نقطہ نظر


سنسرشپ کے سائے تلے اظہار رائے کی آزادی

میڈیا سنسر شپ کا مطلب ہے میڈیا چینلز کے ذریعے پھیلائے جانے والے مواد پر کنٹرول کرنا خاص طور پر وہ مواد جو ملکی سلامتی ،عوام کے مفاد یا معاشرتی اخلاقیات و اقدار کے لیے خطرہ ہو۔سنسر شپ کے ذریعے حکومت یا دیگر سرکاری اداروں کی جانب سے میڈیا کے مواد کو منظر عام پر آنے سے پہلے چیک اور کنٹرول کیا جاتا ہے تاکہ وہ مواد جو منفی یا خطرناک سمجھا جاتا ہو اسے روکا جا سکے۔

آرٹ کی بحث اور کچھ بنیادی منطقی مغالطے

آرٹ کی حالیہ بحث کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم چاہیں گے کہ ان بنیادی منطقی مغالطوں پر روشنی ڈالیں جن کا استعمال ایسی بحثوں یا مناظروں میں ان عناصر کی جانب سے کیا جاتا ہے جن کے پاس اپنے مخالف فریق کی بات کو رد کرنے کی کوئی معقول دلیل و منطق نہیں ہوتی ہے۔ بہت سے دوست پہلے سے ان وارداتی ”دلائل“ سے واقف ہوں گے۔ لیکن موجودہ بحث میں ان مغالطوں کا استعمال ایسے افراد کی جانب سے کیا گیا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ صرف خود شاعر اور ادیب ہیں بلکہ شعر و ادب کے سمندر میں یوں غوطہ زن ہیں کہ ہر روز نئے موتی تلاش کے لا رہے ہیں۔ یہاں ہماری مراد وہ ترقی پسند اور انقلابی ساتھی ہرگز نہیں جو سنجیدگی سے سیکھنا اور سکھانا چاہتے ہیں لیکن اپنی معصومیت اور بھولے پن میں ان نوسربازوں کے نرغے میں آ جاتے ہیں۔

’مسلح حملوں کو جواز بنا کر سیاسی کارکنوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘

مسلح تنظیموں کے حملوں کے بعد بلوچ سیاست کو ہمیشہ نقصان پہنچا ہے۔ یہ ایسی ریاست ہے جو فورتھ شیڈول میں ڈالنے اور سیاسی کارکنوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے پی ٹی ایم کے کارکنوں پر بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ منسلک ہونے کا الزام عائد کر دیتی ہے۔ بلوچستان میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ ان حملوں کو جواز بنا کر سیاسی کارکنوں کوانتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی بھی مسلسل واضح کرتی رہی ہے کہ ان کا ان مسلح حملوں اوران گروہوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم ابھی ان کو مزید واضح کرنا ہوگا۔بلوچ قوم کی پچھلی پوری صدی کی جدوجہد طبقاتی نابرابری کے ساتھ ساتھ قومی جبر کے خلاف رہی ہے۔

شاعری و ادب پر کچھ نکات

معاشرے کے سلگتے تضادات کی پردہ پوشی یا معذرت خواہی کرنے، ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ اور فرد کو اس کے سماجی حالات سے کاٹ کے مجرد انداز سے دیکھنے والی سوچ بہرحال کوئی بڑا آرٹ تخلیق نہیں کر سکتی۔ یہ آخرکار انسان کو گمراہی، مایوسی اور قنوطیت کی طرف ہی لے جاتی ہے۔ لیکن اس طرف لے جانا اور چلے جانا ہی اگر کسی کا مطمع نظر ہے تو بات شاید یہیں ختم ہو جاتی ہے۔

پی آئی اے کی مینجمنٹ محنت کشوں کو دیں، تمام خسارے ختم کرینگے: رمضان لغاری

’پی آئی اے کی مینجمنٹ محنت کشو ں کے حوالے کی جائے۔ حکومت ہمیں ایک روپیہ بھی نہ دے، صرف ’اوپن سکائی‘ پالیسی کو محدود کر کے عالمی معیار کے مطابق کیا جائے۔ پی آئی اے کا عملہ تمام خسارے بھی پورے کرے گا اور چند ہی سالوں میں پی آئی اے کو منافع بخش ادارے میں تبدیل کرے گا۔ 1992تک پی آئی اے عروج پر تھی،حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے خساروں میں گئی۔ آج پی آئی اے کو بے توقیر کر کے حکمران قومی اثاثے کو اونے پونے داموں خریدنا چاہتے ہیں۔ محنت کش اس کے خلاف لڑیں گے اور قومی ادارے کے خلاف ہونے والے سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔‘

ہان کانگ کی تحریروں کا موضوع: درد، کرب اور اندرونی اضطراب

2024ء میں ادب میں نوبل انعام کی جنوبی کوریائی لکھاری ہان کانگ حق دار قرار پائی ہیں،جو اپنے خوابناک اور باغی ناول ’دی ویجیٹیرین‘کے لیے جانی جاتی ہیں۔ اس ناول کی بناء پر ان کے قلم کی مہک بین الاقوامی سطح تک پھیل چکی ہے۔ یہ اپنے ملک کی پہلی مصنفہ ہیں جنہوں نے ادب میں نوبل انعام حاصل کیا ہے۔ ہان کے قلم میں عجیب سحر ہے اور یہ شاعرانہ نثری طرز میں انسانی زندگی کی نزاکت اور حساسیت کو بے نقاب کرنے کا ملکہ رکھتی ہیں۔ ان کے فن پاروں کا بنیادی موضوع درد، کرب اور اندرونی اضطراب ہے جو معاشرتی صدمات کی بناء پر انسانوں کے اندر رچ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ روح کو زخمی کر دیتا ہے۔ ہان ان جذبات کی نہ صرف عکاسی کرتی ہیں بلکہ نہایت جرأت سے ادبی پیرائے میں اسے بیان بھی کرتی ہیں جس بناء پر ادب میں انھیں جدت کار کا درجہ و مقام حاصل ہے۔ ان کے بارے میں ادبی نقادکہتے ہیں کہ انھوں نے کورین لکھاریوں کی ایک نسل کو زیادہ سچ بولنے اور اپنے موضوعات میں زیادہ جرأت مند ہونے کی ترغیب دی ہے۔

’میں بہت حیران ہوں اور باعزت محسوس کر رہی ہوں‘

2024 میں ادب میں نوبل انعام حاصل کرنے والی مصنفہ ہان کانگ نے اپنے بیٹے کے ساتھ جنوبی کوریا میں واقعے اپنی گھر میں رات کا کھانا ختم کیا ہی تھا کہ انھیں فون پر ایک کال موصول ہوئی۔ یہ کال نوبل انعام کی نوید لیے تھی۔ جس کے ذریعے انھیں نوبل انعام کی خوش خبری کے ساتھ یہ بھی بتایا گیاکہ وہ جنوبی کوریا میں پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ اعزاز مل رہا ہے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جنوبی کوریا کے تمام لکھاریوں کی تحاریر نے مجھے اس قدر متاثر کیا ہے کہ میں اس مقام تک پہنچ سکی ہوں۔ فون پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ کس طرح لکھنے والوں کی اجتماعی کوششوں سے انھیں حوصلہ ملا۔ ان کی تمام کوششیں اور حوصلہ افزائی ان کی ترغیب بنتی رہی۔ ہان کانگ نے اپنے بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول ”دی ویجیٹیریئن“پر اپنے تحریری عمل کے بارے میں بھی بات کی۔

اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں

”سویرا ہونے والا تھا اور ستارے تیزی سے جھلملا رہے تھے۔ ان کے جھرمٹ میں کتاب اپنی روشنی بکھیر رہی تھی۔ میں نے کتاب کا ورق پلٹا تو صفحے کو چھونے کا لمس ایک مخصوص بو، خوشبودار احساس اجاگر کرتے ہوئے یہ سوال چھوڑ گیا کہ کتاب کیا ہے؟ یہ سوال کس قدر تیکھا تھا۔ میں حافظے کی بھول بھلیوں میں ابھی اس کا جواب ٹٹول ہی رہا تھا کہ کانوں میں آواز کا سنہری قطرہ ٹپکا اور اس سے پیدا ہونے والے گونج کہنے لگی کہ کتاب تو ایک بیتے ہوئے لمحے کا نام ہے۔ یہ وقت کا جلترنگ ہے۔ ایک سریلا ساز ہے۔ گہری رات میں مہکتا ہوا روشن چاند ہے۔ یہ خوابوں کا قافلہ اور گزرے وقت کی گزارش ہے۔ بھید وں کی راگنی اور گردشِ رنگِ چمن کو دیکھنے کا درپن ہے۔ کتاب، قدرت کا انمول رتن ہے۔“

سری لنکا: ”عوامی بغاوت کے 2 سال بعد مارکس وادی صدر بن گیا“

نئے سری لنکن صدرکا انتخابی منشور غریبوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے موجودہ فریم ورک کے اندر کچھ تبدیلیوں کی تجویز پیش کرتا ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے مقداری اور ساختی اہداف پر نظر ثانی سے انکار کرنے پر معاہدہ توڑنے جیسے اقدام کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کے اندر رہتے ہوئے اس منشورپر عملدرآمد ممکن نظر نہیں آتا۔ وعدے اور اعلانات نہ صرف مبہم ہیں بلکہ ان کو پورا کرنے کیلئے کوئی ٹائم فریم بھی نہیں دیا گیا۔ کئی دہائیوں سے شاؤنزم اور بالادستی میں ڈوبی سنہالہ قوم میں انتخابی بنیادیں ان آئینی تبدیلیوں کی راہ میں بھی رکاوٹ ہونگی، جن کا وعدہ کیا گیا ہے۔

’پنجابی مزدوروں کے قتل سے متعلق متضاد دعوے، سچ کہیں درمیان میں ہی ہے‘

’’مسلح کارروائیوں میں پنجابی مزدوروں کے قتل کے حوالے سے ان متضاد دعوؤں میں میرے خیال میں سچ کہیں درمیان میں ہی پایا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں پنجابی اور عام لوگ مارے گئے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی تردید کرنا ایک بددیانتی ہوگی۔ تاہم پھر سارے مرنے والے لوگوں کو عام لوگ قرار دے کر اس کو بطور ایک بیانیہ فروغ دینا بھی شاید ایک درست بات نہیں ہے۔ جن کو یہ مسلح تنظیمیں اپنا دشمن تصور کرتی ہیں، وہ بھی ان کو دشمن تصور کرتے ہیں اور ایسا ہی سلوک ان کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے۔ دونوں طرف متضاد دعوے ہیں، لیکن دونوں طرف عام لوگ بھی مارے گئے ہیں۔۔۔۔بجائے اس کے کہ ہم اس معاملے میں پھنسے رہیں، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس معاملے سے بچ سکتے ہیں، اگر ہاں تو پھر کیسے؟ میرے خیال میں بچا جا سکتا ہے۔ ایک پر امن، جمہوری، ترقی پسند اور عوام دوست ریاست کا قیام کیا بہت مشکل ہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے، دنیا میں لوگوں نے ایسا کیا ہوا ہے۔‘‘