خبریں/تبصرے


سقوط کابل 15 اگست 2021ء اور عالمی دیہاڑی باز

یہ تمام رقم یا تو امریکی عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی اور امریکہ چونکہ پوری دنیا سے سود یا کسی اور مد میں رقوم اکھٹی کرتا ہے یعنی اس جنگی خرچ کا بوجھ ساری دنیا کے عوام نے برداشت کیا۔

ایک دن بعد

کوئی بات بھی یقینی نہیں لیکن جو رحجانات نظر آ رہے ہیں اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ طالبان کا اقتدار دنیا بھر کی ترقی پسند قوتوں کے لئے بری خبر ہے۔

ڈالروں سے بنی افغان فوج کو طالبان نے ڈالروں میں خرید لیا: واشنگٹن پوسٹ

سپیشل فورسز کے افسروں کو دونوں اطراف سے خطرہ تھا کہ اگر طالبان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتے تو حکومت کی طرف سے طالبان کو بیچ دیئے جائیں گے۔ پولیس افسران کو 6 سے 9 ماہ کی تنخواہیں نہیں دی گئی تھیں، ایسے میں طالبان کی جانب سے ادائیگیاں مزید پرکشش ہو گئی تھیں۔

ہمارا کابل میں طالبان قبضے میں پہلا دن: غصہ، خوف، بے بسی

”سب کچھ کھو دیا۔ میری خواہش میرے ملک کاروشن مستقبل ہے، میرا خواب ایک مضبوط اور مستحکم افغانستان ہے۔ میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ہمارے اتحادیوں نے ہمارے لوگوں کو پیٹھ دکھا دی ہے اور انہوں نے ہمیں مظالم کے حوالے کر دیا ہے۔“

’مادر! میرے کپڑے بدل دو، طالبان آ گئے ہیں‘

ماں نے شلوار قمیض پہنا دی۔ وہ شلوار قمیض سے بھی مطمئن نہ ہوا۔ سر پر کالے رنگ کی پگڑی بھی باندھ لی۔ فر فر چار زبانیں بولنے والا تنویر بھلے کابل میں رہتا ہے لیکن انٹرنیٹ کی وجہ سے بالکل انٹرنیشنلسٹ ہے۔

امریکی قبضے نے صرف انسانی جانیں لیں: طالبان کی فتح امن کی نشانی نہیں

طالبان کی فتح پوری دنیا کے ترقی پسندوں کے لئے ایک انتہائی بری خبر ہے۔ امریکیوں کے ایجنٹوں پر تنقید کا مقصد طالبانی درندوں کی حمائیت کرنا نہیں۔ ان دونوں کی مخالفت جاری رہے گی۔ ایک حقیقی جمہوری سوشلسٹ نظریہ کی فتح ہی افغانستان میں مستقبل کی مسلسل خون ریزی کو روک سکتا ہے۔