس اینڈ جسٹس سنٹر اور ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے صدربھی رہ چکے ہیں جہاں انہوں نے اقلیتوں اور سیاہ فام امریکیوں کے حقوق کے لئے مقامی اور مرکزی ایوانوں میں سیاسی رہنماؤں سے موثر مذاکرات کے ذریعے قانون سازی کی راہ ہموار کی ہے۔

انہوں نے ماضی میں تین بڑی سول رائٹس کانفرنسوں کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کانفرنسوں میں ملک کی نمایاں تنظیموں ایمنیسٹی انٹرنیشنل (Amnesty International) اقلیتوں کے حقوق کی قو می تنظیم این اے اے سی پی (NAACP)، مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی تنظیم Council of Islamic American Relations (CAIR) اور دوسری اہم تنظیمیں بھی شامل تھیں۔

موجودہ صورت ِحال پر’روزنامہ جدوجہد‘سے اس انٹرویومیں انہوں نے اقلیتوں خصوصاً افریقی نژاد امریکیوں کی حالت زار پرگفتگو کی۔

تازہ اعداد و شمار کے مطابق افریقی نژاد امریکی کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں کیونکہ یہ لوگ پہلے ہی کئی طرح کی بیماریوں اور غربت میں گرفتار ہیں۔ یہی مصیبتیں کیا کم تھیں کہ یہ کمیونٹی اب پولیس کے تشدد کا بھی شکار نظر آتی ہے۔ آپ اس صورت ِحال کا کس طرح تجزیہ کریں گے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ اقلیتیں اورخصوصاً سیاہ فام باشندے امریکہ میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ انہیں صحتِ عامہ کی سہولتوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ یہی لوگ بس، ایمبولنس اور ٹرین ڈرائیور ہیں، ڈلیوری کے کارکن ہیں اور ہسپتال کے نچلے درجے کے ملازمین ہیں۔ سیاہ فام امریکی صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے باعث کئی مہلک بیماریوں میں گرفتاربھی ہیں۔

اس کے علاوہ ان لوگوں کو روزانہ غیر انسانی سلوک کا سامنا ہے۔ مثال کے طورپر ایک سیاہ فام جج کوصرف اس لئے مسلسل روک کر چیک کیاجاتاہے کہ ان کے پاس ایک مہنگی گاڑی کیوں ہے۔ یہ لوگ روزانہ پارک، سینما، مارکیٹ، سڑکوں اور دوسری جگہوں پر نسلی تعصب کا شکار ہوتے ہیں۔

بینک سیاہ فام امریکیوں کو قرض نہیں دیتے، انہیں کار خریدنے کے لئے اضافی سود دینا پڑتا ہے، نوجوانوں کومجرموں کی طرح دیکھا جاتا ہے اور یہ تمام صورت حال اس کمیونٹی کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ کانگریس نے تمام ریاستوں میں ایسے قوانین نافذ کئے ہیں جن میں سیاہ فام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

سیاہ فام کمیونٹی تو ایک عرصے سے نسلی امتیاز کا شکار ہے مگر صدر اوبامہ کے انتخاب کے بعد اس میں بہت تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟

اوباما صدر منتخب ہوئے تو سفیدفام شہریوں کی ایک بڑی تعداد کے لئے یہ تصور صدمے سے کم نہیں تھا کہ ایک سیاہ فام فیملی وائٹ ہاؤس میں براجمان ہوگی۔ ان میں کچھ نسل پرستوں نے ایک منصوبے کے تحت رپبلکن پارٹی کے ذریعے اوبامہ کے ہر اقدام کی مخالفت کی۔ پارٹی نے نسلی برتری کا کارڈ استعمال کرکے کھلم کھلا منافرت کی سیاست کو عام کیا۔ اس طرح نسلی امتیاز جو اب تک کھل کر سامنے نہیں آیا تھا اب لبِ بام آچکاتھا۔ اس نئی سیاست کے پیچھے امریکہ کی صدیوں پرانی تاریخ ہے۔

نسلی امتیاز کا آغاز 1776ء میں امریکہ کی آزادی سے ہی ہوگیاتھا۔ ریاستیں جو امریکہ میں شامل ہوئیں وہاں غلامی سماجی زندگی کا جزو تھی۔ اگرچہ”تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں“ نئے دستورکا بنیادی اصول طے ہوا لیکن عملی طورپر سیاہ فام غلام سفید فام سے درجے میں انتہائی کمتر تصور کئے جاتے تھے۔ 1860ء میں صد ر لنکن نے اسے بدلنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں سول وار شروع ہوئی جس کا اختتام ان ریاستوں کی شکست سے ہوا جہاں غلامانہ نظام رائج تھا۔ لنکن کو قتل کردیا گیا اور جنوبی ریاستوں میں غلاموں کے سابق مالکان نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی اور اس طرح غلامی کے نظام سے تو چھٹکارہ مل گیا لیکن آئندہ سو سال تک سیاہ فام شہریوں کو اقتصادی، تعلیمی اور سیاسی غلامی اور نسلی تعصب سے آزادی نہیں مل سکی۔ اس طرح کے قوانین بنائے گئے جن کے تحت ان لوگوں کو گھروں کی ملکیت، زراعت اور تعلیم سے دور رکھا گیا۔ ان قوانین کو ‘Jim Crow Laws’ کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔

آپ کے تجزئے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں اقلیتوں سے غیرانسانی سلوک کو ئی نئی بات نہیں ہے لیکن سیاہ فام امریکیوں سے سفیدفام اکژیت کا برتاؤ ظلم اور تشدد کی حدوں کو چھوتا نظر آتاہے۔ آپ افریقی نژاد اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ تعصب میں کیا فرق دیکھتے ہیں؟

گیارہ ستمبر کے بعد مسلمانوں سے امتیازی سلوک او ران کے خلاف قانونی کارووائیوں کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ نیویارک اور نیو جرسی میں مسلمانوں کی گرفتاریاں بڑے پیمانے پر کی گئیں۔ تقریباً ایک ہزار مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا جو کئی ماہ تک تشدد اور قید و بند کی صعوبتوں سے گرز ے۔ مسلم کمیونٹی کے لیڈروں اور مساجد پر ایف بی آئی کی سخت نگرانی کی جاتی رہی، مسلم خیراتی اداروں کو بند کیا گیا اور کئیر (CAIR) اور اسنا (SNA) جیسی مسلمانوں کی کئی تنظیموں کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ شروع ہوا لیکن ان کے خلاف شدت پسندی کے کوئی شواہد حاصل نہ ہوسکے۔

ان اقدامات کے نتیجے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے کینڈا میں نقل مکانی شروع کی تو سرحد پر ان کے خاندانوں کو بھی پریشانی کا سامنا ہوا اورا ن کو گرفتار بھی کیا گیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتدار آئے تو انہوں نے جنوبی سرحدوں سے آنے والے تارکین وطن کے خلاف کاروائیوں کا آغاز کیا۔ بچوں کو خاندانوں سے علیحدہ کرکے جیلوں میں رکھا گیا۔ اپنے ملکوں میں ہونے والے سیاسی انتقام سے بھاگ کرہزاروں میل کا سفر کرنے کا بعد آنے والے لوگوں کو سرحدوں پر گرفتارکیا گیا اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف انہیں سیاسی پناہ کی اپیلوں سے محروم کردیا گیا۔ یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں اب میکسیکو میں عارضی پناہ گاہوں میں، غذا، علاج اور صفائی کے انتظامات کے بغیرزندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

آپ کے خیال میں اقلیتوں اور افریقی نژاد امریکیوں کے خلاف نسلی امتیاز کے رویوں اور قوانین کو کس طرح تبدیل کیا جاسکتاہے؟

نسلی تعصب کو ختم کرنا اگرناممکن نہیں تو آسان کام بھی نہیں ہے کیونکہ اس کے پیچھے چار سو سال کی تاریخ موجودہے۔ لیکن ان اقدامات کے ذریعے ہم اس سفر کا آغاز کرسکتے ہیں:

1۔ کانگریس میں غیر جماعتی بنیادوں پر ان قوانین کا خاتمہ کیاجائے جن کے ذریعے سیاہ فام امریکیوں کو تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

2۔ کانگریس کے ذریعے انصاف کے حصول اور عدالتی نظام میں دوررس اصلاحات کی جائیں۔

3۔ چونکہ نسلی امتیاز کے 95 فیصد واقعات کا فیصلہ ریاستوں کی سطح پر ہوتاہے اس لئے ریاستوں کی ایک مشترکہ حکمت عملی، قوانین اور انصاف کی پالیسیوں کی تشکیل ضروری ہے۔ عوامی نمائندوں، پارٹیوں کے نمائندوں اور ماہرین کے بلیو ربن کمیشن بنائے جائیں۔

4۔ لوگوں کے باہمی تعلقات کے فروغ کے لئے شہروں، قصبوں اور گاؤ ں کی سطحوں پر گروپس کی تشکیل کی جائے۔ چرچ، غیر منافع بخش تنظیموں اور اساتذہ کی تنظیمیں اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

5۔ فاؤنڈیشنز، تجارتی اداروں اور کارپوریشنز کے تعاون سے باہمی تعاون کی نشر و اشاعت کی جائے اور پبلک سروس کے اعلانات شروع کئے جائیں۔

6۔ تشدد اور نسلی امتیازات کے واقعات میں ملوث پولیس کے اہلکاروں کی ڈسٹرکٹ اٹارنی تین دن کے اندر نشاندہی کرکے تفتیش کا آغاز کریں۔ تفتیش کے لئے خفیہ جیوری جس میں صرف پولیس ہی نہیں بلکہ عوام اور متاثرہ افراد بھی شامل کئے جائیں کا قیام عمل میں لایا جائے۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔