سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے ملک بھر میں طلبہ کو ایک ترقی پسند ایجنڈے پر متحرک کر کے دائیں بازو کو شدید ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے۔

سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے ملک بھر میں طلبہ کو ایک ترقی پسند ایجنڈے پر متحرک کر کے دائیں بازو کو شدید ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے۔
یمن میں ایک لاکھ افراد جنگ سے جبکہ 85 ہزار بھوک سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دو کروڑ سے زائد افراد قحط کا شکار ہیں۔
”یہ مقدمہ سراسر اشتعال انگیزی ہے۔ طلبہ نے یونینز کی بحالی کے لئے جبکہ مزدوروں نے کم از کم تنخواہ کے مسئلے پر ریلی نکالی۔ مارچ کے شرکا نے ٹریفک میں خلل ڈالا نہ کسی کو نقصان پہنچایا۔ مقدمہ شہری انتظامیہ کی بوکھلاہٹ کی نشانی ہے۔ یہ مقدمہ بائیں بازو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے خلاف رد عمل اور آزادی اظہار پر حملہ ہے۔ ہم تمام افراد کے خلاف مقدمے کی واپسی کابھر پور مطالبہ کرتے ہیں۔“
ایک سروے کے مطابق یورپ میں 47 فیصد لوگ ماحولیاتی تبدیلی کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
مظاہرین یہ کہتے نظر آئے کہ وہ ان سب کا استعفیٰ چاہتے ہیں۔
’تم نے ایک مشال شہید کیا تھا‘ آج گلی گلی میں مشال پیدا ہو چکے ہیں۔‘
ہم طلبہ اور مزدور تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور سرکاری اداروں کی نجکاری کے خلاف متحد ہوکر آواز بلند کررہے ہیں۔ مہنگائی کم کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ لاہور میں 29 نومبر ملکی تاریخ کا ایک نیا باب لکھنے کادن ثابت ہوگا۔ طلبہ اور مزدور لال جھنڈے لہراتے ہوئے اپنے مطالبات کو پیش کریں گے۔
مگر کشمیر پر جو ترقی پسندانہ موقف لیبر پارٹی کی گزشتہ کانفرنس میں اپنایا گیا تھا، اس منشور میں لیبر پارٹی اس سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔
اب تک کم از کم 29 افراد گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد سینکروں میں ہے۔
ان کا مقصد بائیں بازو کی سابقہ روایات کو دوبارہ زندہ کرنا ہے جب مزدور اور طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جدوجہد کرتے تھے۔ امید ہے کہ 29 نومبر پاکستان میں بائیں بازو کی ایک نئے سرے سے اٹھان کا آغاز ہو گا۔