ہوئے آقا فرنگیوں کے غلام

ہوئے آقا فرنگیوں کے غلام
اور پھر بھی وہ ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں
ماضی و فردا و حال سب کے سب پریشان کن ہیں
شہر کے مخصوص بغیر دروازوں والے
ہر لحظہ غنیمت ہے اگر ہاتھ میں ہے جام
جو روٹی کو گھسیٹ گھسیٹ کر
تری نظرکے سمندر سے تشنہ کام آئے
واپس گئے تو گھر کی ہر اک شے نئی لگے
وقت کے سنگھاسن پر کون خوبرو ہو گا
ہم اپنے زخم آنکھوں میں لئے پھرتے تھے