نقطہ نظر

[molongui_author_box]

دیر کی طالبہ کا طالبان کے نام خط: ’بھائیو برقعہ بھی تو کفن ہی ہے‘

یقین کیجئے ہم نے صبح کالج جاتے ہوئے برقع پہنا ہو نہ پہنا ہو، دِیر سے لے کر کراچی تک ہم نے سر پر کفن ضرور پہنا ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کب کسی بھائی، کزن، طالب یا مجاہد کی غیرت جاگ جائے اور نا مناسب لباس یا خاندان کو بد نام کرنے کے الزام میں ہم پر تیزاب پھینک دے، بندوق کی لبلبی دبا دے یا کسی خنجر کی پیاس ہمارے خون سے بجھا دے۔

کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب کیوں بچا ہوا ہے؟

ایک چھوٹا سا کیربئین جزیرہ، صدیوں سے کلونیل ازم اور سامراجیت کی وجہ سے پس ماندگی کا شکار، ساٹھ سال سے امریکی پابندیوں اور بائیکاٹ کا نشانہ، ان تمام مشکلات کے باوجود پوری دنیا کو کیا کچھ فراہم کر رہا ہے؟ میری کتاب ایسے ہی سوالوں کا جواب دیتی ہے۔

لیبر پارٹی سے کوربن کی معطلی اسرائیل کے ناقدین کو خاموش رہنے کا پیغام ہے

برطانوی حالات کا تقاضا ہے کہ سوشلسٹ پارٹی آف انگلینڈ بنانے بارے سوچا جائے۔ سوچنے کا مطلب یہ نہیں کہ کل اس کا اعلان کر دیا جائے۔ ہاں مگر یہ سمجھنا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا محض ایک مذاق ہی ہو سکتا ہے۔ نئی جماعت بنانے کے لئے ترقی پسند ٹریڈ یونینز کو بھی بات چیت میں شامل کرنا ہو گا۔ اس کے لئے بہت زیادہ مکالمے کی ضرورت ہے…

’پی ڈی ایم کا ایجنڈا صرف سیاسی ہے، سماجی اور معاشی ایجنڈا غائب ہے‘

ہم 8 نومبر کو پیپلز چارٹر آف ڈیمانڈ لے کر آ رہے ہیں جو کہ سماجی اور معاشی ایجنڈا ہے یعنی پی ڈی ایم سے مختلف ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس طرح ہی پسے ہوئے طبقات کے ساتھ کام کر کے خود کو منظم کریں تا کہ وقت آنے پر ان پارٹیوں کو بھی چیلنج کر سکیں۔

ہمیں کیسی جمہوریت چاہئے؟

جہاں کی جمہوریت اور حکومت حقیقی بنیادوں پر عام لوگوں اور محنت کشوں کی ہو گی اور وہاں انسان حقیقی بنیادو ں پر اک انسان ہو گا۔

وزیر خانم: پدر سری معاشرے کا صنفی استعارہ

میرے نقطہ نظر کے مطابق شمس الرحمن کی یہ تصنیف ایک پدر سری معاشرے کا صنفی استعارہ ہے جس میں سماجی نا انصافیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک عورت کے انفرادی رویے کو غلط ثابت کیا گیا ہے جو بذات خود ان سماجی ناانصافیوں کا شکار ہے۔

ٹرمپ اور نیتن یاہو ایران کے خلاف انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں: خلیل جھشان

اولاً یہ کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران امن کی راہ میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی ہے اور اسرائیل کی رجعت پسند حکومت کو آج بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر کوئی فوائدحاصل ہونے کی امید بھی نہیں ہیں جن کی بنیاد پر وہ امن کے لئے سنجیدہ ہو۔ خود نیتن یاہو بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ان کے لئے یہ معاہدے کرنازیادہ ضروری ہیں خصوصاً اس وقت جب عرب ملکوں نے اسرائیل سے فلسطینی علاقوں سے دستبردار ہونے کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا۔