ایک تاجر حبیب اللہ، جو گزشتہ40سال سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں امید تھی کہ افغانستان کی اجنبی سرزمین پر جا کر وہ اس رقم سے اپنی زندگی دوبارہ شروع کر سکیں گے۔ تاہم اپنی محنت سے کمائی ہوئی چیزیں ساتھ رکھنے کی اجازت نہ دے کر ان کی یہ امید بھی توڑ دی گئی ہے۔
Month: 2023 نومبر
برطانوی سیکرٹری داخلہ نے فلسطین کے حامی مظاہرین کو نفرت پھیلانے والے قرار دیدیا
انہوں نے ’ٹائمز‘ اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ ”میں نہیں مانتی کہ یہ مارچ صرف غزہ کی مدد کی مانگ کر رہے ہیں۔ وہ بعض گروہوں، خاص طور پر اسلام پسندوں کی طرف سے بالادستی کا دعویٰ ہیں۔ جس طرح ہم شمالی آئرلینڈ میں دیکھنے کے زیادہ عادی ہیں۔ یہ خبریں بھی پریشان کن ہیں کہ مارچ کے کچھ منتظمین کے حماس سمیت دہشت گرد گروپوں کے ساتھ روابط ہیں۔“
جنگی پروپیگنڈہ فلموں پر روس کے لاکھوں ڈالر خرچ لیکن فلمیں فلاپ
حال ہی میں روس نے ’سویڈیٹل‘(گواہ)کے نام سے جاری جنگ کے بارے میں پہلی فیچر فلم ریلیز کی ہے۔ یہ فلم اگست میں روس کے 1131سینما گھروں میں ریلیز کی گئی۔ جارحانہ اشتہار بازی اور مسابقت کا ہر راستہ روکنے کے باوجود 2ملین ڈالر کے بجٹ سے تیار ہونے والی یہ فلم پہلے چار دنوں میں محض 70ہزار ڈالر کمانے میں کامیاب ہو پائی۔
بلوچستان میں نظریات کی جنگ
اسی طرح بلوچستان کے وسطی اور مشرقی علاقوں میں اردو میں مذہبی لٹریچر بڑے پیمانے پر پڑھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچی مصنفین اور قارئین زیادہ تر مکران میں مقیم ہیں لیکن ان کے سامعین بھی زیادہ تر مکران میں مقیم ہیں۔ مکران کے اضلاع میں سے ایک پنجگور بھی نسبتاً مذہبی نوعیت کا ہے۔ مخلوط تعلیم اور پرائیویٹ سکولوں کو حالیہ برسوں میں مذہبی انتہا پسندوں نے بند کر دیا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بلوچی زبان میں چند رسائل ہیں،جو صرف مذہبی امور پر گفتگو کرتے ہیں۔
ان اختلافات اور مختلف سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی ان کو حل کرنے میں ناکامی نے بلوچستان میں علم کی پیداوار کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس جمود کا حتمی نقصان بلوچ شہریوں اور خاص طور پر نئی نسلوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ حقیقت اور پروپیگنڈے میں فرق کرنا ایسا نہیں ہے جس کا انہیں بوجھ برداشت کرنا چاہیے، لیکن یہ ایک بوجھ ہے جسے وہ اٹھانے پر مجبور ہیں۔
جب طوفان جھوم کے اٹھے!
لیکن آج بالشویک انقلاب کے 102 سال بعد سوال یہ ہے کہ کیا سرمایہ داری انسانیت کے مسائل حل کر رہی ہے یا انہیں زیادہ گھمبیراور پیچیدہ بنا رہی ہے؟ امارت اور غربت کی خلیج اتنی وسیع پہلے کبھی نہ تھی جتنی آج ہے۔ جہاں سات افراد کے پاس دنیا کی آدھی آبادی سے زائد دولت ہے۔ ایک طرف غربت، بیروزگاری اور محرومی کی نہ ختم ہونے والی ذلتیں ہیں‘ دوسری طرف ماحولیات کی تباہی ساری نسل انسان کے وجود کے لئے ہی خطرہ بن رہی ہے۔ پچھلے سو سال میں بہت کچھ بدل گیا ہو گا لیکن طبقاتی تضاد اور جبر و استحصال کم نہیں بلکہ شدید ہی ہوئے ہیں۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں‘ لبنان، ایکواڈور، چلی، فرانس، سپین اور عراق سمیت دنیا کے بیشتر ممالک بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہروں اور عوامی تحریکوں کی زد میں ہیں۔
جان جاناں: محبت ریاست سے زیادہ طاقتور
معروف مارکسی نظریہ دان اور فورتھ انٹرنیشنل کے رہنما، ارنسٹ مینڈل، کا ایک مشغلہ تھا جاسوسی ادب پڑھنا۔ ایک بار انہوں نے جاسوسی ادب بارے ایک تفصیلی مضمون لکھا جس میں جاسوسی ادب کا مارکسی جائزہ لیا گیا۔ یہ طویل مضمون ان کی آن لائن آرکائیو میں موجود ہے۔
اپنے مضمون میں انہوں نے ایک دلچسپ نتیجہ یہ اخذ کیا کہ جاسوسی ادب میں ابتدائی طور پر پرائیویٹ طور پر کام کرنے والے جاسوس کیس حل کرتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سرمایہ داری کا ابھار ہو رہا تھا۔ ایک بار جب سرمایہ دارانہ ریاستیں مستحکم طور پر قائم ہو گئیں تو مسٹر ی کیس کو حل کرنے کا کام جاسوسی ادب میں بھی زیادہ تر ریاست یعنی پولیس یا سی آئی ڈی طرح کے اداروں نے سنبھا ل لیا۔
افغان مہاجرین: جائیں تو جائیں کہاں؟
ان مظلوموں کے ساتھ جو انسانیت سوز رویہ روا رکھا جا رہا ہے اس کے خلاف آواز اٹھانا ہر ذی شعور اور باضمیر انسان کا فریضہ بنتا ہے۔ اس نظام میں سرمائے کی نقل و حرکت تو آزاد ہے لیکن انسانوں کو سرحدوں میں قید کر کے ویزوں کا اسیر بنا دیا گیا ہے۔
فلسطین کیسے آزاد ہو گا؟
پی ایل او اب دو ریاستی فارمولے سے بھی پیچھے ہٹ کر ’اسرئیل کے اندر فلسطینیوں کے حقوق‘ کی پوزیشن تک جا پہنچی ہے۔ دوسری طرف حماس کی اسرائیل سے لڑائی جاری ہے لیکن یہ ایک بنیاد پرست تنظیم ہے جس کا مقصد ایک تھیوکریٹک فلسطین کا قیام ہے۔ جو ہمارے نزدیک انتہائی رجعتی خیال ہے۔ لہٰذا ہمارے اور اس کے درمیان ناقابل مصالحت فرق اور اختلافات حائل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حماس میں کچھ دھڑے ایسے بھی ہیں جو 1967ء کی جنگ سے پہلے کی سرحدی حدود کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں جس سے اسرائیلی ریاست کے متوازی فلسطین کے قیام کا ناقابل حل تضاد پیدا ہوتا ہے۔ حماس غزہ میں اجرتوں میں اضافے اور کرپشن اور اقربا پروری کے خاتمے کے لیے محنت کشوں کے مظاہروں اور ہڑتالوں کو جبر کے ذریعے کچلتی بھی ہے۔ ایسے میں جب سیاسی میدان میں یہ رجعتی طاقتیں ہمارے مد مقابل ہوں‘ انقلابی متبادل کی تعمیر کوئی آسان کام نہیں ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی بند کی جائے: لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ کراچی
اسرائیل کی غزہ پر جنگ کوئی اپنے دفاع کے لئے کی جانے والی کارروائی نہیں ہے جیسا کہ وہ جھوٹا دعویٰ کرتا ہے۔ بلکہ یہ نسل کشی کا ایک منصوبہ بند اور منظم عمل ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کی قومی شناخت اور وجود کو مٹانا ہے۔ غزہ پر اسرائیل کی جنگ اس کے قبضے اور نسل پرستی کے لئے جاری نوآبادیاتی منصوبے کا حصہ ہے جس نے فلسطینی عوام کو سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ان کے بنیادی حقوق اور وقار سے محروم رکھا ہے۔ غزہ پر اسرائیل کی جنگ بھی تمام عرب ممالک اور مسلم دنیا کے خلاف جنگ ہے اور خطے اور دنیا کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہے۔
نسل پرست اسرائیلی ریاست کا خاتمہ کیا جائے: انٹرنیشنل پیپلز اسمبلی
بیان میں کہا گیا ہے کہ جوہانسبرگ میں 14 اکتوبر سے 18 اکتوبر تک ”انسانیت کی مشکلات“کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کے تمام شرکاء فلسطین میں صیہونی ریاست کی جانب سے جاری حملوں اور ان کی مزاحمت کو گہری نظر اور شدید رنج سے دیکھ رہے ہیں۔ ان حملوں نے امریکی سامراجیت اور اس کے یورپی اتحادیوں کی حمایت سے فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ایک خونخوار جنگ کا روپ اختیار کرلیا ہے۔