تاریخ

[molongui_author_box]

جب طوفان جھوم کے اٹھے!

لیکن آج بالشویک انقلاب کے 102 سال بعد سوال یہ ہے کہ کیا سرمایہ داری انسانیت کے مسائل حل کر رہی ہے یا انہیں زیادہ گھمبیراور پیچیدہ بنا رہی ہے؟ امارت اور غربت کی خلیج اتنی وسیع پہلے کبھی نہ تھی جتنی آج ہے۔ جہاں سات افراد کے پاس دنیا کی آدھی آبادی سے زائد دولت ہے۔ ایک طرف غربت، بیروزگاری اور محرومی کی نہ ختم ہونے والی ذلتیں ہیں‘ دوسری طرف ماحولیات کی تباہی ساری نسل انسان کے وجود کے لئے ہی خطرہ بن رہی ہے۔ پچھلے سو سال میں بہت کچھ بدل گیا ہو گا لیکن طبقاتی تضاد اور جبر و استحصال کم نہیں بلکہ شدید ہی ہوئے ہیں۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں‘ لبنان، ایکواڈور، چلی، فرانس، سپین اور عراق سمیت دنیا کے بیشتر ممالک بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہروں اور عوامی تحریکوں کی زد میں ہیں۔

گلگت بلتستان کی جنگ آزادی میں برٹش ایجنٹ میجر براؤن کا کردار

کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور کوہ قراقرم کے دامن میں واقع گلگت بلتستان کا یہ پہاڈی علاقہ نہ صرف اپنی قدرتی خوبصورتی، بلند بالا پہاڑی چوٹیوں اور معدنیات کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ جیو اسٹرٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ایشیاء کا مرکز کہلاتا ہے۔
ماضی میں یہ خطہ عالمی طاقتوں کے درمیان گریٹ گیم کا مرکز رہا ہے.John Keay اپنی مشہور کتاب "دی گلگت گیم” میں لکھتے ہیں کہ ” گلگت ریجن کی اہم اسٹریٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہی عالمی طاقتوں نے گریٹ گیم کو گلگت بلتستان کی پہاڑی وادیوں میں لائیں، جہاں انڈیا ،چین، روس، افغانستان اور پاکستان کی طویل سرحدیں ملتی ہیں اور اس خطے کی خصوصیات اس طرح بیان کی گئی ہیں کہ اسے ریڑھ کی ہڈی،محور ، مرکز، تاج کا گھونسلا، فلکرم، اور چائنہ کے لکھاریوں نے اسے ایشیاء کا محور قرار دیا ہے۔“

حرف پائیدار: ’امید سحر کی بات‘

میڈیا سکالر کے طور پر ڈاکٹر قیصر کی اس موضوع پر کتنی گہری گرفت ہے، اس کا اندازہ تو مجھے انہی دنوں ہو گیا تھا جن دنوں میں اپنے مقالے کے سلسلے میں ان سے رہنمائی لیتا تھا لیکن مجھے اس کا حقیقی ادراک اس وقت ہوا جب میں نے ان کے ساتھ مل کر پاکستانی میڈیا پر ایک کتاب مدون کرنا شروع کی۔اکیڈیمک مطبوعات شائع کرنے والے معروف عالمی ادارے ’روٹلیج‘ کے زیر اہتمام، ’فرام ٹیلی ویژن ٹو ٹیرر ازم: ڈائنامکس آف میڈیا، سٹیٹ اینڈ سوسائٹی‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس کتاب کی تدوین کے دوران مجھے ڈاکٹر قیصر سے بے شمار علمی باتیں سیکھنے کا موقع تو ملا ہی لیکن جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ تھا ڈاکٹر قیصر کا رویہ اور خندہ پیشانی۔

ایک اور دوست رخصت ہوا

قیصر عباس ایم اے کرکے کچھ عرصہ محکمہ تعلقات عامہ پنجاب میں انفارمیشن آفیسر رہے۔پھر پی ٹی وی نیوز اسلام آباد چلے گئے۔گھر راولپنڈی میں ہی تھا۔ہماری جونیئر صالحہ سلیمان بھی پی ٹی وی پہنچیں تو ان کا تعارف ہوا اور پھر زندگی کا ساتھ بن گیا۔صالحہ نے اپنے سیشن میں تمام شعبوں کے طلباء سے زیادہ نمبر لیے تھے۔انہیں قائداعظم سکالر شپ ملا تو انہوں نے امریکہ میں داخلہ لیا۔قیصر بھی ساتھ گئے۔بالآخر دونوں نے پی ایچ ڈی کرلیا اور مختلف یونیورسٹیوں میں بطور پروفیسر، ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ ڈین خدمات انجام دیتے رہے۔

صیہونیت، تیل کی پہلی جنگ، مزاحمت

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے نو آبادیات کے خاتمے کا عمل شروع ہوا۔ کش مکش کے ہاتھوں پرانی سلطنتیں کمزور ہو گئی تھیں۔ جرمن سامراج کو شکست ہو گئی تھی مگر برطانیہ اور فرانس کے ہاتھوں نہیں۔ یہ تاریخ ساز سویت مزاحمت تھی، کرسک اور سٹالن گراڈ کی جنگیں اس مزاحمت کی علامت تھیں، جس نے ویرَماخت٭ کی کمر توڑی۔ امریکہ کی اقتصادی اور فوجی امداد نے بھی فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔ امریکہ دنیا کی طاقتور ترین معاشی قوت بن کر اُبھرا مگر وہ سویت یونین کی فوجی طاقت اور تکریم سے پریشان تھا۔ ابھی دوسری جنگ عظیم لڑی جا رہی تھی کہ سرد جنگ، جو بعد میں چلی، شروع ہو چکی تھی۔ امریکہ، سویت یونین اور برطانیہ اس بات پر متفق تھے کہ وہ یورپ کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں تقسیم کرلیں گے۔ جرمنی تقسیم کیا جائے گا۔ سٹالن کو مشرقی یورپ ملے گا اور اس کے بدلے میں وہ فرانس، اٹلی اور یونان میں کمیونسٹ مزاحمت کو کُچلے گا اور یہ وہ ممالک تھے جو اینگلو امریکی سامراج کی ذمہ داری تھے۔ جہاں تک باقی دنیا کا تعلق ہے، بالخصوص ایشیا، کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرایا اور اس پر قبضہ کر لیا مگر باقی ہر جگہ افراتفری مچی تھی۔

جموں کشمیر پر قبائلی حملہ: 74 سالہ ’زخموں‘ سے نجات خود انحصاری کی متقاضی!

رواں سال 22 اکتوبر کو جموں کشمیر پر قبضے کی غرض سے پاکستانی ریاست کی ایما پر ہونے والے منظم قبائلی حملے کو 74 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں ابھی تک اس واقع کو متعدد مرتبہ کریدہ جا چکا ہے اور ہر مرتبہ وحشت و بربریت کی ایک نئی داستان ان واقعات کی ہولناکی میں اضافہ ہی کرتی آئی ہے۔

مبارک قاضی: بلوچستان کا سربکف شاعر

بعض شاعروں اور ادبی شخصیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ واقعی ان سے ملنا چاہتے ہیں تو ان کے کام کے ذریعے ملیں، کیونکہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں بہت مایوس کن ہو سکتے ہیں، یا ان کا کام اور ذاتی زندگی ایک دوسرے سے متصادم ہو سکے ہیں۔ ایسے ہی ایک بلوچ شاعر مبارک قاضی تھے،جو مزاحمتی اور عوامی شاعر تھے۔

سپارٹیکس: یادگار ہالی وڈ فلم بھی، کیمونسٹ مزاحمت کا استعارہ بھی

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کر رہا تھا۔ نوے کی دہائی نصف سے زائد گزر چکی تھی۔ میرے ہم جماعت اوردوست مسعود کو جب پتہ چلا کہ میں نے ’سپارٹیکس‘ نہیں پڑھا تو چند روز بعد انہوں نے مجھے یہ ناول پڑھنے کے لئے دیا۔ مزاحمت، بغاوت اور بہادی کا سبق دیتا ہوا یہ ناول جب تک میں نے ختم نہیں کر لیا، میں سویا نہیں۔ میں نے ایسا ناول اس سے قبل پہلے نہیں پڑھا تھا۔ ان دنوں میں ’جدوجہد گروپ‘ کا رکن بن چکا تھا اور جو بھی نئی کتاب پڑھتا، اپنے ساتھیوں سے اُس کا ذکر کرتا۔ گروپ کے مٹھی بھر تمام ساتھیوں نے یہ ناول پڑھ رکھا تھا۔