جب تک اونچ اور نیچ ہے باقی ہر صورت بے ڈھنگی ہے
شاعری
قحط
زندانوں میں قحط پڑا ہے
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن: مخدوم محی الدین
وہ ترقی پسند سیاست کے نہ صرف کارکن بلکہ اس کی ادبی اور فکری اساس کے بانیوں میں شامل تھے۔
غزل: کب تک مزار شوق پہ سجدا کریں گے ہم؟
رسم دعا کوبھیڑ میں رسوا کریں گے ہم
آؤ کہ کوئی خواب بنیں
تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں
عجب انداز سے پھیلے گا زنداں ہم نہ کہتے تھے؟ جاں نثار اختر
دوسری عالمی جنگ کا منظر نامہ بھی اس غزل کا پس منظر بیان کر رہا ہے۔ سڑک پر انسانیت کا ایک بے جان جسم چادر میں ملبوس پڑاہے۔
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
تاج محل
سینہ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
کبھی کبھی: فہمیدہ ریاض کی ایک نظم اور ان کا فن
فہمیدہ ریاض کا شمار ملک کے ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے صنفی اور سماجی مساوات کے لئے ہر قدم پر جرات مندانہ آواز اٹھائی۔ انہیں ہمیشہ ایک باشعور اور ترقی پسند شاعرہ کے طورپر یاد رکھا جائے گا۔