نقطہ نظر


جنرل رانی نہیں، میڈم رانی

نوے کی دہائی میں ’جرنل رانی‘ کے نام سے ایک فلم بنائی گئی۔ جب یہ فلم سنسر بورڈ کے پاس پہنچی تو سنسرشپ آف فلم رولز 1980ء کے رُول 6(i)کے تحت اس فلم کو نامناسب قرار دیدیا گیا۔

روس میں سوشلزم کی واپسی ہو رہی ہے

اسکول میں مجھے تاریخ سے متعلق کتابوں، جو زیادہ تر تاریخی ناول تھے اور کچھ سائنسی کتابوں کو پڑھنے میں مزہ آتا تھا۔ گو کہ یونیورسٹی کی سطح پر میں ریاضی کا طالب علم تھا مگر میرا فارغ وقت لائبریریوں اور کتابوں کی دکانوں میں گزرتا جہاں کہانیوں کی کتابیں پڑھتے پڑھتے میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے مارکس، لینن اور ٹراٹسکی پڑھنے کی ضرورت ہے جسکی ایک مثال ٹراٹسکی کی کتاب ’انقلاب سے غداری‘ ہے جو میں نے ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں پڑھنا شروع کی۔

سکویڈ گیم: سرماۓ کے جبر کو بے نقاب کرتی داستان

معاشی اور سماجی نظام میں موجود مقابلے اور مسابقت کی فضامیں یہی گیمز کارفرما ہیں۔ ان گیمز کا انجام سکویڈ گیم پہ ہوتا ہے جو بچے کو پر تشددبناتی ہے اور پھر یہی تشدد اس کے ساتھ پروان چڑھتے ہوئے نظام زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔

کمیونسٹ زبردست ہی ہوتے ہیں: فیض کا گورے افسر کو تاریخی جواب

کانگریس نے ہندوستان چھوڑ و تحریک چلارکھی تھی اور جتنے بائیں بازو کے لوگ تھے خاص طور پر کمیونسٹ اور سوشلسٹ ان سب کو انگریزوں نے دیوالی کیمپ میں نظر بند کر دیا تھا۔ ہمارے ایک بزرگ دوست مجید ملک فوج میں پبلک ریلیشنز آفسر بن کر گئے تو انہوں نے بہت چاہا کہ ہم فوج میں چلے جائیں مگر ہم نے انکار کر دیا کہ یہ امپریلزم کی جنگ ہے ہم اس میں شریک نہیں ہوں گے۔

فیڈل کاسترو بنام عبدالقدیر خان

سچ پوچھئے تو آپ کا نام میں نے کافی سال پہلے بھی سنا تھا جب آپ نے پاکستانی ٹیلی ویژن پر آ کر اپنے کچھ جرائم کا اعتراف کیا تھا۔ کمیں نے کیا،پوری دنیا نے وہ اعتراف ٹیلی ویژن پر دیکھا تھا۔ اسمگلنگ ہمارے ہاں لاطینی امریکہ میں بھی بہت ہوتی ہے مگر جو خیال آپ کو سوجھا‘ وہ تو کبھی پابلو ایسکوبار کو بھی نہ سوجھا ہو گا۔

ملالہ کیوجہ سے نارویجن بچوں اور یوتھ کی نوبل انعام میں دلچسپی بڑھ گئی ہے: ٹونی عثمان

اس طرح سے بہادر صحافیوں کو سراہنا پاکستان کے لئے بھی علامتی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں کبھی بھی کھل کر یہ آزادی میسر نہیں رہی۔ ”نیا پاکستان“ بننے کے بعد تو آزادی اظہارکا گلا گھوٹنے کی متعدد مثالیں ہیں۔ مسئلہ چاہے سرمد کھوسٹ کی فلم ”زندگی تماشہ“ کی ریلیز کا ہو یا جیو سے صحافی حامد میر کو ہٹانے کا، یا مصنف محمد حنیف کے بین القوامی شہرت یافتہ ناول ’The Case of Exploding Mangoes‘ کا…جس کا اردو ترجمہ بک سٹورز سے ہٹا دیا گیا۔ ’بات کرنی مجھے مشکل ایسی ہی تھی‘۔

افغان شہری طالبان سے متنفر ہیں: سیلی غفار

میرے لیے اور میری جیسی بہت سی خواتین کے لیے افغانستان میں رہنا مشکل ہے، کیونکہ میں خود سڑکوں پر نہیں چل سکتی، میں کام نہیں کر سکتی، خاص طور پر جب ایک عوامی شخصیت ہونے کے ناطے یہ تمام دھمکیاں مل رہی ہیں اور یہ پتہ چل رہا ہے کہ وہ مجھے تلاش کر رہے ہیں۔ میں لوگوں کو منظم نہیں کر سکتی اور نہ ہی اپنے کام کو جس طرح چاہتی ہوں کر سکتی ہوں۔ جب آپ کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے، موبائل فون تک رسائی نہیں ہے، آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ بہت سی خواتین کارکنوں نے ملک چھوڑنے کا انتخاب کیوں کیا اور بہت سے انقلابیوں نے ملک کیوں چھوڑ دیا۔

قوم یوتھ سٹاک ہولم سنڈروم نہیں، وینا ملک ڈس آرڈر کا شکار ہے

افغانستان میں ’فتح مکہ‘پر پاکستانی حکمران ہی نہیں پوری قوم یوتھ انتہائی خوش ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق پچپن فیصد لوگ طالبان کے کابل پر قضے کے حامی ہیں۔ عام لوگوں کو تو ا سلسلے میں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ان تک جب سچ، متبادل سوچ اور بیانیہ پہنچے گا ہی نہیں تو ان کے ذہن حکمرانوں کی مرضی کے مطابق سوچتے رہیں گے۔

بیانیہ بطور سوشل پورن اور ’DW‘ پر وینا ملک کا انٹرویو

خیر پوچھنا صرف یہ تھا کہ ڈوئچے ویلے اس سوشل پورنوگرافی کا حصہ کیوں بن رہا ہے؟ کیا جرمنی میں فیمن اسٹ بحثوں میں صرف پورن سٹارز کو مدعو کیا جاتا ہے؟ یا مکالمے کی سوشل پورنوگرافی صرف پاکستان کے لئے جاری کی جانے والی اردو سروس کے لئے مختص ہے؟