نقطہ نظر


ڈاکٹر مریم چغتائی عمران خان کا اکیڈیمک ورژن ہیں

امید ہے جس طرح عمران خان اپنے تازہ انٹرویو میں وکٹم بلیمنگ سے پیچھے ہٹ گئے ہیں، ڈاکٹر مریم چغتائی بھی سیلف ڈیفنس والے فلسفے پر نظر ثانی کرتے ہوئے تسلیم کریں گی کہ سیلف ڈیفنس سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ یکسا قومی نصاب کو ڈی دیڈیکلائز کیا جائے۔

چائنا سے کیا سیکھا جائے؟

چین اور پاکستان میں کچھ باتیں یقینا مشترک بھی ہیں، خصوصاً یہ کہ دونوں ملک اپنی اپنی مذہبی اقلیتوں کے بنیادی حقوق پامال کرتے ہیں۔ وہ وہاں مسلمانوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں اور یہاں غیر مسلم ہمارے عتاب کا شکار ہیں۔ لیکن بہرحال چین نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ ایک تیسری دنیا کا ملک پہلی دنیا میں نہ صرف داخل ہو سکتا ہے، وہ طاقت کی چوٹیوں کو بھی چُھو سکتا ہے۔ یقینا اس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔

مائی نیم از خان اینڈ آئی نو ازبکستان

آج کل ہم دشمن کے بچوں کو بھی نہیں پڑھا رہے کیونکہ سٹوڈنٹس سپین بولدک کے علاقے میں پکنک منا رہے ہیں اس لئے کچھ دنوں کے لئے اگر آپ ہمارے ہاں تاریخ کی ٹیوشن رکھنا چاہیں تو ہمارے پاس ’داخلے جاری ہیں‘۔

جوتے اور تھپڑ مارنے کی سیاست: محنت کشوں کا موقف کیا ہونا چاہئے؟

خوف کے ساتھ ساتھ ہتک کو طالبان نے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ سوات میں چاند بی بی کو کوڑے مارنا اسکی بد ترین شکل تھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک عرصے سے یہ کرتی آ رہی ہے۔ ہتک کے اس ہنر کو مولوی خادم رضوی نے ایک نئی جہت دیدی۔ اگر محنت کش طبقے کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو گی تو عوامی ردعمل ہتک کو بطور ہتھیار استعمال کرے گا۔ بطور سوشلسٹ اور ترقی پسند ہم ہر عمل کی محض اس وجہ سے حمایت نہیں کر سکتے کہ اسے محنت کش طبقے کی اکثریت میں قبول عام حاصل ہے۔ ہم یہ سمجھنے کی کوششی کر سکتے ہیں، کرتے ہیں اور کرنی چاہئے کہ کوئی سوچ محنت کشوں میں کیوں مقبول ہے مگر ہم ہر مقبول عام سوچ کی حمایت نہیں کر سکتے۔

افغان مستقبل کے لئے بائیں بازو اور جمہوریت پسندوں کو ملکر لڑنا ہو گا: یونس نگاہ

سب سے پہلے تو ہمیں جنگ ختم کرنا ہوگی، جنگ کے ساتھ کچھ بھی نہیں چل سکتا۔ ہمیں طے کرنا ہو گا کہ کیسے اس جنگ کو ختم کیا جائے۔ جنگ کے بعد افغانستان کو پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات اور مسائل ختم کرکے ڈویلپمنٹ پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ اس وقت جو سیاست ہے وہ لوگوں کی روز مرہ زندگی سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔ ڈیورنڈ لائن، تاجکستان، ازبکستان، فارسی، پشتون تقسیم وغیرہ جیسے مسائل جن کے گرد سیاست ہو رہی ہے یہ عام لوگوں کی زندگی کو متاثر نہیں کر رہے ہیں، یہ ایشوز سیاستدانوں کی طرف سے بنائے گئے ہیں۔ تعلیم یافتہ افراد کو حکومت پر دباﺅ ڈالنا چاہیے کہ وہ پاکستان، ایران اور دیگر کےساتھ بات چیت کریں اور سرحدی ایشوز حل کریں اور سرحدوں کے آر پار رہنے والے انسانوں کے مسائل کے حل کے حوالے سے سنجیدگی اختیار کریں۔

امتحان ملتوی نہ کرنا طلبہ کا مستقبل تباہ کرنا ہے: زینب احمد

ظاہر ہے ریاست طاقتور ہے۔ ہم نے اپنے حق کیلئے جدوجہد کی ہے اور جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے اور جبری طور پر ہم سے امتحانات لئے جاتے ہیں تو ہم کوشش کریں گے کہ اپنا قیمتی سال اور مستقبل بچانے میں کامیاب ہوں۔ تاہم ہم اب اپنے حقوق کی جدوجہد کو کسی طور پر ترک نہیں کرینگے۔ ہم نے یہ ضرور سیکھ لیا ہے کہ یہاں حق لینے کیلئے لڑنے کے علاوہ اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ آج اگر ہم کامیاب نہ بھی ہو سکے تو مستقبل میں ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔