نہ ابر برسا، نہ غنچے کھلے، نہ جام آئے
شاعری
غزل
اب خشک زمینوں پہ اگائے گا شجر کون
27 دسمبر 2007ء کی شام!
برسوں سے کوئی آ س کا سورج نہیں نکلا
سیاسی رہنماؤں کے نام
رقصِ بسمل کا اہتمام کرو
عورت اور ترقی پر سیمینار، لاہور 2003ء
اس کے نہ کردہ گناہوں کی سزادیتے رہے
ترقی پسندوں کا گیت!
ہر حرف سے پھوٹے گی کرن صبحِ جنوں کی
نیفوں میں پڑی نیندیں
سرگوشیوں کی عادت ڈال لینی چاہیے
افغانستان کے نام
اس وادی کے سارے موسم ظالم ہیں
یو این او میں پڑھی گئی ایک نظم: ’لفظوں سے اٹی درسگاہیں‘
جن کی زبان لمبی ہوتی ہے
غزل: دستکیں دو کہ اجالے جاگیں!
بند دروازوں کے تالے جاگیں