لاہور (نامہ نگار) پاکستان اور بھارت کے مابین متنازعہ ہمالیائی خطہ جموں کشمیر پر فوجی تناؤ کم کرنے کی نئی کوششوں کے تحت رواں سال جنوری میں پاکستان اور بھارت کے سینئر انٹیلی جنس افسران کے مابین دبئی میں خفیہ مذاکرات کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ بات بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کو نئی دہلی میں خفیہ مذاکرات سے متعلق معلومات رکھنے والے ذرائع سے پتہ چلی ہے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایٹمی حریفوں کے مابین تعلقات 2019ء میں بھارتی فوجی قافلے پر ہونے والے حملے اور رد عمل میں پاکستان میں مقیم مبینہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر بھارتی فضائی حملے کے بعد کشیدہ ہیں۔
اگست 2019ء میں بھارتی وزیراعظم نے جموں کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے اپنے زیر انتظام جموں کشمیر کی داخلی خود مختاری کو ختم کر دیا تھا، جس کے بعد پاکستان نے تمام سفارتی تعلقات ختم کر دیئے تھے اور دو طرفہ تجارت بھی معطل کر دی گئی تھی۔
رائٹرز کے ذرائع کے مطابق دونوں حکومتوں نے بیک چینل سفارتکاری کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے جس کا مقصد تعلقات کو معمول پرلانے کیلئے روڈ میپ طے کرنا ہے۔ رائٹرز کے ذرائع نے بتایا کہ بھارتی خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ انیلیسیس ونگ (را) اور پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے عہدیداروں نے متحدہ عرب امارات کی حکومت کی معاونت سے دبئی میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کی۔ تاہم بھارتی وزارت خارجہ اور پاکستانی فوج نے تاحال کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
پاکستانی دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے رائٹرز کو بتایا کہ ”مجھے یقین ہے کہ بھارت اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے افسران کئی مہینوں سے تیسرے ممالک میں ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں تھائی لینڈ، دبئی اور لندن میں اعلیٰ سطح کے لوگوں کے مابین ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔“
اس طرح کی ملاقاتیں ماضی میں بھی ہو چکی ہیں، خاص طور پربحرانوں کے وقت لیکن کبھی بھی سرعام اعتراف نہیں کیا گیا۔ دہلی کے ایک شخص نے رائٹرز کو بتایا کہ ”اب بھی بہت کچھ غلط ہو سکتا ہے، یہ سب غلط ہے، اسی وجہ سے کوئی بھی عوامی سطح پراس پر بات نہیں کر رہا ہے۔ ہمارے پاس اس کا نام تک نہیں ہے، یہ کوئی امن عمل نہیں ہے۔ آپ اسے از سرنو مشغولیت کہہ سکتے ہیں۔“
دونوں ممالک کے پاس تعلقات کو بہتر کرنے کی وجوہات ہیں۔ بھارت گزشتہ سال سے چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ میں پھنسا ہوا ہے اور نہیں چاہتا کہ پاکستان کے محاذ پر بھی فوج پھیلی ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی مشکلات اور آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پروگرام میں شامل چین کا اتحادی پاکستان طویل عرصہ تک کشمیر کی سرحد پر کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ امریکہ کے پیچھے ہٹتے ہی اسے اپنے مغرب میں افغان سرحد کو بھی مستحکم کرنا ہے۔
پاک بھارت اور کشمیر کے محاذوں پر جنگ کے بارے میں حالیہ عرصے میں شائع ہونیوالی کتاب کی مصنف اور رائٹرز کی سابق صحافی مائرہ میک ڈونلڈ کے مطابق ”ہندوستان اور پاکستان کیلئے بہتر ہے کہ وہ بات چیت کریں، یہ بھی بہتر ہے کہ پبلیسٹی کرنے کی بجائے خاموشی سے بات چیت کی جائے لیکن مجھے نہیں لگتا کے یہ تناؤ کے بنیادی انتظام سے زیادہ آگے جائے، ممکنہ طور پر ایک مشکل دور میں دونوں ملکوں کی مدد کر سکتا ہے۔ پاکستان کو افغانستان سے امریکی انخلا پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ بھارت کو چین کے ساتھ متنازعہ سرحد پر اس سے کہیں زیادہ غیر مستحکم صورتحال کا سامنا ہے۔“
ادھر جنوری میں دبئی میں منعقدہ اجلاس کے بعد بھارت اور پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ جموں کشمیر کو تقسیم کرنے والی سرحد لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کریں گے جس کی وجہ سے درجنوں شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
دونوں فریقوں نے کئی دہائیوں سے ہونیوالی خونریزی کے نتیجے میں متاثرہ خطے میں حالات معمول پر لانے کی کوششوں کے حصے کے طورپر رواں سال اپنے اپنے زیر انتظام حصوں میں انتخابات کے انعقاد کے منصوبوں کا بھی اشارہ دیا ہے۔
رائٹرز کے ذرائع کے مطابق ان خفیہ مذاکرات کے بعد اگست 2019ء میں مودی کی جانب سے جموں کشمیر کی داخلی خود مختاری منسوخ کرنے پر پاکستان اپنے سخت اعتراضات سے گریز کرے گا اور بدلے میں بھارت کنٹرول لائن کے اپنے جانب ہونے والے تشدد کا الزام پاکستان پر لگانے سے گریز کرے گا۔
واضح رہے کہ بھارت طویل عرصے سے کشمیر میں جاری بغاوت کیلئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا آیا ہے جبکہ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ رائٹرز کے ذرائع کے مطابق ”اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ کشمیر کے اندر مستقبل میں بھی حملے ہوں گے، ان سے نمٹنے پر بات چیت کی جائے گی لیکن اگلے حملے کے ساتھ ہی اس بات چیت کے عمل کو رکنے نہیں دیا جائے گا۔“
رائٹز کے ساتھ گفتگو کرنے والے تمام افراد اس بات پر متفق ہیں کہ 74 سالہ قدیم تنازعہ کے حل کیلئے ابھی تک کوئی عظیم الشان منصوبہ نہیں ہے، بلکہ دونوں فریق طویل امن اور مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کیلئے تناؤ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی رؤف حسن نے رائٹرز کو بتایا کہ ”پاکستان ایک جیو سٹریٹیجک ڈومین سے جیو اکنامک ڈومین میں تبدیل ہو رہا ہے۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن اس عمل کیلئے ایک اہم جز ہے۔“